امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی جنگ سمیت مقامی اور بین الاقوامی معاملات میں متنازع پالیسیاں ، جارحانہ رویے ، عجلت پسندی اور جانبدارانہ طرز عمل اختیار کرکے، بین الاقوامی سیاست پر نگاہ رکھنے والے مبصرین کے مطابق اپنے ملک کو عالمی قیادت کے مقام سے محرومی کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل ، عالمی ادارہ صحت اور ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے سے لاتعلقی نیز عالمی عدالت انصاف کے خلاف اقدامات سمیت ان کے متعدد فیصلے اس رائے کو تقویت دیتے ہیں۔ غزہ میں حماس اور اسرائیل جنگ کے معاملے میں صدر ٹرمپ کا یہ کردار بہت نمایاں ہوکر سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے دورہ امریکہ کے دوران مشترکہ پریس کانفرنس میں وہ یہ اعلان کرکے پوری دنیا ہی نہیں خود امریکہ میں بھی سخت تنقید کا نشانہ بنے کہ امریکہ غزہ پر قبضہ کرکے اسے اپنی ملکیت بنالے گا اور اہل غزہ کو ان کے وطن سے بے دخل کرکے مصر اور اردن میں منتقل کردیگا ۔ انکے اس بیان کی اگرچہ حکومتی ترجمانوں نے تاویلات کرنے کی کوشش کی لیکن پھر خود صدر ٹرمپ نے غیرمبہم الفاظ میں واضح کردیا کہ وہ اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ فلسطینیوں کو غزہ سے جانا ہوگا اور مصر و اردن کو انہیں اپنی سرزمین پر بسانا ہوگا ورنہ امریکہ کی طرف سے ان کی مالی امداد بند کردی جائے گی۔اسرائیل کی وحشیانہ جارحیت کے نتیجے میں تباہ حال غزہ کے مظلوم شہریوں کے ساتھ یہ طرز عمل جس قدر غیر منصفانہ ہے وہ محتاج وضاحت نہیں۔ اس حوالے سے صدر ٹرمپ نے مزید جانبداری کا مظاہرہ حماس کی اس شکایت کے معاملے میں کیا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں کررہا ہے اورا گر یہ سلسلہ بند نہیں ہوتا تو حماس اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی روک دے گا۔ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے اپنے بیان میں کہاتھا کہ گزشتہ تین ہفتوں میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی معاہدے کی متعدد خلاف ورزیاں کی گئیں جن میں بے گھر فلسطینیوں کی شمالی غزہ واپسی میں تاخیر اور ان پر بمباری کرنا بھی شامل تھا۔ طے شدہ طریقے کے مطابق کئی علاقوں میں امداد بھی نہیں پہنچائی گئی جبکہ مزاحمتی گروہوں نے معاہدے کی مکمل پاسداری کی۔ لہٰذا ہفتہ پندرہ فروری سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو اگلے احکامات تک روک دیا جائے گا تاہم جب تک اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر عمل کرتا رہے گا تب تک حماس بھی معاہدے پر عمل درآمد کرے گا۔ایک عالمی طاقت کے سربراہ کی حیثیت سے صدر ٹرمپ کیلئے اس شکایت پر درست طرزعمل یہ تھا کہ وہ اسرائیل کو جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزیوں سے روکنے کیلئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے لیکن اس کے برعکس انہوں نے بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق میڈیا سے گفتگو کے دوران فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو ہفتے کے دن بارہ بجے تک رہا نہ کیا گیا تو صورتحال قابو سے باہر ہو جائے گی۔ اگر تمام یرغمالیوں کو اس وقت تک رہا نہیں کیا جاتا تو میں جنگ بندی معاہدے کو منسوخ کرنے کا کہہ دوں گا اور پھر سب کچھ ختم ہوجائیگا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ اردن پناہ گزیں لینے پر تیار ہوجائیگا۔ تاہم اردن اور مصر اگر پناہ گزینوں کو نہیں لیتے تو ہم ان دونوں ممالک کی امداد بند کرسکتے ہیں۔ اہل غزہ کیساتھ صدر ٹرمپ کا یہ سراسر جانبدارانہ اور غیرمنصفانہ رویہ ایک سپرپاور کے سربراہ کو کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ انہیں تنازع کی سنگینی بڑھانے کے بجائے مظلوم کو انصاف فراہم کرکے قیام امن کی راہ ہموار کرنی چاہئے۔ امریکہ کے باشعور عوام اور اہل دانش کو صدر ٹرمپ کی سراسر جانبدارانہ پالیسیوں کی اصلاح کیلئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیوں کہ بصورت دیگر امریکہ کے عالمی قائدانہ مقام کو سخت دھچکا پہنچ سکتا ہے۔