• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماحولیاتی تبدیلیاں، شمالی علاقے اور ثقافتی ورثہ خطرے میں، ماہرین کا انتباہ

لاہور(آصف محمود بٹ ) پاکستان سول سروسز اکیڈمی کی کلچر اینڈ ہیریٹیج سوسائٹی کی طرف سے تیز تر ماحولیاتی تبدیلیوں کے مقابلے میں ثقافتی ورثہ اور ماحولیاتی نظام کے پیچیدہ تعلقات کے عنوان پر منعقدہ اہم سیمینار میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات اور ثقافتی ورثے پر ماحولیاتی تبدیلیاں انتہائی برے اثرات مرتب کر رہی ہیںغیر ملکی آئیڈیاز کی نقالی،سولر پارکس ، فصلوں کی جینیاتی تبدیلی سے پہلے سوچیں اسکے نتا ئج کیا ہونگے ۔ ثقافت کو محفوظ رکھنے کے لئے فوری اقدامات اور عوام کو اعتماد میں لے کر انہیں ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔ سیمینار کا آغاز معروف معمار(آرکٹیکٹ) اور ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کے حوالے سے بین الااقوامی معیار کے حامل پراجیکٹس تیار کرنے والی انسانی جغرافیے کی ایکسپرٹ ڈاکٹر زہرا حسین کے سیشن سے ہوا سیمینار سے فرحان عزیز خواجہ اور دیگر نے ا خطاب کیا ۔ سول سروسز اکیڈمی والٹن کیمپس میں منعقدہ اس سیمینار میں ڈائریکٹر جنرل سول سروسز اکیڈمی فرحان عزیز خواجہ ، سول سروس کے 52ویں کامن ٹریننگ پروگرام کے 244 پروبیشنری آفیسرز(انڈر ٹریننگ آفیسرز) کے علاوہ سابق وفاقی سیکریٹری طارق محمود، سیکرٹری آرکائیو اینڈ لائبریریز محمد خان رانجھا، ڈائریکٹر جنرل پلاک بینش ساہی ، ایگزیکٹو ڈائریکٹر لاہور آرٹس کونسل توقیر حیدر ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹر فرزانہ،آرکیالوجی شعبے میں کا مسٹس یونیورسٹی سے شاجیہ ، پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹر حمید سمیت سول سروس اکیڈمی کے اعلیٰ حکام اور اکیڈیمیا نے شرکت کی۔برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کی حامل ڈاکٹر زہرا حسین نے بتایا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لئے ہمیں اپنی ترقی کی رفتار کو آہستہ کرنا ہوگا ۔ شمالی علاقہ جات میں ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز کی بڑی تعدادمیں تعمیر سے وہاں کے لینڈ سکیپ کو خراب کررہے ہیں جس سےہمارے یہ علاقے تباہ ہورہے ہیں جس کو روکنے کے لئے فوری مداخلت کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر زہرا حسین نے کہا کہ ہم ’’Anthropocene‘‘ کے دور میں داخل ہوچکے ہیں جس کا مطلب یہ کے کہ انسانی کی طرف سے کی جانے والی بعض خرابیاں کرہ ارض اور خاص طور پر ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلیوںپر بڑی حد تک منفی طریقےسے اثرانداز ہورہیں۔ ڈاکٹر زہرا نے بتایا کہ مضر صحت گیسوں اورنقصان دہ مادوں کے اخراج پر دنیا میں بڑی بحث ہوچکی ہے اور یہ سب کو پتہ ہے کہ ہمارا خطہ(پاکستان) جو گلوبل ساؤتھ ہےپر موحولیاتی اثرات گلوبل نارتھ کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے خطے کی آب وہوا کو خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ہماری حکومت کو اور ہمیں یہ نئے سرے سے دیکھنا ہوگا کہ ہم اس سرزمین کو کس طریقے سے دیکھ رہے ہیں اور پھر اس کی سمجھ بوجھ کرکے ہمیں اقدامات کرنے ہونگے۔ ڈاکٹر زہرا حسین نے کہا کہ سولر پارک لگانا یا پھر خوراک اور فصلوں کو جینیاتی طور پر تبدیل کرکے متعارف کروانے سے پہلے یہ سوچیں کہ اس دوررس نتائج کیا ہونگے اور یہاں کے مقامی پوٹینشل کیا ہیں۔ ہمیں اپنے ماحولیاتی مسائل کے حل خود تلاش کرنے ہونگے نہ کہ دوسرے خطوں کے آئیڈیاز کو ہم کاپی پیسٹ کریں یا ان کی تقلید کریں۔ ڈاکٹرزہرا حسین نے کہا کہ ماحولیات کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے انسان کو دولت کے ڈھیر لگانے کے خیالات کو چھوڑناہوگا۔ انہوں نے کہا کہ انسان کی اس سوچ کے پیچھے یہ دوڑ لگی ہے کہ کس کے پاس کتنی دولت اور کتنی بڑی گاڑی ہے ۔ ہرطرف اسراف کامظاہرہ ہو رہا ہے جس پر کوئی سٹاپ ہی نہیں لگ رہا۔ ڈاکٹر زہرا حسین نے کہا کہ اس اسراف کے کلچر کو روکنے کے لئے سب کو حقیقت پسندی میں جانے کی ضرورت ہےکہ ہم کتنے میں گذارہ کرسکتے ہیں اور ہمارے علاقے ، گلی اور ہمسائے سے ہمارا کیا تعلق ہونا چاہیئے، موحولیات کے حوالے سے سوچ اورپالیسیز کا بہت بڑا کردار ہے۔ ہم سرمایہ دارانہ نظام کے ماڈل پر چل پڑے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں موسمیاتی تبدیلیوں ماحولیات کو خراب کرنے میں صنعتی انقلاب نہیں سرمایہ دارانہ نظام قصوروار ہے۔

اہم خبریں سے مزید