اسلام آباد(نمائندہ جنگ )سپریم کورٹ کے چار ججوںنے عدالت عظمیٰ میں ججوں کی خالی نشستوں پر 8نئی تقرریوں کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کا10 فروری کو طلب کیا گیا اجلاس موخر کرنے کا مطالبہ کیا ہے‘خط میں کہاگیاہے کہ 26ویں ترمیم کے فیصلے اوراسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی سنیارٹی طے ہونے تک ججز تعیناتی مؤخر کی جائے ‘نئے ججز آئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی؟ یہ تنازع بنے گا‘ عدالت کو اس صورتحال میں کیوں ڈالا جا رہا ہے؟کس کے ایجنڈے اور مفاد پر عدالت کو اس صورتحال سے دوچار کیا جا رہا ہے؟۔ جسٹس منصور علی شاہ‘ جسٹس منیب اختر‘جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی جوجوڈیشل کمیشن کے چیئرمین بھی ہیں، کے نام تین صفحات پر مشتمل ایک طویل خط قلمبند کیا ہے ،جس میں موقف اختیار کیا گیاہے کہ چونکہ 26 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا چکا ہے اورمعاملہ اس وقت آئینی بینچ کے سامنے زیر التواء ہے ،اس حوالہ سے اس سے قبل بھی ہم میں سے چند ججوں نے آپ سے اس مقدمہ کی سماعت کے لئے فل کورٹ بینچ کی تشکیل کی استدعا کی تھی، تاہم اس کے باوجود معاملہ سماعت کے لئے آئینی بینچ کو بھیج دیا گیا، جہاں ایک ابتدائی سماعت بھی ہو چکی ہے،خط کے مطابق معاملہ آئینی عدالت میں زیر التواء ہونے کے باوجود سپریم کورٹ میں آٹھ نئے ججوں کی تقرری کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے،اگر اس وقت سپریم کورٹ میں نئے جج آگئے تو فل کورٹ کون سی ہو گی؟یہ تنازع بنے گا‘خط کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین جج دیگر ہائیکورٹس سے ٹرانسفر ہوکرآئے ہیں ،آئین کی مطابق نئے ججوں کا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دوبارہ حلف لینالازمی تھا،حلف لئے بغیر ان کا جج ہوناہی مشکوک ہوجاتا ہے،لیکن اس کے باوجود اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنیارٹی لسٹ بدلی جا چکی ہے ،خط کے مطابق موجودہ حالات میں سپریم کورٹ میں نئے جج مقررکرنے سے کورٹ پیکنگ کا تاثر ملے گا۔خط کے مطابق 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق مقدمہ میں آئینی بنچ فل کورٹ کی تشکیل کا حکم بھی جاری کرسکتا ہے،اس لئے آئینی بنچ سے26 ویں آئینی ترمیم سے متعلق مقدمات کی سماعت کے لئے فل کورٹ بنچ کی تشکیل کی درخواست کے فیصلہ اوراسلام آباد ہائیکورٹ کے ججوں کی سنیارٹی طے ہونے تک نئی تقرریوں کا سلسلہ روک دیا جانا چاہیئے سپریم کورٹ میں نئے ججوں کی تقرری کا معاملہ بھی موخرکردیا جانا چاہیے۔