دنیا میں متمول لوگوں کی ایک معقول تعداد موجود ہے جو اپنے اثر و رسوخ،سماجی مرتبے اور دولت کی فراوانی کی بدولت منفرد شہرت رکھتے ہیں۔مغرب میں تو دولت کے مثبت کی استعمال کی متعدد مثالیں موجود ہیں مگر ہمارے خطہ میں اس نوعیت کی امثلہ خال خال ملتی ہیں۔تاہم اسماعیلی برادری کے روحانی پیشواؤں نے سماجی خدمت کو اپنا مرکزی نصب العین بنائے رکھا۔پرنس کریم آغا خان انہی متمول لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنی دولت کو انسانی خدمت کیلئے استعمال کیا۔وہ اسماعیلیوں کے 49ویں روحانی امام کے طور پر ایک مسلم مرتبہ رکھتے تھے لیکن انہوں نے خود کو اس مرتبے کا قیدی بنانے کے بجائے انسانی خدمات کے حوالے سے اپنی شخصیت کو وقف کر دیا۔ان کے ماننے والوں کی تعداد دنیا میں پانچ ملین سے زائد ہے لیکن انہوں نے اپنی سوچ اور فکر کی بدولت اپنے فرقے اور کمیونٹی کو دنیا کی سب سے بڑی نمایاں خدمات سرانجام دینے والی کمیونٹی بنا دیا۔مذہب کے نام پر تقسیم ہونے والے تمام فرقوں اور قومیتوں کو انہوں نے ایک ایسی شاہراہ سے آشنا کر دیا ہے کہ اگر لیڈر چاہے تو اپنی قوم اور فرقے کو معاشرے کے مفید فرد کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔جس مکتب فکر کے وہ قائد تھے انہوں نے اس طبقے کو تنازعات سے دور رہ کر محض خدمت اور اپنی ترقی کے سفر پر گامزن کیا اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں آج جہاں بھی اسماعیلی کمیونٹی آباد ہے وہ خوشحال ہےاور جو خاندان خوشحالی کی لائن سے نیچے ہے،کمیونٹی اسکا ہاتھ تھام لیتی ہے اور اپنی صف میں کھڑا کرتی ہے۔باہمی تعاون کا مثالی رویہ جو اس کمیونٹی میں دیکھنے کو ملتا ہے وہ عمومی طور پر کمیاب ہی ہے۔اس نظام کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق اس فنڈ میں اپنا حصہ ضرور ڈالتا ہے جو انسانیت کی خدمت کیلئے استعمال ہوتا ہے۔پرنس کریم آغا خان کے دادا،آغا خان سوئم نے 1905میں مسلم لیگ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور پھر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے قیام کیلئے خطیر رقم فراہم کی۔1958 میں جب سلطنت عمان سے گوادر کی خریداری کا مرحلہ آیا تو اس وقت آغا خان نے پاکستان کو ساڑھے پانچ ارب روپے مہیا کیے۔ یہ رقم کریم خان چہارم نے اسماعیلی برادری اور اپنے ذاتی اثاثوں سے اکٹھی کر کے پاکستان کو بطور تحفہ دی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آغا خان فاؤنڈیشن نے دنیا کی سب سے بڑی این جی او کا روپ دھارا اور اس وقت 30 مختلف ممالک میں 80 ہزار سے زائد ملازمین کے ساتھ یہ فاؤنڈیشن اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ دستاویزات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سن 2023 میں آغا خان فاؤنڈیشن نے 58 ملین پاؤنڈز انسانی خدمت پر خرچ کیے۔پرنس کریم آغاخان نے، آغا خان چہارم کی حیثیت سے فلاحی کاموں کا ایک جال بچھایا انہوں نے آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کی بنیاد رکھی اور اس میں اپنی اور اسماعیلی برادری کی دولت سے دنیا بھر میں فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ اس این جی او کے تحت تعلیم صحت اور خواتین کی معاشی خود مختاری کے شعبوں پر کام ہو رہا ہے۔اس نیٹ ورک کی بدولت پاکستان کے شمالی علاقوں میں تعلیم صحت کے میدانوں میں خصوصی طور پر خدمات سرانجام دی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں کی ہزاروں خواتین کو تعلیم اور ہنر کے زیور سے آراستہ کر کے انہیں معاشی خود مختاری کی شاہراہ پر گامزن کیا جا چکا ہے اور اس فاؤنڈیشن نے شمالی علاقہ جات میں اتنے ترقیاتی کام کرائے ہیں کہ کئی بڑے شہروں میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جاتا۔2005 کے زلزلے میں آزاد کشمیر میں بہت بڑی تباہی آئی تو آغا خان فاؤنڈیشن ہی تھی جو این جی او میں سے سب سے پہلے وہاں پر پہنچی اور صرف تین دنوں میں وہاں پر خیموں کا ایک شہر آباد کیا۔ ادویات کی ایک بڑی کھیپ پہنچائی ڈاکٹروں کی ٹیمیں مظفرآباد پہنچی اور پھر بحالی کے کاموں میں بھی اس فاؤنڈیشن نے اہم کردار ادا کیا۔ زلزلے کے بعد متاثرین کو ان کے گھروں میں آباد کرنے کیلئے اس فاؤنڈیشن نے کلیدی کردار ادا کیا،آغا خان فاؤنڈیشن، دیگر این جی او سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ وہ فلاحی کاموں کے ساتھ ساتھ اسلامی اور تاریخی آثار کو محفوظ کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔ مصر میں فاطمی حکمرانوں کی تعمیر کردہ عمارتوں کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش کی خدمات بھی سرانجام دی جا رہی ہیںاور اسی فاؤنڈیشن کے تحت مختلف بڑے مقبروں کی حفاظت کا کام بھی کیا جاتا ہے۔دلی میں واقع ہمایوں کے مقبرے کی دیکھ بھال اور اس کی تزین و آرائش کی ذمہ داری بھی اسی ٹرسٹ کے پاس ہے۔علاوہ ازیں آگرہ اور دوسرے تاریخی شہروں میں بھی یہ ٹرسٹ تاریخی عمارتوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔آغا خان نے اپنی دولت کے استعمال کے حوالے سے ایک نیا ٹرینڈ بھی متعارف کروایا ہے متمول لوگوں کو خیر اور فلاح کی راہ پر گامزن کیا ہے۔پاکستان جہاں پر تعلیمی اور طبی سہولیات کا شدید فقدان ہے وہاں پر ایک طرف تو آغا خان یونیورسٹی جیسا ایک بڑا تعلیمی ادارہ قائم کیا ہے اور اس کیساتھ ساتھ آغا خان ہسپتال،آغا خان لیب اور زچہ و بچہ کی فلاح و بہبود کےلیے اس فاؤنڈیشن کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔رمضان المبارک کی مقدس ساعتوں میں جہاں نیکیوں کی بہار ا ٓرہی ہے وہاں آغا خان جیسے اداروں سے تعاون اور انکے رویوں سے سبق سیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔اگر ہر طبقہ سماجی خدمت کے میدان میں اسی فکر کا مظاہرہ کرے جو اسماعیلی کمیونٹی کرتی ہے تو پاکستان کو ایک فلاحی معاشرہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔