ہر فن مولا اداکار محسن عباس حیدر نے معاشرے کی جانب سے مردوں کے رونے پر لگائی گئی پابندی پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
اداکار، گلوکار، نغمہ نگار، میوزک کمپوزر، شاعر اور ٹیلی ویژن پریزینٹر محسن عباس حیدر نے حال ہی میں نجی ٹی وی کے مارننگ شو میں شرکت کی۔
محسن عباس حیدر نے شو کے دوران نظر نہ آنے والے ’مردوں پر معاشرتی دباؤ‘ کے موضوع پر کھل کر بات کی۔
اداکار نے کہا کہ مردوں کو اتنا مضبوط اور بہادر سمجھ لیا گیا ہے کہ ہمیں رونے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا، مردوں کے پاس رونے کے لیے صرف باتھ رومز اور ٹریفک میں پھنسی گاڑیاں بچتی ہیں جہاں وہ رو کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکتے ہیں۔
شو کے دوران اداکار نے اپنی بیٹی، پھر والدہ اور حال ہی میں والد کی وفات پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے ان اموات کے بعد رونے کا موقع ہی نہیں ملا، گھر میں اگر مرگ ہو جائے تو جہاں خواتین بین ڈال رہی ہوتی ہیں وہیں مرد یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ دریاں، دیگیں کہاں سے آئیں گی یا قبر کا انتظام کیسے کرنا ہے۔
اداکار نے بتایا کہ بیٹی کی وفات پر مجھے پہلے قانونی اور کاغذی کارروائی مکمل کرنے کے لیے کہا گیا، اس دوران میری اہلیہ رو رہی تھیں اور میں دیگر کاموں میں مصروف تھا، مجھے کھل کر رونےکا موقع ہی نہیں ملا۔
انہوں نے بتایا کہ والدہ نے میرے ہاتھوں میں دم توڑا جس کی وجہ سے میں شدید ڈپریشن میں چلا گیا تھا، مجھے انزائٹی اٹیکس آتے تھے، والدہ کے انتقال کے بعد میں رات 2 بجے اٹھ کر قبرستان چلا جاتا تھا اور ان کی قبر پر روتا تھا۔
شو کے دوران اداکار حال ہی میں دل کے دورے کے سبب ہونے والی اپنے والد کی موت کو یاد کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئے اور ان پر کپکپی طاری ہو گئی۔
انہوں نے غم میں ڈوبے ہوئے کہا کہ مردوں کو رونے کا موقع تک نہیں ملتا، مرد فوراً جنازے و تدفین کے انتظامات میں لگ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ والد کے انتقال کے بعد مجھے جب گھر کی سربراہی سونپی گئی تو میں لڑکپن سے براہِ راست بوڑھا ہو گیا، میں جوان ہوا ہی نہیں۔
محسن عباس حیدر نے مرد پر نظر نہ آنے والے معاشرتی دباؤ سے متعلق بات کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سماج میں مرد کو مضبوط اور بہادر سمجھا جاتا ہے، انہیں رونے اور پریشانی میں پُرسکون رہنے کا موقع تک نہیں ملتا۔