’’ہم کوئی غلام ہیں ‘‘کا نعرہ بلندکرنے والے بانی پی ٹی آئی کی جماعت غلاموں کی منڈی بنتی جارہی ہے۔ وفادار رہنما و کارکن کھڈے لائن لگائے جارہے ہیں۔ غلاموں اور خوشامدی ٹولے نے بانی پی ٹی آئی کا جیل میں گھیرا تنگ کررکھا ہے۔ انہیں اس بات کی کوئی خبر نہیں کہ باہر پی ٹی آئی کس طرح تتر بتر ہو رہی ہے اور دھڑے بندیاں آنے والے دنوں میں کس طرح ان کی مقبولیت کا دھڑن تختہ کرنے والی ہیں۔ 8 فروری کو صوابی جلسے کی بُری طرح ناکامی کے بعد بانی اپنی اس کمزوری کو مزید واضح کرتے نظر آرہے ہیں کہ انہیں وفاداری اور غلامی میں کوئی فرق محسو س نہیں ہوتا۔ وہ وفاداری کو غلامی سمجھ بیٹھے ہیں۔ ہم انہیں اس مفروضے پر پہلے بھی غلط گردانتے تھے اب بھی دہراتے ہیں کہ پارٹی صرف ایک شخصیت نہیں کارکنوں اور رہنماؤں کا ایسا مجموعہ ہوتا ہے جس میں ہر شخص اپنا رنگ ڈھنگ دکھاتا ہے اسی سے نئی قیادتیں جنم لیتی ہیں۔ سیاسی رہنما ہو یا کارکن وفاداری کا واحد ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی کنڈ کبھی نیچے نہیں لگنے دیتا۔ہمیشہ اپنی قیادت کے سامنے حق سچ کی بات کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ یہاں بڑے مولانا صاحب کا تذکرہ نہ کرنا بڑی زیادتی ہوگی کہ جن کی سیاسی بصیرت سے بانی پی ٹی آئی خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں اور گرینڈ اپوزیشن الائنس کی بات اسی وجہ سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ بات ہو رہی تھی وفاداری اور غلامی میں فرق کی جو یقیناً بانی پی ٹی آئی کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ اسی لئے مفاد پرست سازشی ٹولے کے مشورے پر شیر افضل مروت جیسے وفادار سیاسی کارکن کو پی ٹی آئی سے نکال کر اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار رہے ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کی اسی سوچ سے ہمیشہ اختلاف رہا کہ ان کی اپنی کوئی سوچ نہیں۔ جب وہ برسراقتدار تھے تب بھی یہی رائے تھی آج بھی اسی پر قائم ہوں کہ عوام میں مقبولیت اللہ دے اور بندہ لے والی بات ہے۔ پاکستان کے سیاسی اُفق پر ایسے کئی سورج چڑھتے ڈھلتے دیکھے ہیں۔میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی اس رائے سے بھی متفق نہیں کہ بانی پی ٹی آئی کانوں کے کچے، سنی سنائی باتوں پر کان دھرتے ہیں۔ مفاد پرستوں نے انہیں گھیر رکھا ہے جس کی وہ جیل میں بیٹھے قیمت چکا رہے ہیں۔ یقیناً پاکستان کی سیاست میں لوگ جھوٹ بولنے کو ایک ہنر مانتے ہیں ،اپنی غلطیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈال کر خود کو معصوم ظاہر کرکے یوٹرن لے جاتے ہیں تاکہ وہ خود کو نیک اور معتبر ثابت کرسکیں لیکن حقیقی لیڈر کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ زمانہ شناس ہوتا ہے۔ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر مرض کا علاج تجویز کرتا ہے۔ وہ ایسا طبیب ہوتا ہے کہ جس کے ہاتھ سے ہمیشہ شفاہی شفاملتی ہے۔ وہ سچے جھوٹے وفادار، دغا باز میں تفریق کرنا جانتا ہے۔ حقیقی آزادی اور غلامی میں فرق کی صلاحیت رکھتا ہے اور حالات کیسے بھی ہوں اپنی جماعت کو متحد رکھنے کیلئےسچائی پر مبنی فیصلے کرکے دھوکے بازوں سے دور رہتا ہے۔ وفادار اس کی مشاورتی مجلس کا حصہ ہوتے ہیں۔ منافقوں، سازشیوں کی پرکھ کرکے جیل میں بھی اپنی جماعت کو مضبوط و متحد رکھتا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے کیس میں سب کچھ اُلٹ ہے، شیر افضل مروت بانی پی ٹی آئی کے وفادار ساتھی ہیں۔ شعلہ بیانی میں وہ کہیں کہیں انہیں بھی مات دے دیتے ہیں۔ پارٹی کیلئے ان کی قربانیاں، خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ وہ خیبرپختونخوا میںدوسرے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ انہیں پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ کارکنوں کو ہضم نہیں ہو رہا۔ اس فیصلے سے اس تا ثر کو مزید تقویت مل رہی ہے کہ بانی صاحب کسی سے مخلص نہیں۔ کارکنوں کی جسمانی و مالی قربانیوں کا انہیں کوئی پاس نہیں۔ وہ جسے چاہتے ہیں اپنے مفاد کی خاطر استعمال کرکے کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔ اطلاعات تو یہی تھیں کہ بانی پی ٹی آئی بشریٰ بی بی کے کہنے پر گنڈا پور کو وفاداروں کی فہرست سے نکال چکے ہیں لیکن سرکاری مشینری کے بغیر صوابی جلسے کی ناکامی نے انہیں ایک بار پھر گنڈا پور کی خدمات مستعار لینے پر مجبور کیا ہے۔ دیکھتے ہیں یہ پارٹی کب تک چلے گی؟شیر افضل مروت سمیت پارٹی میں آپریشن کلین اپ کے نام پر صفائی کا جو سلسلہ شروع کیا گیاہے اس سے پی ٹی آئی میں دراڑیں مزید گہری ہوں گی۔ کارکن مایوس ہیں۔ سوال یہ اٹھا رہے ہیں کہ اگر شیر افضل مروت پارٹی قیادت کو دھوکہ دے کر ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرکے اپنا الگ بیانیہ بنا رہے تھے تو بانی پی ٹی آئی کو چاہئے تھا کہ وہ انہیں بلا کر مسئلے کا حل تلاش کرتے اور غلط فہمیاں پیدا نہ ہوتیں۔ اب جو بھی شیر افضل مروت کی حمایت میں آگے آئے گا وہ دھرا جائے گا۔ اگلی باری شاید، اللہ کو جان دینی ہے والے شہریار آفریدی کی ہے۔ شیر افضل مروت جیسے جیالے کو پی ٹی آئی سے نکال دینا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ کارکن یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پی ٹی آئی وفاداروں نہیں غلاموں کی جماعت بن چکی ہے۔ اس میں مروت جیسے وفاداروں کی کوئی گنجائش نہیںپیسے والا ہی وفادار تسلیم کیا جاتا ہے۔ شیر افضل مروت نے مشکل اور کٹھن ترین حالات میں پارٹی کو اپنا کندھا دیا۔ خیبر سے کراچی تک مایوس کارکنوں میں نیا جوش و ولولہ پیدا کیا۔ اب بانی پی ٹی آئی نے اپنی ہی جماعت میں گروپ بندی کی ابتداکی ہے تو مروت انتہا کرے گا۔ خیبرپختونخوا میں ان کی مقبولیت کسی بھی پارٹی لیڈر سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی لئے وہ ان سے خوف زدہ ہیں۔ کارکن کہتے ہیں جس سائیکل کی ٹلی(گھنٹی) نہیں وہ کسی کام کی نہیں۔ شیر افضل کے بغیر پی ٹی آئی کی حالت بغیر ٹلی والی سائیکل جیسی ہوگی اگر شیر افضل مروت کو پارٹی سے باہر نکالنے کا فیصلہ واپس نہ لیاگیا تو پھر چاہت علی خان، حریم شاہ اور مفتی قوی کی خدمات حاصل کرلیں، وفاداری اور غلامی میں فرق جان کے جیو۔