• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مُہمّات، مذاکرات اور مکتوبات سے ’گرینڈ الائنس تک‘

چیف جسٹس، مسٹر جسٹس یحییٰ آفریدی، عدالتی نظام میں اصلاحات کیلئے لا اینڈ جسٹس کمیشن کی تیار کردہ دس نکاتی تجاویز پر وسیع تر مشاورت کر رہے ہیں۔ وزیراعظم اور اُن کے قانونی مشیروں کے بعد چیف جسٹس نے پی۔ٹی۔آئی کے آٹھ رُکنی وفد سے دو گھنٹے طویل ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد پی۔ٹی۔آئی کے زُعما نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے قوم کو آگاہ کیا کہ انہوں نے جناب چیف جسٹس کے سامنے کس صراحت کیساتھ اپنا مقدمہ پیش کیا۔ میڈیا کی زینت بننے والی تفصیلات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس طویل ملاقات کے دوران، پی۔ٹی۔آئی کے بھاری بھرکم وفد نے، عدالتی نظام میں اصلاحات بارے کوئی ایک بھی تجویز پیش نہیں کی۔ شرکاء نے اِس امر کو یقینی بنایا کہ وہ اڈیالہ جیل کے مدار سے بال برابر بھی باہر نہ نکلیں۔ شکایات کا انبار لگا دیاگیا۔ جب اصلاحاتی ایجنڈے بارے سوال کیا گیا تو جواب آیا _ ’’ہمیں مہلت دی جائے تاکہ ہم اِن تجاویز بارے اپنا موقف پیش کرسکیں۔‘‘ چیف جسٹس نے ہمیشہ آتشِ زیر پا رہنے والی شعلہ صفت پارٹی کے زُعما کو صائب مشورہ دیا کہ وہ ایجی ٹیشن اور بائیکاٹ کی سیاست کے بجائے سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اپنا جمہوری کردار ادا کرے۔

کیا تحریکِ انصاف، چیف جسٹس کے مشورے پر کان دھرے گی؟ شاید ہی کوئی انتہا درجے کا خوش گمان، اِس سوال کا جواب ہاں میں دے سکے۔ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے، آئین وقانون کے تقاضوں، پارلیمانی روایات اور جمہوری اقدار کے مطابق کردار ادا کرنا پی۔ٹی۔آئی کی سرشت میں ہی نہیں۔ ایجی ٹیشن اور بائیکاٹ اِسکی غذا ہیں اور رُبع صدی سے یہی غذا اُسے زندہ رکھے ہوئے ہے۔ وہ بھاری تعداد میں قومی اسمبلی میں موجود ہے اور سینٹ میں بھی۔ کسی پارلیمانی رپورٹر کو، دونوں ایوانوں سے مصدقہ ریکارڈ حاصل کرکے بتانا چاہئے کہ پی۔ٹی۔آئی کے ارکان کی کارکردگی کیا رہی؟ اُس نے کتنا وقت احتجاج، نعروں، غُل غپاڑے، کاغذات کے پُرزے اُڑانے اور ایوان کو مچھلی بازار بنانے میں صرف کیا؟ کتنا وقت واک آئوٹ اور بائیکاٹ کی نذر کیا؟ قانون سازی کو کس سنجیدگی سے لیا؟ دونوں ایوانوں میں کتنے بل لیکر آئی؟ حکومتی بلوں میں کتنی ترامیم پیش کیں اور اہم قومی مسائل پر کتنی فکر انگیز تقاریر کیں؟ سسٹم کے اندر رہتے ہوئے البتہ وہ تنخواہ سمیت اُن تمام مراعات وسہولیات سے مستفید ہو رہی ہے جو ارکانِ پارلیمنٹ کو حاصل ہیں۔ اسپیکر سردار ایاز صادق کے پاس وہ دستاویز موجود ہے جس پر پی۔ٹی۔آئی کے ساٹھ سے زائد ارکان نے، تنخواہوں میں حالیہ اضافے کی استدعا کی ۔

پارلیمانی کارکردگی سے ہٹ کر بھی اُسکا کردار وعمل، سنجیدہ فکری اور بالغ نظری سے عاری رہا۔ 9 مئی اور 26نومبر جیسی بے برگ و ثمر مہم جُوئی کے بعد عمران خان نے، ماضی کے موقف اور اپنے مقبول ترین بیانیے کو ایک طرف رکھتے ہوئے اُس حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ کیا جسے وہ فارم ’47‘ کی پیداوار اور دھاندلی سے مسلط کردہ کہتے تھے جس حکومت میں شریک جماعتوں کو چوروں اور ڈاکوئوں کا ٹولہ قرار دیتے تھے۔ جن کے بارے میں تواتر سے اعلان جاری ہوتے تھے کہ کسی سے بھی بات ہوسکتی ہے، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے نہیں۔ خان صاحب کا یہ فیصلہ، بہرطور زمینی حقائق کے جبر کا نتیجہ تھا لیکن اتنا بڑا کڑوا گھونٹ پینے کے بعد بھی جب پی۔ٹی۔آئی مذاکرات کی میز پہ بیٹھی و خُوئے تصادم ساتھ لے کر آئی۔ مطالبات کی دستاویز کو چارج شیٹ بنادیا اور اِس مشق کے منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل ہی ایک خود تراشیدہ بہانے کی آڑ میں گھر چلی گئی۔ پھر یکایک خطوط نویسی کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اِن خطوط کا لب ولہجہ بھی جارحانہ بلکہ باغیانہ رہا۔ چیف جسٹس کو لکھے گئے ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل خط کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔ جنرل سید عاصم منیر کو خط لے جانے والا کبوتر مارگلہ کی پہاڑیوں اور گھاٹیوں پر دیر تک بھٹکنے کے بعد لاپتہ ہوگیا۔ کئی دِنوں بعد اُسکے پَر دامنِ کوہ کی ڈھلوانوں پر بکھرے پڑے ملے۔ خط کا کوئی سراغ نہ ملا۔ اگر یہ خطوط ہمہ نوع اُلجھائو کے سُلجھائو کے لئے ہوتے تو کم ازکم قومی سطح پر بحث ونظر کا سنجیدہ موضوع ضرور بن جاتے لیکن ہر خط ایک فردِجرم کی تصویر تھا۔ سو یہ مشق بھی ’مشقِ رائیگاں‘ ہی ٹھہری۔

بے ثمر مذاکرات اور بے مغز مکتوبات کے بعد اَب پی۔ٹی۔آئی اُن اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ’گرینڈ الائنس‘ بنانے جا رہی ہے جسکے قائدین کو وہ برسہا برس سے مغلظات سنا رہی تھی۔ کیا یہ بیل منڈھے چڑھ پائے گی؟ بظاہر امکانات بہت کم ہیں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ پی۔ٹی۔آئی کا کوئی سنجیدہ حکمت شعار نظم ہے نہ ایسا ٹھوس مشاورتی ڈھانچہ جو عمران خان کو قائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ عالم یہ ہے کہ جماعت کے سینئر راہنما بھی ہر آن کسی نادیدہ خوف کے آسیب کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور لب کشائی کرتے ہوئے ہچکچاتے ہیں کہ کہیں کوئی جملہ، سرزنش کا باعث نہ بن جائے۔ ہر بات، ہر معاملہ، چھوٹا ہے یا بڑا ، عمران خان کی جنبش لب اور افتادِ طبع سے بندھا ہے۔قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمرایوب خان نے دو دِن پہلے بتایا کہ چیف جسٹس سے ملاقات سے پہلے ہم نے تین بار عمران خان سے اجازت لی۔ جب پارٹی کے سرکردہ راہنمائوں کیلئے خان صاحب کی ایک ہاں کافی نہ ہو اور تین بار ’ہاں‘ کا شرعی تقاضا لازم جانے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خان صاحب کی کڑی گرفت کا عالم کیا ہے؟ اپوزیشن جماعتیں بھی بخوبی جانتی ہیں کہ عمران خان صرف اپنی فکرِ خداداد کو ہی حرفِ آخر خیال کرتے ہیں۔

ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ کیا اپوزیشن جماعتیں ہنگامہ وپیکار، تُوتکار اور کوچہ وبازار جیسی حکمتِ عملی اپنا سکیں گی جو پی۔ٹی۔آئی کا طرۂِ امتیاز ہے؟ کیا وہ ترسیلاتِ زر نہ بھیجنے، آئی۔ایم۔ایف کو پاکستان کی مدد سے روکنے، عالمی پارلیمانوں کو پاکستان کے اندرونی معاملات بارے اُکسانے، قومی سلامتی کے ضامن اداروں کو نشانہ بنانے، سوشل میڈیا کے طفلانِ خودمعاملہ کے زور پرنفرتوں کے الائو بھڑکانے، پاکستان کی صورتِ حال کو غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے بدتر قرار دینے ، 26نومبر کو جلیانوالہ باغ کے قتل عام کے مماثل قرار دینے اور 278کارکنوں کے سینے چھلنی کردیے جانے والے بے ننگ ونام جھوٹ جیسی مکروہ سوچ کے ساتھ چل سکیں گے؟ ’’گرینڈ الائنس‘‘ وجود میں آنے سے پہلے ہی پی۔ٹی۔آئی نے رمضان کے بعد تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ اِس تحریک کے اہداف ومقاصد کیا ہونگے؟ کوئی نہیں جانتا۔ جو کچھ بھی ہوگا اُس کا انحصار سیاسی راہنمائوں کی باہمی گفت وشنید پر نہیں ، خان صاحب کی صوابدید پر ہے۔

سیاسی اتحاد ایک خاص طرح کی آب وہوا بھی مانگتے ہیں۔ پی۔ٹی۔آئی کی طوفانی اور تلاطم پسند سرشت ایسے بے آب و رنگ خرخشوں کو پسند نہیں کرتی۔ اپوزیشن جماعتوں کو اپنا سارا اثاثہ پوٹلی میں باندھ کر پی۔ٹی۔آئی کی ایسی شکستہ کشتی میں سوار ہونے سے پہلے سوچنا ہوگا جس کے ملّاح کی ہنگامہ جُو اُفتادِ طبع، کسی آن کوئی کرشمہ دکھا سکتی ہے۔ عمربھر عُقدہ کُشا شخصیات کی چھتر چھائوں میں رہنے والی تحریک انصاف آج ایک دشتِ بے اماں میں ہے اور سورج سوا نیزے پر کھڑا ہے۔ یہ سب کچھ اُس کے شاہ دماغ بانی کے دستِ بے ہنر کا اعجاز ہے۔ آگے دیکھتے ہیں کہ ’’زمینِ چمن گُل کھلاتی ہے کیا کیا ؟‘‘

تازہ ترین