• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1973ءکےبعد جہاں لاکھوں ہنر مند پاکستانیوں کیلئے دوسرے ممالک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور اس کے توسط سے کثیر زرمبادلہ وطن عزیز میں آیا اس کی آڑ میں انسانی اسمگلروں کے ایسے گروہوں نے جنم لیا جو سادہ لوح افراد کو غیر قانونی اور غیر انسانی طریقوں سے بیرون ملک بھیجنے لگے، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ حالیہ برسوں میں یورپ جانے کا خواب لے کر غیر قانونی راستوں سے اسمگلروں کی مدد سے سفر کرنے والے سیکڑوں پاکستانی اپنی زندگیاں گنوا چکے ہیں۔ لیبیا غیر قانونی تارکین کے یورپ جانے کا ایک اہم سمندری راستہ ہے جہاں تارکین کو اٹلی،یونان اور اسپین لے جانے والی کئی کشتیاں الٹنے کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ لیبیا سے جانے والی ایک اور کشتی کو تازہ حادثہ پیش آیا ہے جس میں پاکستانیوں سمیت 65افراد سوار تھے جو اسپین جا رہے تھے۔ یہ کشتی لیبیا کے زاویہ شہر کے شمال مغرب میں مرسلا ڈیلہ بندرگاہ کے قریب الٹ گئی۔ غیر ملکی ایجنسی کے مطابق 10لاشیں نکال لی گئی ہیں۔ تین ماہ میں یہ تیسرا کشتی حادثہ ہے۔پہلے دو حادثات میں کم و بیش 88پاکستانیوں کی اموات واقع ہو گئی تھیں۔ وزارت خارجہ نے طرابلس کے حالیہ حادثے کے حوالے سے کرائسز مینجمینٹ یونٹ متحرک کر دیا ہے۔ حکومت ان واقعات کی روک تھام کےلئے سخت اقدامات کر رہی ہے۔وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر سخت اسکریننگ شروع کر دی ہے۔اس ضمن میں ضروری ہے کہ داخلہ ،اوور سیز پاکستانیز اور خارجہ امور کی وزارتیں مشترکہ طور پر انسانی اسمگلنگ کی بیخ کنی کیلئے مؤثر لائحہ عمل طے کریں۔ غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنانے کے ساتھ ان اسباب کے تدارک کی بھی تدابیر اختیار کی جائیں جن کی وجہ سے نوجوان اپنا ملک چھوڑ کر بیرونی ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ یہ شعور پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے کہ نوجوان بیرون ملک روزگار سے فائدہ ضرور اٹھائیں مگر صرف قانونی طریقوں سے۔

تازہ ترین