رمضان المبارک ذہنی، جسمانی اور معاشرتی تربیت کا وہ مہینہ ہے کہ اگر ہم اِس ماہ سے حاصل شدہ تعلیم و تربیت باقی ایّام میں بھی اپنالیں، تو اپنے معاملات بہت بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس ماہِ مبارک میں پروردگارِ عالم کی رحمتوں کا نزول عام مہینوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتا ہے اور یہی سبب ہے کہ ذیابطیس کے مریض بھی اِس ماہ سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی خواہش رکھتے ہیں، تاہم اُنھیں روزے رکھنے میں بعض مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، اِسی لیے اُنھیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ رمضان کریم سے قبل اپنے معالج سے رجوع کریں کہ اُن کے لیے روزہ رکھنا محفوظ ہے یا نہیں۔
ماہرین کے مطابق، ذیابطیس کے مریضوں کو روزے کے دَوران اپنی بلڈ شوگر باقاعدگی سے چیک کرنا ہوگی اور اگر یہ 70ملی گرام فی ڈیسی لیٹر یا اس سے کم ہوجائے، 300 ملی گرام فی ڈیسی لیٹر یا اس سے بڑھ جائے یا شوگر گرنے کی علامات شروع ہوجائیں، تو اُسی وقت روزہ کھول لینا چاہیے۔ البتہ، اِس ضمن میں شرعی رہنمائی کے لیے علمائے کرام سے بھی رجوع کرلینا چاہیے۔
ذیابطیس کے مریضوں کو سحر و افطار میں متوازن غذا لینی ہے۔ ایسی غذائیں، جن میں نمک اور چکنائی زیادہ ہو، بہت احتیاط سے لینی ہیں۔ تلی ہوئی اشیاء سے احتیاط لازم ہے۔ پھلوں، سبزیوں، پھلیوں اور بھوسی والے آٹے کا استعمال کرنا ہے۔ سحری میں ایک چمچ تیل میں بنا ہوا پراٹھا زیادہ بہتر ہے۔نیز، افطار سے سحری تک پانی کا خُوب استعمال کرنا ہے، جب کہ کافی اور چائے چوں کہ پیشاب آور ہوتی ہیں، لہٰذا ان کا استعمال زیادہ نہ کریں کہ یہ پانی کی کمی کا باعث بن سکتی ہیں۔
روزے کے دَوران سخت جسمانی کام یا ورزش سے گریز کیجیے، خاص طور پر عصر اور مغرب کے درمیان۔ عموماً ذیابطیس کے مریضوں کے، جو رمضان المبارک کے روزے رکھنا چاہتے ہیں، طبّی خطرات کا دارومدار اُن کی شوگر کی ٹائپ، شوگر کنٹرول اور ادویہ پر ہوتا ہے۔ شوگر کے کچھ مریضوں کے لیے روزہ رکھنے میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اُن میں:
(1) وہ افراد شامل ہیں، جو انسولین یا انسولین پیدا کرنے والی گولیاں لے رہے ہوتے ہیں۔
(2) وہ افراد جن کا شوگر کنٹرول خراب ہوتا ہے۔
(3) جنہیں باقاعدگی سے شوگر لو (Low) ہونے (Hypoglycemia) سے دوچار ہونا پڑرہا ہے۔
(4) گزشتہ 3ماہ میں اِتنی شوگر گر گئی ہو کہ اسپتال داخل ہونا پڑا ہو۔
(5) وہ افراد، جنہیں شوگر لو ہونے کا پتا ہی نہیں چلتا۔
(6) ذیابطیس کے ساتھ حال ہی میں کوئی پیچیدگی لاحق ہوئی ہو، جیسے ہارٹ اٹیک وغیرہ۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اگر آپ ذیابطیس کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے رکھنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں، تو رمضان سے قبل ایک بار اپنے ڈاکٹر سے لازماً رجوع کریں تاکہ وہ آپ کی رہنمائی کرسکے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ذیابطیس سے متاثرہ افراد ماہِ رمضان کے روزے رکھنے سے متعلق مختلف غلط فہمیوں کا بھی شکار ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے وہ بسا اوقات مختلف طبّی مسائل سے بھی دوچار ہوجاتے ہیں۔ ایسی ہی چند غلط فہمیوں کا یہاں ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ روزوں سے متعلق مریضوں کے تصوّرات کی اصلاح ہوسکے۔
(1)’’رمضان المبارک میں ذیابطیس کے مریضوں کو کسی خاص غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ پہلے ہی سے ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق متوازن غذا لے رہے ہیں، تو آپ خواہ ٹائپ ٹو ذیابطیس کے مریض ہوں یا ٹائپ وَن کے، اِسی متوازن غذا کے ساتھ روزہ رکھ سکتے ہیں کہ رمضان میں ذیابطیس کے مریضوں کے لیے کسی خاص غذا کے اہتمام کی قطعی ضرورت نہیں ہوتی۔
(2)’’رمضان کے دَوران ذیابطیس کے مریضوں کو اپنی انسولین یا شوگر کنٹرول کرنے کی گولیاں بند کردینی چاہئیں۔‘‘ یہ بھی ایک عام غلط فہمی ہے اور آپ نے ایسا ہرگز نہیں کرنا۔ ہاں، البتہ اپنے ڈاکٹر کے مشورے سے انسولین یا گولیوں کی مقدار اور اوقات میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
(3)’’ذیابطیس کے مریضوں کو سحری کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔‘‘ یہ بات بھی بالکل غلط ہے۔ ذیابطیس سے متاثرہ افراد کو تو ہر صورت سحری کرنی ہے اور کبھی بھی بنا سحری کا روزہ نہیں رکھنا، کیوں کہ ایسا کرنے سے دن میں شوگر گرنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
(4)’’روزے کے دَوران ورزش بہت فائدہ مند ہے۔‘‘ایسا نہیں ہے۔ ذیابطیس کے مریضوں کو دورانِ روزہ ورزش نہیں کرنی چاہیے اور ایسے افراد اگر نمازِ تراویح پڑھتے ہیں، تو پھر تو اُنھیں کسی اور ورزش کی قطعاً ضرورت نہیں۔ہاں، اگر تراویح نہیں پڑھتے، تو رات کے کھانے سے پہلے ورزش کرلیں۔
(5)’’حاملہ خواتین، جنہیں ذیابطیس ہو، اُن کے لیے روزہ محفوظ ہے۔‘‘ایسا ہرگز نہیں ہے۔ پریگنینسی میں ذیابطیس کے ساتھ روزہ رکھنا خطرے، بلکہ بہت زیادہ خطرے کا حامل ہوتا ہے۔ میڈیکل ایڈوائس تو اِس صُورت میں روزہ رکھنے سے منع کرتی ہے، لیکن اگر ایسی خواتین پھر بھی روزہ رکھنا چاہتی ہیں، تو یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ عام ذیابطیس کے مریضوں کے برعکس اُنھیں زیادہ خطرات لاحق ہوں گے، لہٰذا وہ اپنے ڈاکٹر کی رہنمائی ہی میں روزہ رکھیں۔
حالیہ تحقیقات میں دیکھا گیا کہ جن خواتین نے حمل کے دَوران ڈاکٹر کی نگرانی میں روزہ رکھا، وہی محفوظ طریقے سے روزہ رکھ پائیں۔
(6) ’’اِس بات کا فیصلہ کرنا کہ ذیابطیس کے مریضوں کو روزہ رکھنا ہے یا نہیں، ڈاکٹر کا کام ہے۔‘‘یہ بات بھی پوری طرح درست نہیں ہے۔ اکثر اوقات ذیابطیس کے مریض ڈاکٹر کے پاس آکر پوچھتے ہیں کہ’’ ڈاکٹر صاحب! مَیں روزہ رکھوں یا نہیں؟‘‘حالاں کہ یہ فیصلہ کرنا مریض کا کام ہے۔
ڈاکٹر کے فرائض میں یہ بات شامل نہیں کہ وہ آپ کو بتائے کہ روزہ رکھنا ہے یا نہیں۔ فیصلہ تو آپ ہی نے کرنا ہے۔ ڈاکٹر تو محض ممکنہ خطرات سے آگاہ کرے گا اور ایسی تدابیر بتائے گا کہ جن کی بنیاد پر محفوظ طریقے سے روزہ رکھا جا سکتا ہے۔
(7)’’دورانِ روزہ شوگر چیک کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔‘‘ نہیں جناب۔ شوگر چیک کرنے سے روزہ ہرگز نہیں ٹوٹتا ۔ لہٰذا، ڈاکٹر کی ہدایات پر یا ضرورت کے مطابق دورانِ روزہ شوگر چیک کرسکتے ہیں۔
(8)’’رمضان میں اپنی ادویہ عام دنوں کی طرح لیتے رہنا ہے۔ صبح والی سحری میں اور شام والی افطار کے بعد۔ کسی تبدیلی کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ ایسا ہرگز نہ کیجیے، کیوں کہ رمضان میں افطاری (ناشتا) ہوتی ہے اور سحری (رات کا کھانا)، اِس لیے ادویہ کی مقدار اور اوقات آپ ازخود طے نہیں کرسکتے کہ اِن کا تعیّن کرنا، آپ کے ڈاکٹر ہی کا کام ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ رمضان سے قبل اپنی ادویہ یا انسولین کی مقدار اور اوقات کا ڈاکٹر سے تعّین کروا لیں تاکہ دورانِ روزہ آپ شوگر گرنے یا بڑھنے سے محفوظ رہیں۔
(9)’’ رمضان کے روزے ذیابطیس کے ہر مریض کے لیے محفوظ ہیں۔‘‘ ہرگز نہیں۔ رمضان المبارک کے روزے ذیابطیس کے تمام مریضوں کے لیے محفوظ نہیں ہیں، خاص طور پر ٹائپ وَن کے مریضوں کے لیے تو بالکل بھی نہیں۔
یاد رہے، ذیابطیس سے متاثرہ ہر فرد کو رمضان المبارک کے روزوں سے کچھ نہ کچھ خطرہ ضرور ہوتا ہے۔ اگر آپ ٹائپ وَن یا ٹو کے مریض ہیں، تو اِن خطرات کے تعیّن کے ساتھ اپنے ڈاکٹر کی رہنمائی میں رمضان کے روزے محفوظ طریقے سے رکھ سکتے ہیں۔
(10)’’ ذیابطیس کے مریضوں کو روزہ ہرگز نہیں رکھنا چاہیے۔‘‘یہ بات بھی بالکل غلط ہے۔ ذیابطیس کے مریض اپنے ڈاکٹر کی رہنمائی میں محفوظ طریقے سے روزہ رکھ سکتے ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ شوگر کے مریضوں کو روزہ رکھنے سے بہت سے جسمانی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں۔
(11)’’ روزہ ذیابطیس کے مریضوں میں کم زوری کا باعث بنتا ہے۔‘‘ یہ بھی ایک غلط فہمی ہے۔ روزہ نہ صرف عام افراد بلکہ شوگر کے مریضوں میں بھی کسی قسم کی کم زوری پیدا نہیں کرتا، کیوں کہ آپ رمضان المبارک میں ناشتے کی جگہ افطار، ڈنر کی جگہ سحری اور لنچ کی جگہ رات کا کھانا لے رہے ہوتے ہیں۔ اِس لیے ضروری ہے کہ آپ سحری ضرور کریں، اپنی ذیابطیس پر نظر رکھیں۔ یاد رکھیں، صرف رمضان ہی میں نہیں، عام دنوں میں بھی شوگر کے مریض کم زوری محسوس کرتے ہیں۔
(12)’’ مَیں 10 سال سے ذیابطیس کا مریض ہوں۔ رمضان میں ڈنر رات کو دیر سے کرتا ہوں اور سحری نہیں کرتا، یہ میرے لیے زیادہ اچھا ہے۔‘‘نہیں، بالکل بھی نہیں۔ یہ ایک غلط طریقہ ہے، جس کی ڈاکٹر حمایت نہیں کرتے۔ اگر کوئی ذیابطیس کا مریض روزہ رکھتا ہے، تو اُسے سحر و افطار لازمی کرنے ہوں گے، کیوں کہ ماہِ رمضان میں ذیابطیس کی گولیوں یا انسولین کی مقدار اور اوقات میں اِس طرح تبدیلی کی جاتی ہے کہ صبح لینے والی ادویہ اور انسولین تبدیلی کے ساتھ افطار میں اور شام کو لی جانے والی ادویہ یا انسولین سحری میں لینی ہوتی ہیں۔ لہٰذا، بدلی ہوئی ادویہ کی مقدار اور اوقات اِس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ذیابطیس کے مریض سحر و افطار ضرور کریں۔
اگر ہم رمضان المبارک پر غور کریں، تو اس میں سونے، جاگنے اور کھانے پینے کے اوقات میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا، ذیابطیس کے مریضوں کو اپنے ڈاکٹر کی رہنمائی سے ان تینوں عوامل میں ایڈجسٹمنٹ کرنی ہوگی تاکہ محفوظ طریقے سے روزہ رکھا جاسکے۔
مَیں گزشتہ کئی برسوں سے کراچی کے ایک بڑے ادارے سے منسلک ہوں، جس کے دوران مَیں نے مشاہدہ کیا کہ ذیابطیس کے مریض، ڈاکٹر کی رہنمائی میں بہت اچھی طرح اور خطرات سے بچتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں اور اس کے فوائد سے بھی بہرہ مند ہوتے ہیں، تو دورانِ روزہ ذیابطیس کی پیچیدگیوں اور خطرات سے بچنے کے لیے ڈاکٹر سے رابطے میں رہیں اور اُن کی مجوّزہ ادویہ یا انسولین اُن ہی اوقات میں لیں، جو اُنھوں نے بتائے ہیں۔ نیز، اگر کوئی مسئلہ درپیش آئے، تو ازخود یا دیگر افراد سے مشورے کی بجائے ڈاکٹر ہی سے رابطہ کیجیے۔
(مضمون نگار، کنسلٹنٹ ڈائی بیٹالوجسٹ اور اینڈو کرائنولوجسٹ ہیں، جب کہ کالج آف فیملی میڈیسن، کراچی کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر بھی ہیں)