پاکستان کی صورت نئی سرزمین اور اس پر دریا، پہاڑ، گویا ہر نعمت، بلاتفریق 1947ء میں ہمیں بخشی گئی، ہم کھودتے رہے کھاتے رہے پیتے رہے، وحشی جنگلی خلقت کی طرح بے ضرورت اور بے تحاشہ ہر دولت کو لٹایا، خرچ کیا لاپروا ہوکر اس انجام سے جو آج پورے ملک کو درپیش ہے، نہ پانی ہے نہ گندم ہے، نہ دالیں ہیں البتہ ہم خوش ہیں کہ دالبندین کےعلاقے میں سونا اور چاندی کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور یہ وہ علاقہ ہے جہاں نہ سڑک ہے نہ خوراک۔ اب پورے ملک میں ہم نے 76برس تک زمین اور پانی کو ایسی بیدردی اور لاپروائی سے استعمال کیا ہے کہ آج راول ڈیم میں پانی تہہ تک پہنچ گیا ہے ۔ خدا نے بادلوں کو روکا ہوا ہے کہ اتنی ناشکری قوم شاید اس پانی کی نایابی سے کچھ سبق سیکھ سکے، ہم نے سائنس سے کچھ نہیں سیکھا، ہم بس دعائیں کرکے خدا کو دھوکادیتے ہوئے من و سلویٰ کھاتے ہوئے ، اس منزل پر ہیں کہ ایک طرف بلاول دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے دعوے کررہے ہیں ۔ یہ سب لوگ نہیں جانتے کہ آج سے دس برس پہلے اردن میں ایک عالمی کانفرنس میں یہ موضوع زیر بحث رہا کہ بہت جلد ہماری لاپروائی کیاگل کھلائےگی۔ اردن میں تو ہی پہلے پانی ناپید تھا وہ تو مصر اور دریائے نیل سے پانی حاصل کرکے اپنے ملک کو چلارہے ہیں مگر سوال یہ سامنے آیا کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک پانی کی کمیابی کی صورت میں کیا لائحہ عمل اختیار کرینگے۔ دس سال سے ہر ملک مع پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے بااختیار لوگوں کو آگاہ اور قوموں کو تاکید کی کہ قدرت نے جو وسائل عطاکئے ہیں ، انکو تدبر اور عقلمندی سے ایسے استعمال کریں کہ بنگال کے قحط کی طرح زمینیں سوکھ کر پرندوں اورانسانوں اور باغوں اور جنگلوں کو ایسے بے آب نہ کریں کہ سارے ڈیم سوکھ جائیں اور سڑکوں پر کھڑی گاڑیاں دھلواتے ہوئے ساری زمینی اور فطری وسائل کو معدومیت کی جانب لے آئیں ۔مجھے یاد ہے کہ کئی کانفرنسوں میں کہا گیا ہے کہ پانی کو اگر اسی طرح بہتات سے استعمال کرتے رہیں گے تو دنیا میں اگلی جنگ پانی پر ہوگی، پاکستان میں بلا کسی باقاعدہ منصوبہ بندی عجیب و غریب اعلانات کردیئے جاتے ہیں۔ اگر ایک طرف دریائے سندھ سے 6نہریں نکالنے کا اعلان کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت نہیں، آپس میں صوبائی لڑائیوں کو آگ کی طرح بھڑکانے کے عمل سے گزارا جارہا ہے اسی طرح فوج اور پنجاب حکومت چولستان کی بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے دعوے کر رہے ہیں ایسے کڑوے تجربے ہم نے تھرپار کر میں بہت کئے ہیں۔ بہت فلٹر لگوائے گئے بہت پمپ لگائے گئے مگرکھارہ پانی کے عادی ہوئے لوگوں کے دانت دیکھ کر آپ کو پانی کی آلودگی کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔ اب تو فضائی آلودگی پر روز تجزیہ ہوتا ہے روز کہا جاتا ہے کہ ہر محلے میں آپ کے گھرکا کوڑا اُٹھانے ایک جمعدار آیا کریگا تاکہ گھر، گلی اور سڑک صاف رہیں مگر لاہور شہر کے اندرون یا کسی بھی شہر کے اندرونی علاقے میں نالیوں کے گندےپانی اور کوڑے کے ڈھیر پر گزر کربچے اسکول اور لوگ نوکریوں پر جاتے ہیں، گندے جوتوں کوتو صاحب لوگ دفتروں میں صاف کرتے ہیں اور بچوں کو استاد بتاتے نہیں بلکہ بہت سے استاد بچوں سے ہی کمرے اور ڈیسک صاف کرواتے ہیں۔ آج کل ہر چینل نے شہر شہر کے پروگرام شروع کئے ہیں انکو متواتر دیکھنے کی ضرورت اسلئے نہیں کہ جو حال چنیوٹ کا ہے، وہی حال بدین کا ہے اور گندگی کے ڈھیروں کیساتھ، نقلی دودھ، کیک اور ہر طرح کے کولڈ ڈرنکس، لاکھوں بوتلوں کو ضائع اسلئے کیا جاتا ہے کہ وہ فوڈ ڈپارٹمنٹ کی ٹیمیں چھاپہ مار کر پکڑتی ہیں، کچھ نہیں آپ اعلیٰ ہوٹلوں یا لکشمی چوک کے کٹا کٹ بنانیوالوں کے کچن دیکھ لیں، وہاں جتنے کا کروچ نظر آتے ہیں اس سے ہمارا نصف ایمان جھلکتا نظر آتا ہے۔ میں آپ کو لاہور میں ہونے والی فیض کانفرنس کا احوال سنا کر آپ کے منہ کا ذائقہ بدلنا چاہتی ہوں ہماری سب کی لیفٹیننٹ منیزہ ہاشمی نے نیا طریق کانفرنس متعارف کروایا ہے۔ انگریزی اسکول کی طرح ہمارے سارے اسکولوں اور کالجوں میں ادب، مصوری، موسیقی اور علمی جستجو کو وسعت دینے کی ضرورت کو اسلئے کانفرنس کا لازمی حصہ بنایا گیا کہ بچوں کو جدید ادب کے معانی بھی سمجھ میں آئیں۔ سنا ہے اردو کی نصابی کتابوں میں پروین شاکر کو پہلی دفعہ شامل کیا گیا ہے۔ بیان ہو فیض کا کہ فراز کا کہ حبیب جالب کا انکو کہیں کہیں ہاتھ لگایا گیا اور جب سینکڑوں بچوں نے میری نظم، ’’جوتے بیچتی ، موزے بیچتی عورت میرا نام نہیں‘‘ پڑھکر سنائی اور اصرار کیا کہ آپ کی اور فہمیدہ ریاض کی شاعری کورس میں کیوں نہیں پڑھائی جاتی۔ میں نے بتایا کہ اکثر پرانے اور ریٹائرڈ استادوں کونیا نصاب بنانے کی ذمہ داری دی جاتی ہے جتنا انہوں نے پڑھا ہوتا ہے اسی کے مطابق وہ نصاب مرتب کردیتے ہیں ۔ ہمارے بچوں کے نصاب میں پودوں میں نر اور مادہ کے فرق اور ملاپ کو بیان کیا جاتا ہے تو اکثر استاد، اس کی تشریح نہیں کرتے ہیں۔ جب کہ ہمارے ہر مالی کو معلوم ہے کہ اس امتزاج سے پودوں میں پھل لگتے ہیں اور اسی طرح انسانی نسل بھی بڑھتی ہے۔ بہرحال فیض احمد فیض کے شاعرانہ فلسفے، تاریخی حوالوں اور پھر میر انیس جیسے مرثیہ نگاروں کی سو سالہ تقریبات کو اس کانفرنس میں پڑھا گیا اور سب سے اہم اور یادگار موقع یہ تھا کہ زہرہ نگاہ، جن کو سنکر ہماری شاعرانہ طبیعت کو تحسین ملی اور لاہور کے لوگوں کو ستر سال کے بعد، زہرہ آپا کی گفتگو، شعر اور فیض صاحب کی شخصیت پر انکے منہ سے توصیف سنکر دل کرتا تھا کہ فیض صاحب جیسا کوئی نہیں ہے ، منیزہ کی محنت فیض شناسی کو فروغ دیتی رہے گی ، ہماری نوجوان نسل کو شعر سننے کی تہذیب بھی آجائے کہ سیٹیاں بجاتے بچے کچھ ادب سیکھ جائیں ۔