(گزشتہ سے پیوستہ)
مَیں کئی ماہ سے کھانسی میں مبتلا ہوں جو آپ کا پورا وُجود جھنجوڑ ڈالتی اور آپ کی صلاحیتِ کار کو بری طرح نچوڑ لیتی ہے۔ مَیں نے اپنی بیماری کا ذکر صرف چند قریبی رشتےداروں اور دَوستوں سے کیا ہے، کیونکہ بقول حالیؔ
مصیبت کا اِک اِک سے احوال کہنا
مصیبت سے ہے یہ مصیبت زیادہ
مگر دنیا والے جینے نہیں دیتےکہتے ہیں کہ تم پاکستان کے سینئرترین صحافی ہو، حکومت کو تمہیں علاج کی اعلیٰ ترین سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں۔ اُنہیں کیا بتائیں کہ ہمارا تعلق خواجہ حسن نظامی کے قبیلے سے ہے۔ ایک زمانے میں اُنکے اسلوبِ نگارش کا پورے ہندوستان میں ڈنکا بجتا تھا اور نوائےوقت کے ایڈیٹر جناب حمید اور اُن کے چھوٹے بھائی مجید صاحب نے اُن سے بہت زیادہ متاثر ہو کر اپنے نام کے ساتھ نظامی کا اضافہ کر لیا اور وُہ حمیدنظامی اور مجیدنظامی کہلانے لگے تھے۔ جناب خواجہ حسن نظامی کی بہت بڑی درگاہ تھی جہاں نذرانوں کی بارش ہوتی رہتی، مگر خواجہ صاحب نے رزقِ حلال کمانے کا راستہ اختیار کیا۔ وہ صبح سویرے کتابوں اور دَواؤں کے بنڈل سر پر اُٹھائے اُنہیں بازار میں فروخت کرنے نکل جاتے۔بلاشبہ آزاد منش صحافیوں نے اپنے آپ کو حکومت کی نوازشات سے الگ تھلگ رکھا، مگر اربابِ نظر کے ذہن میں یہ خیال تو آتا ہے کہ دانش ور، ادیب، صحافی اور شاعر اپنے ملک کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ انگریز قوم نے ولیم شیکسپیئر کو جو مقام عطا کیا، اُس کے طفیل اُس نے تاریخ میں بہت کچھ حاصل کیا۔ مسلمانوں کو اَللہ تعالیٰ نے حکیم الاُمت محمد اقبال کا تحفہ عطا کیا۔ اُنہوں نے برِصغیر کے مسلمانوں کو اقلیت کے اذیت ناک مسئلے سے نکال کر آزادی کا راستہ دکھایا۔ وہ اَکثریت اور اَقلیت کی ناقابلِ تصفیہ سیاسی صورتِ حال میں پھنسے ہوئے تھے۔ حکیم الاُمت نے اپنے خطبہ الہ آباد میں دلائل سے واضح کیا کہ صرف مسلمان ہندوستان کی سب سے مضبوط اور باہم مربوط قوم ہیں اور شمال مغربی ہندوستان میں اُن کی ریاست قائم ہونی چاہیے۔ حضرت قائدِاعظم علامہ اقبال کے تصوّرِ قومیت کو آگے لے کر بڑھے اور خداداد صلاحیت اور فراست سے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد وَطن پاکستان حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اِن عظیم شخصیتوں نے پورے برِصغیر کی تاریخ کا دھارا ہی بدل ڈالا تھا۔صحت کی خرابی کے باوجود مجھ پر یہ دھن سوار ہے کہ تاریخ سے اُن واقعات کا کھوج لگاتا رہوں جو ایک روشن مستقبل کی تعمیر میں ہماری قیادتوں کے لیے ممدومعاون ثابت ہوتے رہیں۔ ہم نے گزشتہ کالم میں خان عبدالقیوم خاں کے اہم کردار پر روشنی ڈالی تھی اور قدرے اختصار سے بتایا تھا کہ وہ بےپناہ صلاحیتوں کے حامل ہونے کے باوجود مستقبل میں پیدا ہونے والے مسائل کا ادراک نہیں کر سکے تھے بلکہ اقتدار کے نشے میں بعض ایسے اقدامات بھی کر بیٹھے جن سے بعدازاں نہایت مشکل حالات پیدا ہوئے۔ تاریخ کے عمیق مطالعے سے معلوم ہوا کہ اُن سے قبل صوبہ سرحد میں ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت پیدا ہوئی جس نے اپنے مختصر دورِ حکومت میں حیرت انگیز کارنامے سرانجام دیے اور قابلِ فخر دوربینی کا ثبوت دیا۔ اُن کا نام صاحبزادہ عبدالقیوم تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ فطرت نے اُنہیں اِس عظیم کام کے لیے بطورِ خاص تیار کیا تھا۔ وہ ٹوپی میں ایک مذہبی گھرانے میں 12 دِسمبر 1863ء کو پیدا ہوئے۔ ابھی تین سال ہی کے تھے کہ اُن کی والدہ اِنتقال کر گئیں اور جب دس برس کے ہوئے، تو اُن کے والد صاحبزادہ عبدالرؤف قبائلی جھگڑوں میں مارے گئے۔ اُن کے ماموں اُنہیں اور اُن کی بہن کو کوٹھا لے آئے جہاں ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا۔یہاں اُنہوں نے ایک دینی مدرسے میں پڑھنا شروع کیا جہاں اُن کے ماموں مدرس تھے۔ اتفاق سے عیسائیت کے پرچار کے لیے وہاں ایک مشنری مسٹر ہیوگز آتے تھے اور اُن کے صاحبزادہ عبدالقیوم کے ماموں کے ساتھ گہرے تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ اُنہوں نے محسوس کیا کہ عبدالقیوم حددرجہ ذہین طالبِ علم ہے اور اُن کے ماموں سے سفارش کی کہ اِسے انگریزی تعلیم دلانے کے لیے پشاور منتقل کیا جائے۔ وہ پشاور آئے اور اُنہیں ایڈورڈ مشن ہائی اسکول میں داخلہ مل گیا جہاں سے اُنہوں نے انگریزی میں مڈل کا امتحان پاس کر لیا۔ وہ نائب تحصیل داری کے امتحان میں بیٹھے اور پہلی ہی کوشش میں اُس میں کامیاب ہو گئے۔ وہ 1887ء میں نائب تحصیل دار تعینات ہوئے اور اُنہیں مختلف انتظامی ملازمتوں اور اَہم عہدوں پر کام کرنے کا موقع ملتا رہا۔ برٹش انڈیا کی طرف سے وہ اُس رائل کمپنی کا حصّہ تھے جس نے افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ طے کیا تھا۔ یہ بڑے اعزاز کی بات تھی۔ اُنہیں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس 1931-33ء میں صوبہ سرحد کی نمائندگی کا اعزاز بھی حاصل ہوا اَور اِس کے بعد اُن کا سیاسی کیریئر تابناک ہوتا گیا۔ صوبہ سرحد میں پہلی قانون ساز کونسل 1932ء میں قائم ہوئی جسے سرداری محکمے منتقل کیے گئے تھے۔ اُن محکموں کے پہلے وزیر صاحبزادہ عبدالقیوم تعینات ہوئے۔ 1935ء میں صوبہ سرحد کا درجہ بلند کر کے اُسے گورنر کا صوبہ بنا دیا گیا۔ 1937ء میں انتخابات ہوئے اور کوئی جماعت بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکی، چنانچہ یکم اپریل 1937ء کو صاحبزادہ عبدالقیوم صوبہ سرحد کے پہلے وزیرِاعلیٰ بنے، لیکن کانگریس کی مخالفت کے باعث اُن کی حکومت صرف چھ ماہ قائم رہ سکی۔ اِس مختصر سے دورانیے میں اُنہوں نے بنیادی اہمیت کے کارنامے سرانجام دیے۔ اُن میں سب سے زیادہ اَہمیت خواتین کی تعلیم کو دی گئی۔ اسلامیہ کالج پشاور سرسیّد کی پالیسی کے مطابق قائم ہوا۔ یہ وہی اسلامیہ کالج پشاور تھا جس کے طلبہ سے خطاب کرنے کیلئے قائدِاعظم بار بار تشریف لاتے رہے۔ صاحبزادہ صاحب نے یہ عظیم الشان کارنامہ بھی سرانجام دیا کہ اُنہوں نے یونائیٹڈ مسلمز نیشنلسٹ پارٹی کی بنیاد رَکھی۔ اُنکی وفات کے بعد جو 4 دسمبر 1937ء کو ہوئی، اِسی جماعت نے آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی اور تحریکِ پاکستان کا غلغلہ شروع ہوا۔ ہم بلاخوف و تردید کہہ سکتے ہیں کہ صاحبزادہ عبدالقیوم نے اپنے صوبے کے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ناقابلِ فراموش اقدامات کیے اور دِلوں کو جیتنے کا پورا پورا اِہتمام کیا۔ اُنہوں نے تعمیر و توسیع کی بنیادیں مضبوط کر دی تھیں اور پشتو زبان کے فروغ کیلئے بھی خاطرخواہ اِنتظامات کیے۔ (جاری ہے)