• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں مسلمان مشکل میں ہیں ۔سخت گیر ہندوؤں کی جانب سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ تازہ ترین وائرل ویڈیو میں انتہا پسند ہندوؤں کو مسجد کے سامنے رقص کرتے اور ساز بجاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی ایک ایک حرکت میں اشتعال انگیز ی بھری ہوئی ہے، یعنی مساجد کی بے حرمتی کا سلسلہ بھارت میں جاری ہے۔ چند روز پہلے ایک مسلمان لڑکے کو محض مندر میں پانی پینے پر قتل کر دیا گیا۔ کمبھ کے میلے میں صدیوں سے ہندو مسلم دونوں شریک ہوتے تھے اور مسلمان لوگوں میں کھانا اور پانی تقسیم کرتے تھے۔ اب اس میں مسلمانوں کی شرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ یعنی ثقافتی تقسیم کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔ پریاگ راج میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک مسلمان کو ہراساں کر کے بھگا دیا، جو برسوں سے دیوی دیوتاؤں کے پوسٹر اور مورتیاں فروخت کر رہا تھا۔ اس کا ’’جرم‘‘ صرف اس کی شناخت تھی۔ مشتعل ہجوم نے پولیس پر بھی دباؤ ڈالا کہ اسے گرفتار کیا جائے۔ یعنی اب بھارت میں روزگار کیلئے مذہبی شناخت لازمی ہو گئی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی داڑھی نوچنے کے واقعات عام ہیں۔ مسلمانوں سے جے شری رام کے زبردستی نعرے لگوائے جاتے ہیں، گوشت کھانے یا فروخت کرنے پر فساد عام سی بات ہے۔ کئی علاقوں میں مسلمانوں کے گوشت فروخت کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ حتیٰ کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی گوشت فروخت کرنے پر حکومتی سرپرستی میں اکثر ہندوئوں کے احتجاج جاری رہتے ہیں۔ جب نریندر مودی اقتدار میں آیا بھارت میں عدم برداشت شروع ہوئی اور اب تو بھارتی ہندو، مسلم دشمنی میں پاگل ہو چکے ہیں۔ مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے دہلی کے قریب ضلع نوح میں ایک ہندو ہجوم نے مسجد کو آگ لگا دی اور اس کے امام کو مار دیا۔ وہاں اب تک درجنوں مساجد کو شہید کیا جا چکا ہے جو صدیوں سے تھیں۔ ہریانہ میں مسلمانوں کی ملکیتی دکانوں اور عمارتوں کو ہندو حکام نے غیر قانونی قرار دے کر مسمار کر دیا۔ گرائی جانے والی عمارتوں کی کل تعداد سات سو پچاس ہو چکی ہے۔ تمام غیر جانب دار مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ بھارتی ہندو حکام فرقہ وارانہ تشدد کے خلاف اپنے ردعمل میں صریحاً جانبداری کا مظاہرہ کر رہے ہیں بلکہ ہندو انتہا پسندوں کی سرپرستی کررہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ نریندر مودی کی پالیسیوں کے باعث انڈیا میں مسلمان غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ مودی نے عام انتخابات سے قبل ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ رام مندر کا افتتاح کیا تھا۔ اس کا مقصد لوگوں کویہ بتانا تھا کہ وہ ہندوتوا نظریے کے فروغ کا عمل جاری رکھے گا۔ یعنی اس کی حکومت میں مسجدوں کو شہید کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ اس موقع پربابری مسجد کی شہادت کا جشن سرکاری طور پر منایا گیا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کی جائیدادیں، کاروبار اور عبادت گاہیں مودی حکومت کے نشانے پر ہیں۔ نریندر مودی جب گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو وہاں مسلمانوں کا قتل عام کرایا تھا۔ ایک ہزار سے زائدمسلمان شہید کر دئیے گئے تھے۔

ایک اور تکلیف دہ سلسلہ جو بھارت جاری ہے، وہ مسلمانوں کے خلاف تقاریر اور بیانات ہیں جنہیں ہندو بہت پسند کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ سیاسی جلسوں سے شروع ہوا۔ ہندو قوم پرست رہنمائوں نے مسلمانوں کے خلاف سخت بیانات دینا شروع کیے جس نے انتہاپسندی اور تشدد کو بھرپور بڑھاوا دیا۔ ان تقاریر کا مقصد عوامی سطح پر مسلمانوں کو بدنام کرنا اور ان کے خلاف نفرت پھیلانا ہے۔ بھارتی معاشرے میں عدم برداشت کو ہوا دینے میں ان بیانات اور تقریروں نے بھی اہم کردار اد ا کیا۔ صرف مسلمان ہی نہیں سکھ اور عیسائی بھی بھارت میں کوئی بہتر زندگی نہیں گزار رہے۔

ابھی چند ماہ پہلے منی پور میں مسیحی خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات ہوئے، جس کے نتیجے میں بی جے پی کی حکومت کے خلاف شدید احتجاج ہوا۔ پچھلے دنوں، بی جے پی کے کارکنوں نے ایک عمر رسیدہ مسلمان بزرگ شہری کو ٹرین میں بُری طرح زد وکوب کیا۔ اس واقعے میں بزرگ شہری نے منت سماجت کی، لیکن کارکنوں نے تشدد جاری رکھا۔ ٹرین میں موجود دیگر مسافروں نے اس تشدد کو بے حسی سے دیکھا اور کسی نے بھی بزرگ شہری کی مدد نہ کی۔ گائے ذبح کرنے پر الزام پر متعدد پُرتشدد واقعات رپورٹ ہوئے۔ مساجد اور عبادت گاہوں پر ہندوئوں کے حملے مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اقلیتی طالب علموں کے ساتھ امتیازی سلوک کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔ بھارت میں انسان دوستی اور ہم آہنگی کا جذبہ کمزور پڑ گیا ہے۔ نریندرمودی جب سے اقتدار میں آیا ہے شدت پسند ہندو تنظیموں کی حکومتی سرپرستی جاری ہے جو اقلیتوں کے خلاف وسیع پیمانے پر منافرت پھیلا رہی ہیں۔ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ نریندر مودی اور صدر ٹرمپ کے مشترکہ اعلامیے میں دہشت گردی کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا ہے۔ وہ بھی گمراہ کن ہے اور اس کے اثرات بھی ہندوستانی مسلمانوں پرمرتب ہوں گے۔

سوال پیدا ہوتا ہے بھارتی مسلمانوں کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں یا ہمیں کیا کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں مسلم ممالک میں ہندوستان میں مسلمان کے تحفظ کی تحریک چلانی چاہئے کہ وہ بھارت پر دبائو ڈالیں کہ وہاں کے مسلمانوں کے خلاف امتیازی کارروائیاں ختم کی جائیں وگرنہ صورتحال گھمبیر بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس بھارت کے پاکستان میں دہشت گردی کرانے کے ناقابل تردید ثبوت ہیں۔ ان تمام ثبوتوں کے ڈوزئیر ہمیں صدر ٹرمپ کو بھیجنے چاہئیں کہ دہشت گردہم پاکستانی نہیں خود نریندر مودی ہے۔

تازہ ترین