روایتی کرنسی کی طرح کرپٹو کرنسی بھی تیزی اور مندی کی صُورتِ حال سے گزرتی ہے۔ تاہم، روایتی کرنسی میں اُتار چڑھاؤ (Volatility) اتنا تیز رفتار نہیں ہوتا، جتنا کہ کرپٹو کرنسی میں دیکھنے میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کرپٹو کرنسی کی مارکیٹ میں تیزی آتی ہے، تو اس کی قیمت ہزاروں، لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے اور اِسی طرح جب مندی کا رجحان ہوتا ہے، تو نقصان بھی ہزاروں، لاکھوں ہی میں ہوتا ہے۔ ذیل میں اس تیز ترین اُتار چڑھاؤ سے مُلکی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
1 - مالیاتی عدم استحکام
اگر یہ پوچھا جائے کہ سونا، روایتی کرنسی، ریئل اسٹیٹ، شیئرز اور کرپٹو کرنسی میں سے کون سی شے میں اُتار چڑھاؤ بہت تیزی سے واقع ہوتا ہے، تو اس کا جواب ہے، کرپٹو کرنسی۔ نیز، اس بات کی پیش گوئی کرنا بھی ناممکن ہے کہ کرپٹو کرنسی میں کس قدر اتار چڑھاؤ آئے گا، کیوں کہ جب کسی شے کی قیمت میں دھیمی رفتار سے اُتار چڑھاؤ آتا ہے، تو اس کی 99 فی صد دُرست پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔
کسی مُلک کی معیشت میں کرپٹو کرنسی جس قدر زیادہ دخیل ہوگی، تو اِس ورچوئل کرنسی کے تیزی سے اُتار چڑھاؤ کے منفی اثرات بھی اسی قدر شدّت سے مرتّب ہوں گے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکرہےکہ سونا، ریئل اسٹیٹ اور شیئرز کی مارکیٹس کا اُتار چڑھاؤ عام آدمی کو زیادہ متاثر نہیں کرتا، کیوں کہ کسی بھی مُلک میں بہت کم لوگ ہی سونے، ریئل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ سے وابستہ ہوتے ہیں، مگر کرنسی کے لین دین سے مُلک کا ہر شہری جُڑا ہوتا ہے۔ اس لیے کرنسی کا تیز ترین اُتار چڑھاؤ عام آدمی کومتاثرکرتا ہےاورمُلکی معیشت کوعدم استحکام سے دو چار کردیتا ہے۔
2۔ غیر واضح معاشی پالیسیز
جن ممالک کی معاشی پالیسیز واضح نہیں ہوتیں یا ان میں بار بار ردّوبدل ہوتا رہتا ہے، ان ممالک کی معیشت کے حوالے سے سرمایہ کار شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں اور یہ تشکیک ہر لحاظ سے مُلکی معیشت کے لیے زہرِقاتل ثابت ہوتی ہے۔
چُوں کہ ورچوئل کوائنز کی قدر ہمہ وقت تغیّر پذیر رہتی ہے اور جب کرپٹو کرنسی کو غیر مستحکم معیشت میں متعارف کروایا جاتا ہے، تو اس کا نتیجہ مزید بگاڑ کی صُورت برآمد ہوتا ہے، جب کہ معاشی اعتبار سے مضبوط ممالک (امریکا، یورپ، بھارت اور متحدہ عرب امارات وغیرہ) کرپٹو کرنسی سے اس لیے فائدہ اُٹھا رہے ہیں کہ اُن کی معیشت مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ اس لیے اگر کسی مُلک نے کرپٹو کرنسی سےفائدہ اُٹھانا ہے، تو اُسے واضح معاشی پالیسیز بنانا ہوں گی۔
3۔ شدید منہگائی
2021 ء میں ایل سلواڈور اور 2022ء میں وسطی افریقی جمہوریہ نے بِٹ کوائن کو سرکاری کرنسی (لیگل ٹینڈر) کے طور پر اپنایا، مگر یہ دونوں ممالک آج بھی معاشی خوش حالی سے کوسوں دُور ہیں۔ یاد رہے کہ جب ایک کم زور معیشت کے حامل مُلک میں Fiat Currency (سرکاری کرنسی، جو کسی مُلک کا مرکزی بینک جاری کرتا ہے، جیسا کہ پاکستانی روپیا یا یو ایس ڈالر) اور کرپٹو کرنسی کو متوازی طور پر چلایا جاتا ہے، تو کرپٹو کرنسی کا تیز ترین اُتار سرکاری کرنسی کو غیرمستحکم کردیتا ہے۔
دوسری جانب کرپٹو کرنسی پر کسی مرکزی بینک یا حکومت کو اختیارحاصل نہیں، جب کہ سرکاری کرنسی پر مرکزی بینک کا سخت کنٹرول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کرپٹو کرنسی کو قانونی طور پر رائج کرنے والے ممالک میں اِس ضمن میں قوانین سخت کیے جا رہے ہیں۔
سو، ثابت ہوا کہ کسی مُلک میں دو متوازی کرنسیز کی موجودگی منہگائی میں اضافے کا باعث بنتی ہے اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کرپٹو کرنسی نافذ کرنے سے مُلک خوش حال ہوجائے گا، تو وہ ایل سلواڈور اور وسطی افریقی جمہوریہ کی معاشی حالت دیکھ لیں۔
4۔ روایتی بینکنگ نظام کے لیے خطرات
کسی بھی مُلک میں روایتی بینکنگ نظام کے لیےکرپٹوکرنسی کو ساتھ لےکر چلنا کافی دشوار ہے، کیوں کہ جب بار بار کرپٹو کرنسی میں اُتارچڑھاؤ آتا ہے، تو اِسے سنبھالنا بینکنگ سسٹم کے لیے خاصا مشکل ہوجاتا ہے۔ بینکنگ سسٹم کے لیے روایتی کرنسی کے اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرنا اس لیے آسان ہے کہ یہ کرنسی مرکزی بینک کے تابع ہو تی ہے، جب کہ کرپٹو کرنسی کی عدم مرکزیت ہی روایتی بینکنگ سسٹم کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے بینک کرپٹو کرنسی کا لین دین نہیں کرتے۔
5۔ سرکاری معاشی پالیسیز
حکومت جو معاشی پالیسیز تشکیل دیتی ہے، وہ اِسی صورت ہی مؤثر انداز میں نافذ ہوسکتی ہیں کہ جب مُلکی معیشت بالخصوص سرکاری کرنسی لمبے عرصےتک مستحکم رہے۔ روایتی کرنسی مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کی پیش گوئی کرنا اس لیے آسان ہوتا ہے کہ اوّل تو روایتی کرنسی میں اُتار چڑھاؤ بہت زیادہ نہیں ہوتا اور پھر سرکاری کنٹرول میں ہونے کے باعث سرکاری کرنسی کی مقدار کو کم یا زیادہ کرکے بھی مستحکم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ چوں کہ کرپٹو کرنسی کے تیز رفتار اُتار چڑھاؤ کو قابو کرنا حکومت کےبس میں نہیں، اس لیے حکومت کی تیار کردہ معاشی پالیسیز کو کرپٹو کرنسی ناکارہ بنا سکتی ہے۔
6۔ مارکیٹ ببل
اسٹاک مارکیٹ اور کرنسی مارکیٹ میں ’’مارکیٹ ببلز‘‘ ایک عام سی بات ہے۔ مارکیٹ ببل ایک ایسی صورتِ حال ہے کہ جس میں کرنسی یا شیئر کی قدر کسی خبر (سچّی/ جُھوٹی) کی وجہ سے بہت تیزی سے بڑھتی ہے۔ یہ خبر عام طور پر سٹّے باز پھیلاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں قیمت میں یک دَم تیزی سے مصنوعی ہوتی ہے۔
اس موقعے پر بہت سے لوگ لالچ میں شیئرز یا کرنسی خرید لیتے ہیں اور مزید منافعے کی لالچ میں شیئرز یا کرنسی کو روکے رکھتے ہیں۔ پھر جب سٹّے باز دیکھتے ہیں کہ انہوں نے اچھا خاصا منافع کمالیا ہے، تو وہ اپنا منافع لے کر مارکیٹ سے نکل جاتے ہیں اور ان سٹّے بازوں کے نکلتے ہی مارکیٹ میں کرنسی یا شیئرز کے دام گرنے لگتے ہیں اور قیمتیں اپنی اصل سطح پر آجاتی ہیں۔ نیز، کرپٹو کرنسی بھی مارکیٹ ببلز سے دوچار ہوتی رہتی ہے۔
7۔ عوام کا عدم اعتماد
جب کرپٹو کرنسی کی قدر میں باربار اُتار چڑھاؤ آتا ہے، تو کرپٹو مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے یہ صُورتِ حال خاصی تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اس کے نتیجے میں چھوٹے سرمایہ کاروں کا زیادہ نقصان ہوتاہے، کیوں کہ اُن کی رقم خاصی محدود ہوتی ہے۔ یہ صُورتِ حال عوام کااعتماد مجروح کرتی ہےاور سرمایہ کار مارکیٹ سے نکلنے لگتے ہیں۔
قصّہ مختصر، کرپٹو کرنسی کے فوائد اپنی جگہ، مگر اس ورچوئل کرنسی کے تیز ترین اُتار چڑھاؤ جیسے خطرے سے نمٹنے کی تیاری بھی کرنی چاہیے، کیوں کہ اگر کرپٹو کرنسی میں ایک دَم لاکھوں روپے کا فائدہ ہوتا ہے، تو نقصان بھی لاکھوں ہی میں ہوتا ہے۔
بچّوں سے جبری مشقّت، میرا مٹّھو، عطا آباد جھیل،والدین کی دُعا (مبشرہ خالد) القدس کے عظیم فاتح (خضر حیات، کراچی) باشعور معاشرے کی تکمیل میں اقبالؒ کی شاعری کا کردار، علاّمہ اقبال کے اشعار میں فکرِ مسلماں (شہلا ارسلان) حجاب میرا اعتماد، میرا فخر (نصرت مبین) خاندانی نظام کی تباہی میں ڈراموں، فلموں کا کردار، دَورِجدید کے فتنے، قائداعظمؒ(ڈاکٹر محمد ریاض علیمی)سچ کہوں گی، پھر بھی ہار جاؤں گی (اسماءصدیقہ، کراچی) سب رنگ کہانیاں (کرن صدیقی)اسرائیلی جارحیت، کیمیائی ہتھیار، میرا برانڈ پاکستان (صبا احمد) مولوی ڈپٹی نذیر احمد(طوبیٰ سعید) اندیشہ ہائے دُور دراز (جمیل ادیب سیّد) نوجوانوں میں منطقی سوچ کی آب یاری (ڈاکٹر ظفر فاروقی، کراچی) اسموگ، حضرت عیسیٰؑ، قائدِ اعظمؒ کے فرمودات و ارشادات، راشد منہاس شہید، اِسراء اور معراج النبیؐ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)خود کُشی، اُف یہ ٹوٹکے (ڈاکٹر افشاں طاہر، گلشنِ اقبال، کراچی) کرسچین اسپتال، ٹیکسلا(سید افطارکاظمی) دو دن، دو لیجنڈز(ڈاکٹر محمد عظیم شاہ بخاری، خان پور) فضائی آلودگی کا ذمّے دار کون؟، پیارے قائد تجھے سلام،پولیس کا شعبہ (محمد صفدر خان ساغر، راہوالی، گوجرانوالہ) منشیات کے مافیاز(رفیع احمد، کراچی) رئیس الاحرار، مولانا محمد علی جوہر (راحت نسیم سوہدروی) سرائیکی شاعر، جانباز جتوئی (ارشاد احمد شاد، بہاول پور) علاّمہ سیّد شہنشاہ حسین نقوی (سیّد ذوالفقار حسین نقوی) کراچی کی اُمید(ارم نفیس، کراچی) سقوطِ ڈھاکا (زہرا یاسمین) ایڈز کا عالمی دن(نادیہ سیف) اور ڈھاکا ڈُوب گیا (محمد عُمیر جمیل، کراچی) امجد صابری قوّال(فیصل کان پوری) القدس، ہم سب کی ذمّے داری (بشریٰ صدیقہ، کراچی)ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس کےزیرِ اہتمام،مقابلوں کا انعقاد ( حِرا شبّیر) 2024ء: دُکھوں کا گوشوارہ (رضی الدین رضی) نوجوان نسل، جدید نشوں کی دلدل اور بچاؤ کے راستے (ثاقب عبداللہ نظامی، لیّہ) یہ امت خرافات میں کھو گئی (بنتِ صدیقی کاندھلوی، کراچی) میراشکار پور(شری مُرلی چند گھوکھلیہ، شکار پور،سندھ) بلوچستان کی خواتین یونی ورسٹی (بانک بلوچ، کوئٹہ) مصنوعی ذہانت، کل کی باتیں (عبدالغفاربُگٹی، ڈیرہ بُگٹی) محترمہ فاطمہ جناح (سیّدہ فاطمہ) فون کیوں نہیں کیا (حمادیہ صفدر) رام جی کا ہندوستان (ارسلان اللہ خان، کراچی)۔