جہاں تک ہونہار بھتیجوں کا تعلق ہے، اردو ادب کے باثروت ہونے میں کوئی شک نہیں۔ البتہ مولانا ظفر علی خاں کے بیٹے مولانا اختر علی خان سے شروع ہونے والی ’صحافی صاحبزادہ‘ روایت میں کسی قدر پانی مرتا ہے۔ ’پانی مرنا‘ لکھ کر محض محاورہ نہیں کھپایا، یہ روایت ایسی ثقہ ہے کہ کہیں کہیں تو کائی زدہ پانی میں صحافت کی پھولی ہوئی لاش بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ چونکہ ناہنجار بیٹوں میں سے اکثر ساونت ابھی زندہ ہیں اور اپنے نجی ’ابا حضور‘ کے مرقد کے طفیل ٹانٹے ساونت بنے پھرتے ہیں اس لئے ان کے ذکر ناموافق سے گریز مناسب ہے۔ ادبی بھتیجوں کا معاملہ البتہ ’جگر لالہ‘ میں ٹھنڈک کا مضمون ہے۔
پطرس بخاری نے ’مرید پور کا پیر‘ میں اپنے بھتیجے کی مدح میں جو پھول ٹانکے ہیں، خدا لگتی کہیے، اس کے بعد ہر انسان چچا تو کیا، ماموں بننے پر بھی آمادہ نظر آتا ہے۔ فرماتے ہیں، ’میرا بھتیجا یوں دیکھنے میں عام بھتیجوں سے مختلف نہیں… لیکن ایک صفت تو اس میں ایسی ہے کہ آج تک ہمارے خاندان میں اس شدت کے ساتھ کبھی رونما نہ ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ بڑوں کی عزت کرتا ہے اور میں تو اس کے نزدیک بس علم وفن کا دیوتا ہوں۔‘ اگرچہ مرید پور کا جلسہ انجام تک پہنچتے پہنچتے پطرس کی اپنے بھتیجے سے محبت کسی قدر ماند پڑگئی تھی لیکن اس میں کلام نہیں کہ مرید پور کا نام آج تک اسی مؤدب بھتیجے کی نسبت سے زندہ ہے۔ مشکل صرف یہ ہے کہ اس کوہ کنی میں جو بھتیجے برآمد ہوئے، وہ ادب کے جنگل میں سنیاس لے گئے۔ صحافت کے دھان سوکھے رہے۔ آپ کے نیاز مند کو ولایت کے اشغال لطیف کی دھن ضرور رہی ہے لیکن کبھی ولایت کے ان معارف کا دعویٰ نہیں رہا جو لاہور کے کشمیری بازار میں پیلے کاغذ پر چھپتے ہیں۔ محض عطائے وہبی سمجھنا چاہیے کہ اردو صحافت کے واحد آٹھوں گانٹھ کمیت بھتیجے کا چچا ہونے کا شرف اس کم مایہ کے حصے میں آیا۔ اگرچہ بھتیجا ماہ و سال کے شمار میں ناچیز سے کوئی پندرہ سولہ برس پرانا ہے لیکن میری موجودگی میں سگریٹ نہیں پیتا۔ مضافاتی رپورٹروں سے یافت اور سرکاری نامہ بروں سے محنتانہ وصول کرنے سے گریزکرتا ہے۔ یوں بھی خاندانی لوگوں میں ماہ و سال کی ایسی اونچ نیچ کے کارن ہی حضرت اقبال نے خطہ مشرق کی زرخیز مٹی میں نم کی دعائے نیم شب کی تھی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے عہد بابرکت میں بھتیجے سراج الظفر کے پدر گرامی امام الدین وفا مرحوم نے لاہور سے کوئی تیس میل پرے واقع قصبے ’چکر پورہ‘ میں ایک مقامی اخبار شروع کیا تھا۔ خبروں کی فراہمی، کتابت، پروف ریڈنگ اور کاپی جوڑنا درویش کے ذمہ تھا۔ کاغذ کی فراہمی، پریس والوں سے دھینگا مشتی اور سائیکل پر اخبار رکھ کر کارخانوں، پرچون فروشوں اور عادی مجرموں کے ٹھکانوں تک صحافت کی روشنی پہنچانا مرحوم امام الدین کی صحافتی خدمت قرار پایا۔ قریب تھا کہ پنجاب کے اس کور دہ میں ہمیں بھی کالاباغ کے طفیل دریا پار تجارت یا مغلیہ بارہ دری میں شبینہ مجلسوں کا پرمٹ مل جاتا۔ مگر فلک ناہنجار کو منظور نہیں تھا۔ کالاباغ میانوالی اور ایوب خان ریحانہ سدھار گئے۔ بھتیجا سراج الظفر، بایں سعادت مندی، اپنے قبلہ گاہی کے رنگ ڈھنگ اور درویش کی سست گامی سے بیزارتھا۔ باپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی بھتیجے سراج الظفرنے مجھے لاہور کا راستہ دکھایا اور خود مقامی پولیس اور رسہ گیروں کی مدد سے ایک گمنام اخبار کو ایسا رنگ روپ دیا کہ ایک سال کے اندر اندر قومی صحافت کا حصہ بن گیا۔ بھتیجے سراج الظفر کی علمی استعداد اور پیشہ ورانہ اہلیت تو اوسط سے کچھ ہی تھی لیکن وہ ایک ایسے فن میں طاق تھا جو دربار سے ایوان تک کامیابی کا پروانہ راہداری سمجھا جاتا ہے۔ اس نے فن خوشامد میں درک پایا ہے اور کسی سیاسی رائے سے مکمل بے نیاز ہے ۔ ہر پریس کانفرنس میں پہلی صف میں بیٹھتا ہے اور اور صدر نشین کا خطبہ ختم ہوتے ہی اس کا ہاتھ یوں بلند ہوتا ہے جیسے دریا میں مچھلی پل بھر کو سطح آب پر جھلک دیتی ہے۔ سرکاری اہلکار جانتے ہیں کہ سراج الظفر جلیبی کے شیرے میں ڈوبے سوال کی مدد سے انگار صفت صحافیوں پر پانی چھڑکنے کا ہنر جانتا ہے۔ کوئی حکومت جاتی ہے تو بھتیجا سراج الظفر ایسی ایسی رنگین کہانی ڈھونڈ نکالتا ہے جس کا اس کے دیہاتی سراپے پر گمان تک نہیں گزرتا ۔ نئے حکمران کی تعریف میں ایسی بحر میں قصیدہ لکھتا ہے کہ باقی صحافی اس کی تقطیع تک نہیں جانتے۔ برسوں پہلے ایک منتخب وزیراعظم معزول ہوا تو ہمارا بھتیجا معتوب وزیراعظم کی نجی خواب گاہ تک جا پہنچا۔ لطف یہ ہے کہ ایک عشرے بعد مذکورہ رہنما دوبارہ اقتدار میں آیا تو عزیزم سراج الظفر نے اسی وزیراعظم کے وسط ایشیا کے دورے پر بادوباراں کو پاکستانی رہنما کی خوش بختی قرار دیا۔ فروری 2016 ء میں جس رہنما کے سیاسی بیان کو معافی نامہ قرار دیا تھا پھر اسی کے تدبر میں بحر مثمن میں اوصاف بیان کیے۔ 2018 ء میں صادق اور امین میاں بیوی کی رسم نہایت شاہی عمل میں آئی تو بھتیجے سراج الظفر نے ملکہ معظمہ کے ہلکے بادامی رنگ کے ریشمی عبایہ پر شرعی پردہ کی سرخی جمائی ۔ موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب سوئٹزرلینڈ میں طبی معائنے کے بعد واپس آئیں تو ہونہار بھتیجے نے محترمہ کی صحت نیز تھائی رائیڈ کا کیف و کم اس فصاحت سے بیان کیاکہ نامور ڈاکٹر انگشت بدنداںرہ گئے۔ ان دنوں اقتدار حقیقی نے علانیہ عقب نشینی اختیار کر رکھی ہے۔ ہاتھی کسی بھی گائوں میں پھرے ، سکہ تو اسی کے نام کا چلے گا جس کے ہاتھ میں اختیار کی چھڑی ہوگی۔ گزشتہ ہفتے صاحب ذی وقار نے نوجوانوں سے ایک پرجوش خطاب کیا۔ آفرین ہے ہمارے خوش نہاد بھتیجے سراج الظفر پر جنہوں نے اس تقریب کی خبر میں توصیف و تحسین کے ایسے لعل و جواہر ٹانکے کہ بقول حبیب جالب صاحب کا سکتر توجھومے ہی جھومے ،خو د صاحب مسند نشیں کا دل بھی ایک لحظے کو دھڑکنا بھول گیا۔اردو ادب تو ایک دو سعادت مند بھتیجوں ہی پر اکتفا کر گیا ، اردو صحافت کی مانگ میں سیندور کی یہ ایک چٹکی ہی کافی ہے۔ ملک عزیز میں جلوس شاہی کی آمدورفت میں ایک خاص سلیقہ پایا جاتا ہے اور اس ترتیب کو ہونہار بھتیجے سراج الظفر سلمہ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ تم بھی چلے چلو یونہی جب تک چلی چلے۔