• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیر اعظم نواز شریف کو لندن میں دل کے آپریشن سے واپسی کے بعد آزاد کشمیر میں ان کی پارٹی کی واضح کامیابی کی صورت میں پہلا سیاسی ریلیف ملا ہے جس سے آنے والے دنوں میں وہ سیاسی طور پر بہتر پوزیشن میں آسکتے ہیں اور عمران خان کی نئی سیاسی تحریک کو ناکام بنانے کے لئے ا پنی سیاسی مہارت سے پیپلز پارٹی اور دیگر بظاہر حکومت مخالف جماعتوں کو ساتھ ملا سکتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کی کامیابی کا سہرا یقیناً وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کی قیادت میں پوری ٹیم کو جاتا ہے۔ دوسری طرف آنے والے دنوں میں آزاد کشمیر میں نئی حکومت بننے کی صورت میں وزارت عظمیٰ کے لئے قرعہ فال اسلام آباد کے ایک اور ہمارے ساتھی صحافی مشتاق منہاس کے نام نکل سکتا ہے۔ اس سے قبل پیمرا میں ابصار عالم اور اس سے پہلے پی ٹی وی میں محمد المالک اور سب سے بڑھ کر نجم سیٹھی صاحب کو نگران وزیر اعلیٰ تک کے عہدے میاں نواز شریف کی مہربانی سے مل چکے ہیں۔ مشتاق منہاس کی اس کامیابی کا سلسلہ2013ء کے ماہ رمضان میں اس وقت شروع ہوا تھا جب میاں نواز شریف نئے نئے تیسری بار وزیر اعظم بنے تھے۔ قومی صحافیوں کے ایک گروپ کو پاکستان میں توانائی منصوبوں کی تفصیلی بریفننگ کے بعد جب وزیر اعظم اپنے دفتر کی طرف آرہے تھے تو اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری طارق کھوسہ کے ساتھ ساتھ نگران وزیر اعلیٰ نجم سیٹھی اور دیگر دو حکام کے ساتھ ہمارے صحافی ساتھی مشتاق منہاس نے وزیر اعظم کے کان میں سرگوشی کی اور انہیں آزاد کشمیر کے پیپلز پارٹی کے صدر چوہدری عبدالمجید کے بارے میں کچھ بات چیت کی اس سے اگلے روز ہی آزاد کشمیر میں مسلم لیگ(ن) کی طرف سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں تاہم انہی دنوں میں کنونشن سینٹر میں ایک بڑے کنونشن میں وزیر اعظم نواز شریف نے سیاسی انداز میں یہ تاثر دیا کہ ہم آزاد کشمیر میں حکومت کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد نہیں لارہے جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس تھی۔ بہرحال دو سال کے بعد بالآخر مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر میں کامیاب ہوگئی ہے۔ ان انتخابات کا ملکی سیاسی حالات اور خصوصی طور پر وزیر اعظم نواز شریف کو سیاسی حالات کے دبائو سے نکالنے کے حوالے سے مثبت اثر پڑے گا لیکن دوسری طرف پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے7اگست سے حکومت مخالف تحریک کا اعلان کردیا ہے۔ اس کے فوراً بعد حسب عادت ا ور پروگرام پیپلز پارٹی نے اس سے لاتعلقی کا اعلان کردیا ہے۔ اس صورتحال سے عمران خان کی تحریک کو بظاہر نقصان بھی ہوسکتا ہے لیکن مجموعی طور پر عمران خان سیاسی طور پر’’سولو فلائٹ‘‘ کے حوالے سے اپنی کئی خامیوں کو دور کرکے بہتر پوزیشن میں آسکتے ہیں، تاہم اس وقت عمران خان صاحب کو اگلے دو تین ماہ میں ملک میں قدرتی موسم میں تبدیلی اور متوقع سیلاب کے خطرات کو بھی پیش نظر رکھنا ہوگا۔
یہ نہ ہو کہ عمران خان حکومت مخالف تحریک میں اپنا دبائو تو بڑھادیں لیکن دوسری طرف متوقع سیلاب کے سارے نقصانات حکومتی مشیران ان کے کھاتے میں ڈال دیں کہ یہ سب ان کی وجہ سے ہوا ہے۔ اس لئے ایک خدشہ یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ دو تین ماہ بعد ہونے والی بارشوں اور سیلاب سے قومی اور ز رعی معیشت کو جی ڈی پی کے حوالے سے دوفیصد تک نقصان ہوسکتا ہے ، بہرحال آنے والے دنوں میں کافی کچھ ہونے والا ہے آزاد کشمیر انتخابات میں کامیابی سے میاں نواز شریف کو تو ریلیف ملا ہے مگر پاناما لیکس کے کیس میں عمران خان کی سولو فلائٹ اگر زور پکڑ گئی تو پھر ان کے لئے کئی مسائل اور مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
تازہ ترین