دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو ہمیشہ مسائل کا رونا روتے ہیں، وہ'' بلیم گیم ''کے عادی ہوتے ہیں،ان کی زباں ہر وقت شکوہ کناں رہتی ہے، دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی زبان پر کبھی شکوہ شکایت نہیں ہوتی،وہ مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں لیکن ان کی نظر موجودہ وسائل اور اللہ کی ذات پر بھی ہوتی ہے۔ وہ سراپا توکل ہوتے ہیں۔ وہ شکوہ کرنے کے بجائے اپنے حصے کا کام کرتے ہیں۔ وہ ظلمت کا تذکرہ کرنے کے بجائے ظلمت دور کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ ایک ایسا کندھا ثابت ہوتے ہیں جہاں پورا معاشرہ اپنا سر رکھ کر رو سکتا ہے۔ وہ ایک ایسی ماں کی گود کی مانند ہوتے ہیں جہاں ا ٓکر بچے اپنا دکھ بھول جاتے ہیں۔وہ دکھ، درد اور تکلیف کو دیکھ کر بے چین ہوتے ہیں لیکن محض بے چین ہونے کے بجائے دکھ کا مداوا کرتے ہیں۔ درد دور کرتے ہیں، آنسو صاف کرتے ہیں اور معاشرے کے لیے خیر اور فلاح کا اہتمام کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالباری انہی خوش بخت لوگوں میں سے ایک ہیں جن کی ساری زندگی خیر اور فلاح بانٹنے میں گزر رہی ہے۔یہ تو ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پاکستانی قوم صدقات و خیرات کرنے میں پوری دنیا کے لوگوں سے بڑھ کر ہے۔تاہم ڈاکٹر عبدالباری کا انڈس اسپتال پاکستانی قوم کی سخاوت کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔آپ 1981 میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں داخل ہوئے۔ 1987 میں سولجر بازار میں جب بم کا دھماکہ ہوا تو ڈاکٹر عبدالباری اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر زخمیوں کا علاج کرتے رہے۔زخمیوں کی کسمپرسی اور لاشوں کی بے توقیری نے انہیں بے چین کردیا لہذا انہوں نے طے کیا کہ سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی کو بہتر کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ نقطہ آغاز تھا۔ اس کے بعد مڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔ انہوں نے سرکاری اسپتال کی ایمرجنسی کے لیے 32 لاکھ 74 ہزار روپے جمع کیے جن میں سے 24 لاکھ روپے اسکول کے بچوں نے اپنی جیب خرچ سے جمع کر کے دیے تھے۔ انہوں نے’’ پیشنٹس ویلفیئر ایسوسی ایشن‘‘کی بنیاد رکھی اور اندرون سندھ اور کراچی کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مفلوک الحال اور مفلس لوگوں کے علاج کا بندوبست کیا۔ یہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے پاکستان میں سب سے پہلے بلڈ بینک کا تصور دیا۔ماضی میں بلڈ ڈونیشن دینے والے اکثر پیشہ ور نشئی لوگ ہوتے تھے۔ پھر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ پیسوں کی کمی کی شکایت پر وہ ہڑتال پر چلے گئے۔ تب ڈاکٹر عبدالباری نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے پہلے بلڈ بینک کا آغاز کیا اور یہیں پر انہوں نے یہ عہد کیا کہ ''ایک دن ایسا آئے گا کہ اس شہر میں ہم ایک ایسا اسپتال بنائیں گے جہاں پر سب کا علاج مفت ہوگا''۔2004 میں اس خواب کی تکمیل کی طرف سفر شروع ہوا انہوں نے کورنگی کریک میں 20 ایکڑ کی جگہ پر پاکستان کے پہلے مفت اسپتال کی تعمیر شروع کی اور جولائی 2007 میں انڈس اسپتال کا آغاز ہو گیا۔اسپتال میں ڈیڑھ سو لوگوں کے ایڈمٹ ہونے کا انتظام تھا۔ پھر یوں ہوا کہ 150 بستر کا اسپتال،300 بستر کا ہو گیا اور اب اسے 1000 بیڈز تک لے جایا جا رہا ہے۔ یہ پاکستان کا نہ صرف سب سے بہترین سہولیات سے آراستہ اسپتال ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ اس پورے اسپتال میں کوئی کیش کاؤنٹر موجود نہیں۔یہ پیپر لیس بھی ہے۔ مریض سے لے کر ڈاکٹر تک کسی کو پرچی کی ضرورت نہیں پڑتی۔آپ کا پیشنٹ نمبر ہر جگہ آن لائن اسکرین پر دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالباری بتاتے ہیں کہ آج تک کوئی مریض پیسے نہ ہونے کی وجہ سے واپس نہیں گیا اور اب تو دماغی امراض کے علاوہ انسانی جسم کے تمام اعضاء کا علاج انڈس اسپتال میں ہو رہا ہے۔بچوں کے کینسر کا جدید علاج بالکل مفت دستیاب ہے۔اسپتال کا سالانہ بجٹ 57 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ ڈاکٹر عبد الباری کے مطابق انڈس ہیلتھ سروسز کے پلیٹ فارم سے روزانہ کا خرچ 5 کروڑ روپے ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس خطیر رقم کا 92 فیصد پاکستان اور اس کا بھی 50 فیصد سے زیادہ کراچی پورا کرتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالباری بتاتے ہیں کہ ڈونیشن دینے والے ستر فیصد لوگ اپنا نام نہیں بتاتے بلکہ اپنا نام عبداللہ بتا کر کروڑوں کی رقم جمع کرواتے ہیں اور جنت میں اپنے لیے پلاٹ بک کرواتے ہیں۔اس وقت انڈس اسپتال کی زیر ملکیت اور زیرانتظام موجود اسپتالوں میں دی انڈس اسپتال کورنگی کیمپس کراچی، شیخ سعید میموریل کیمپس کورنگی کراچی، الفقیر ٹرسٹ کیمپس پی آئی بی کراچی، الغازی ٹرسٹ کیمپس بھونگ رحیم یار خان، انڈس اسپتال اور ہیلتھ نیٹ ورک کیو ایف، این ایس ٹی اور ایس ایم پی کیمپس لاہور، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال بدین، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال بیدیاں روڈ لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال مناواں لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال رائیونڈ لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال سبزہ زار لاہور، تحصیل ہیڈ کوارٹر اسپتال کاہنہ نو لاہور، ملتان انسٹیٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز ملتان، اور رجب طیب اردوان اسپتال مظفر گڑھ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالباری کو صدارتی ایوارڈ کے علاوہ کئی ایوارڈ مل چکے ہیں۔ لیکن ہمارے نزدیک اگر ایوارڈ نہ بھی ہوں تو ان کے قد و مقام پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایک ایسا ملک جہاں ایک ماہ کے دوران میڈیکل ٹیسٹ کی فیسوں میں مزید 5.36فیصد اضافہ ہوا،کلینک سورسز 4.28فیصد،ڈینٹل سروسز 2.22فیصداور اسپتال 13.09فیصد تک مہنگے ہوئے،جبکہ ادویات 17.48فیصد اور دیگرصحت سہولیات 1.27 فیصد تک مہنگی ہوئیں۔وہاں بین الاقوامی معیار کے مطابق علاج کی سہولت مفت فراہم کرنا کسی معجزے سے کم نہیں۔
رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں انڈس اسپتال جیسے اداروں کو اپنے صدقات کے لیے یاد رکھیں تاکہ فلاح انسانیت کا کام جاری رہے۔