• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کوئی 25برس پہلے کی بات ہے بے نظیر کی حکومت تھی اور سیکریٹری /چیئر پرسن رعنا شیخ تھیں، کرکٹ کھیل کی تیاری ایسی ہے زور دار۔ پہلی دفعہ خاص کرکٹ کا ترانہ تیار کیا گیا ’’ہم جیتیں گے ہم جیتیں گے‘‘ چوبیس گھنٹے میں ہر گھنٹے بعد ترانہ چلتا تھا جب ہار جیت کا موقع آیا تو پاکستان ٹیم کے لچھن ایسے ہی تھے جیسے 23؍فروری کو دبئی میں ساری دنیا نے دیکھے کہ حسب سابق فیلڈ میں بال آگے جا رہی ہے اور ہمارے جیالے اسکا پیچھا کرنے کی کوشش میں بال کو چوکا لگانے کے بعد پکڑ لاتے تھے۔ یہ ٹیم ہے جس کو بڑے نخرے اورتوجہ سے جسمانی مشقیں کروائی گئیں، نئے اسٹیڈیم تیار کئے گئے۔ 25سال کی بات یاد کرتے ہوئے مجھے انڈیا میں پاکستانی ٹیم کا دورہ اور ہارنا یاد آیا۔ مزید دلچسپ یہ کہ پورے انڈیا کے دورے میں کوئی بیمار نہیں ہوا ورنہ جب بھی کوئی کڑا موڑ آتا ہے تو ہمارے جیالے کرکٹرز میں سے کسی کی گردن کے پٹھے کھنچ جاتے ہیں تو کسی کی ٹانگ کے، سرکار کے خرچے پر علاج ہوتے ہیں وہ لاڈلے میچ کی پوری فیس لیتے ہیں 25سال پہلے ہی ایک اور کام شروع ہوا تھا شاید اب بھی جاری ہے کہ جس سلیقے سے ہمارے کرکٹر آؤٹ ہوئے کہ سٹے باز بھی حیران ہو گئے۔ غریب ملک کے سرفراز جیسے کرکٹر جو ناظم آباد کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے وہ جیت کے آئے تھے ’’ہم جیتیں گے‘‘ کا نعرہ نہیں لگایا تھا بہر حال ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہماری جذباتی قوم کو ہار سخت ناپسند اور جیت بھنگڑے میں بدل جاتی ہے۔ ہمارے میڈیا اور اخباروں کو اتنا اوپر کرکٹ کونہیں لے جانا چاہئے یہ بھی سمجھ لیں کہ دعائیں، محنت کرنے والوں کی قبول ہوتی ہیں ہماری ٹیم کو کئی دفعہ ہدایت دی گئی کہ آدھی آدھی رات تک ہوٹلوں میں گھومنا، بیویوں کو ساتھ رکھ کر خوش گپیاں کرنےکیلئے قوم ان کو سر پر اس لئے نہیں بٹھاتی کہ ’’تم جیتو یا ہارو ہمیں تم سے پیار ہیں‘‘۔ اب تو ہمارے وزیر داخلہ جو موجودہ حکومت میں بہت کچھ اور سب کچھ ہیں، استادوں والا ڈنڈا پکڑنا یا پھر یہ ذمہ داری کسی پرانے کرکٹر کے سپرد کر کے، صرف دہشت گردوں سے ملک کو آزاد کرنے کا کارنامہ بھی سرانجام دیں تو ہمارے وطن کے لوگ اور نوجوان فوجی، جان سے نہ جائیں۔ تجارت اور سیاحت کو فروغ ملے۔ ورنہ ہاکی کے کھیل کی طرح اس خرچے کو کم کریں اور لڑکیوں کو کرکٹ کھیلنے میں استاد بنائیں ، شاید یہی نسخہ کامیاب ہوجائے۔

اب ذراٹرمپ کے کارناموں کو ہمارے سربراہ دیکھ لیں امریکا ڈیڑھ سال تک ایک مزاحیہ اداکار کو اس لئے فروغ دیتا رہا کہ جنرل اسمبلی سے لے کر سارے ملکوں کی فوج کو یوکرین میں جھونکتا رہا، ٹرمپ کی اس جنگ کو فوری ختم کرنے اور 5؍ارب فنڈز جو اسلحہ فراہم کرنے پر خرچ ہوئے واپس کرنے کی تڑی بھی کام آئے گی اوروہ فوج میں بھی تبدیلیاں کررہا ہے کہ ہم نے تو ایک جرنیل کی وحشیانہ کارروائی پر اخباری سطح پر بہت کچھ کیا، پھر خرگوش کی طرح ذرا نیند بھر لیں، پھر رمضان بھی ہے کہ اب جلسہ جلوس کرنے سے سب کو معافی مل جائے گی۔ پاکستان کا کردار یہ ہے کہ عمرے اور حج پر جانے کے نام پر عورتوں اورمردوں کے پاس سے آئس ڈرگز صبح شام نکلتی ہیں۔ سارے مشرق وسطیٰ میںتیل اور گیس کے ذخیروں کے مالک ،ممالک بحرین، قطر اور سعودی عرب ہر روز غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو نکال رہے ہیں۔ جب ایسا منظر ہوگا توکون سا ملک ہماری لیبر مانگے گا۔ اس وقت پورے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے۔ ایسا تو شاید کسی آمر کے دور میں بھی نہیں ہوا، ججز، آپس میں لڑ رہے ہیں، نئے ضابطے، پوسٹنگ ٹرانسفر میں دو مہینے گزر گئے ہیں، پیشیوں پر لوگ آتے ہیں ناکام واپس جاتے، البتہ پنجاب کے چیف جسٹس نے زوم پر مقدمہ کی کارروائی کی، اب ان سب میں قانونیت کو معتبر جگہ دینے کی روح سامنے آئے۔ اب جب کہ تنازعات ختم کرنے غزہ اور اسرائیل کے بعد، یوکرین اور روس کی لڑائی بھی آخری دموں پر ہے، ہمیں اپنے ملک کے اندر چھوٹے چھوٹے مسائل حل کرنا ہونگے جو قالین کے نیچے چھپا دینے سے بہت بڑے ہو جاتے ہیں، آج سے کوئی 8برس پہلے جنوبی پنجاب کو سرائیکی علاقہ کہہ کروہاں ڈپٹی چیف بھی مقرر کر دیا گیا، پھر یہ معاملہ پایہ تکمیل کو نہ پہنچا، اسی طرح گلگت کے علاقے کو نیا نام دے کر وہاں باقاعدہ انتظامی مشینری لگا دی گئی، اسی طرح تھرپار کر اور بلوچستان میں تین زبانیں بولی جاتی ہیں، اس کے مطابق تین صوبے بنائے جائیں، آخر انڈیا میں پنجاب کو تین صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے، کے پی کو بھی تین صوبوں میں منقسم کیا جائے اور بلوچستان میں رقبے اور آبادیوں کے لحاظ سے عوام کی مرضی کے مطابق الگ الگ انتظامی حیثیت دی جائے ، اس کے کئی فوائد ہوںگے۔ ایک تو یہ گلہ جو ہر صوبے میں نفرت کی طرح پنپتے رہنے کو چھوڑ دیا جاتا ہے، ان سب تنازعات کا خاتمہ ہو گا، رقبے کی تقسیم کے علاوہ مالی حیثیت میں بھی اور آبادی کا تناسب بھی ہوگاتو ساری گلہ گزاریاں ختم ہو جائیں گی۔ اس وقت منصفانہ حدود قائم کرنے کیلئے صوبوں کی طرح تمام کورٹس پر بھی توجہ دی جائے کہ ہمارے چھوٹے ضلعوں کے مسائل سالہا سال تک طے نہیں پاتے باہمی رنجشیں بڑھتی جارہی ہیں اور قتل کے واقعات بھی۔ یہ الگ بات کہ اس وقت جیسے تقسیم در تقسیم عدالتوں کی ہو رہی ہے لوگ عہدے چھوڑ رہے ہیں اور دوسری طرف ہزاروں کی تعداد کے مقدمے کم نہیں ہو رہے۔ اس وقت نہری پانی، علاقائی حدود اور سرحدوں کا تعین ہر چیز بہت تاخیر سے ہو رہی ہے انڈیا میں یہ تقسیم ،آئین کی طرح بہت جلد مکمل کر لی گئی تھی۔ رہا کشمیر کا مسئلہ ٹرمپ کا جھکاؤ انڈیا کی طرف ہے اور پاکستان کی فنڈنگ یکدم بند کردی گئی ہے۔ وہ کشمیر کے پرانے تنازع میں بھی ٹانگ اڑائیں گے اس علاقے کی خوبصورتی برباد نہ ہونے دیں، یہ تنازع کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق طے ہوجائے تو برصغیر میں امن ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین