آج کا کالم اسرائیلی سفاکیت کی نذر 2سالہ فلسطینی بچی فاطمہ شہید کے نام جو والد کے ہاتھوں میں لائیو کیمرے کے سامنے دم توڑ گئی ، ایک دنیا دہل گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پچھلے تین ہفتوں کے اقدامات نے حیران کیا ہے نہ پریشان۔ دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ کا پستی، گراوٹ، انتشار کی جانب جاری سفر منزل مقصود تک پہنچنے سے پہلے خطہ ارضی کو کس حد تک تباہ و برباد کر پائیگا۔ صدر ٹرمپ کا غزہ بارے بیان اتنا ہی غیر سنجیدہ ہے جتنے دیگر اقدامات اور بیانات ۔
میرے نزدیک سیاست (اچھی یا بُری سیاست بالائے طاق) آئیڈیلزم اور اجتماعی خوابوں کا دوسرا نام ہے۔ حیف! پچھلی کئی دہائیوں سے سیاست میں کاروبار اور دیگر شعبہ زندگی کے پیشوں میں کمال کے بل بوتے پر شہرت اور پیسے والے قابض ہو چکے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ اسکی بدترین مثال ہے۔ آج امریکہ پر ’’کھرب پتیوں‘‘ کی یلغار ہے، OLIGARCHY قائم ہو چکی ہے۔
سقوط سوویت روس کے بعد امریکہ اکلوتی سپرپاور کے طور پر سامنے آیا تو دُنیا کو ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ میں پرونے کا اعلان فرمایا، 1988 میں 21ویں صدی کو امریکی صدی کا نام دیا۔ یقیناً ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ اور ’’21ویں امریکی صدی‘‘، امریکہ کا وہ خواب جو شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ بالآخر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’نیو ورلڈڈس آرڈر (DISORDER )" نافذ کرنے کی ٹھانی۔ پراپرٹی ڈیلر صدر، خطہ ارضی کو رئیل اسٹیٹ سمجھ کر چلائے گا۔ دو دن پہلے غزہ پر بیان کو سنجیدہ نہیں لینا کہ غزہ کھنڈرات کا ڈھیر، صدر ٹرمپ کی دلچسپی پراپرٹی ڈیلنگ میں ہے۔
آفرین! حکومت پاکستان پر کہ ٹرمپ بیان پر معمولی اشک شوئی کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ماسوائے جماعت اسلامی اور JUIکسی دوسری سیاسی یا مذہبی جماعت کا علامتی مذمتی بیان بھی سامنے نہیں آیا۔ حکومت پاکستان سے گِلہ بنتا نہیں کہ پچھلے 20 برسوں سے ہر حکومت نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کرنے کی ہر ممکن کوشش کر ڈالی، عوام الناس کے غضب سے ڈر کر، پایہ تکمیل نہ پہنچ پائی۔ حالات جس نہج پر، اگر موجودہ حکومت اسرائیل سے تعلقات بنانے میں ناکام رہی تو پھر شاید مشکلات میں جا پڑے۔ اگلی نئی حکومت وقت ضائع کئے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرے گی چاہے اسکی جان جائے یا آن جائے۔ کاش بلاول بھٹو آج ٹرمپ کے غیراہم ناشتہ سے برأت لیتے اور غزہ بیان پربائیکاٹ کرتے۔ آج اسلامی ممالک نے صدر ٹرمپ کے بیان کو رَد کیا تو ساتھ لف کہ ’’دو ریاستی فارمولا کے نفاذ کے بغیر تعلقات بحال نہیں ہونگے‘‘، ایک شاطرانہ بیان سمجھتا ہوں۔
پچھلی چار دہائیوں سے اسرائیل کو تسلیم کروانے کیلئے کئی ہنر آزما چکے، کئی معاہدے اپنائے گئے۔ اصل واردات دو ریاستی فارمولا کی آڑ میں اسرائیل کا سرزمین فلسطین پر حق تسلیم کرنا ہے۔ 40سال میں تعلقات قائم کرنے کیلئے ایسے کئی ہنر آزمائے گئے، بمشکل 10 ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر پائے۔ سعودی اسرائیلی تعلقات قائم ہونے کو تھے کہ7 اکتوبر 2023کو حماس کے القاسم بریگیڈ نے نہ صرف اسرائیل بلکہ ایک عالم کو ہکا بکا کر ڈالا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے جو اسلامی ممالک ٹکٹ کٹوا کر لائن بنا چکے تھے، تب سے منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ عرب لیگ اور پھر منتظمتہ التعاون اسلامی (OIC) کا آغاز اگرچہ اسرائیل کے ناسور کا خاتمہ کرنے کیلئے تھا، قیام کے کچھ عرصہ بعد ہی امریکی ہاتھ کا جھنجھنا بن گئے۔
مسلمانانِ ہند و پاک کے اجزائے ترکیبی باقی مسلمانانِ ارضی سے مختلف، 1920ءسے شروع ہونیوالی’’تحریک خلافت‘‘ ہو یا ریاست اسرائیل کے قیام کی کوشش بارے معمولی گفت و شنید اپنے طور پر اُمت مسلمہ کے دُکھ درد، عالم اسلام میں اُٹھنے والی ہر تحریک میں دامے درمے سخنے شریک رہے۔ پاکستان کا مطالبہ بعد میں آیا، قائد اعظم، علامہ اقبال اور دیگر مسلمان اکابر کی ریاست فلسطین بارے فکری یکسوئی پہلے سے موجود تھی۔ فلسطین میں مقیم ہزاروں سال سے حقی سچی مالکوں نے ہی تو جوق در جوق اسلام قبول کیا تھا۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے مالی اخراجات یہودی اداروں اور بینکوں نے اُٹھائے۔ برطانیہ اور فرانس کی مالی مدد میں خصوصاً صہیونی سرمایہ دار روتھس چائلڈ (ROTHSCHLID) پیش پیش تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے اختتام سے پہلے حکومت برطانیہ کی طرف سے وزیر خارجہ آرتھر بیل فور (BALFOUR) نے 2نومبر 1917ءکو والٹر روتھس چائلڈ کو خط تحریر کیا، ’’جہاں جنگ میں اسکی مدد و خدمات کا اعتراف کیا وہاں بدلے میں سرزمین فلسطین پر یہودی ریاست کے قیام کا وعدہ بھی کیا‘‘، معاہدہ ’’بیل فور ڈکلیئریشن‘‘ کہلایا۔ ’’بیل فور معاہدہ (1917)‘‘ کی تکمیل میں اگلے 30سال دنیا بھر سے صہیونی یہودیوں نے دھڑا دھڑ زمینیں خریدیں اور فلسطین کو گھس بیٹھیوں سے بھر دیا۔ جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر علاقے کا تمام اسلحہ گولا بارود دور دراز سے آئے یہودی آبادکاروں میں تقسیم کر دیا گیا۔ 1948ءمیں انہی گھس بیٹھیوں نے بزور بندوق ریاست اسرائیل قائم کی ۔عرب قیادت کو ابتدا میں اندازہ ہی نہ ہو سکا کہ قیام اسرائیل کی سازش اور اغراض و مقاصد کیا تھے۔ 7 عرب اسرائیل جنگیں (1948تا 2006) ہوئیں، ہر دفعہ اسرائیل نے کچھ نہ کچھ زمین ہتھیا لی۔ اس بار پہلی دفعہ حماس نے اسرائیل کی رعونت اور زُعم کا ستیاناس کر ڈالا۔ حالیہ جنگ میں اسرائیل مالی، جانی، عزت، ساکھ بہت کچھ گنوا چکا ہے۔ چند ہزار حماس کے لشکر سے جنگ جیت نہ سکا، اب امریکہ کو جنگ میں براہ راست ملوث کرنا چاہتا ہے۔ ٹرمپ کا حالیہ بیان گیدڑ بھبکی یا اسرائیل کو طفل تسلی کے علاوہ کچھ نہیں۔ مقصد، اسرائیل کے زخموں پر مرہم رکھنا اور بعد ازاں (غزہ پر قبضہ نہ کرنے کی صورت میں) اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے مسلمان ممالک کیلئے عزت کی راہ ہموار کرنا ہے۔
حالیہ جنگ نے پوری دنیا میں اسرائیل کے جرائم کو عریاں کر دیا ہے، اسرائیل تنہا ہو چکا ہے۔ اسرائیل کی بمباری کا نشانہ شہری آبادی، مہاجرین کیمپس، ہسپتال، اسکول، 2ملین کی آبادی میں 60 ہزار کے لگ بھگ عام شہری ہلاک اور لاکھوں زخمی، جن میں کثیر تعداد میں معصوم بچے، خواتین، صحافی، ڈاکٹر، نرسیں بلاتفریق ہر شعبہ زندگی سے متعلق ہیں۔ چند ہفتے پہلے اسرائیل نے عظیم ریاست اسرائیل کے فیزون کا نقشہ دیا، گریٹر اسرائیل میں فی الحال شام، اردن، جنوب مغربی عراق، لبنان وغیرہ شامل ہیں۔ عملاً گریٹر اسرائیل ایک ایسا خواب جو بالآخر مدینہ تک پھیلے گا۔ اگرچہ آج کی صورتحال رنج غم، مایوسی کے علاوہ کچھ نہیں، اگرچہ ایران، ترکی کے سوا تمام مسلمان حکمران درپردہ اسرائیل کے معاون ہیں، اگرچہ ’’رنج و الم کی شام لمبی ہے مگر یہ شام ہی تو ہے‘‘۔ کیسے مان لوں کہ 2سالہ فاطمہ کا لہو عرش نہیں ہلائے گا، کیسے مان لوں کہ رب ذوالجلال کا جلال حرکت میں نہیں آئیگا۔ اُمت مرحوم ضرور ہے، فاطمہ کا خدا ہر لمحہ زندہ و بیدار ہے، کُن فیکون کا انتظار ہے۔