• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’بھئی، ہم تورمضان کےمہینےمیں اپنا دسترخوان وسیع کر لیتے ہیں۔ سحروافطار میں یہ بَھرے بَھرے دسترخوان ہوتے ہیں ہمارے، ہر چیز دستر خوان پر موجود ہوتی ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ اِس مہینے میں دسترخوان وسیع کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے۔‘‘ نائلہ نے افطاری کے لیے اپنے بَھرے دسترخوان کو اطمینان بَھری نظروں سے دیکھا اور پھر ایک نظر اپنی ساس کے پاس بیٹھی اپنی ہم سائی خالہ صابرہ کو دیکھا۔ اُنھیں نائلہ کی ساس نے آج اپنے ہاں افطار کی دعوت دی تھی۔ خالہ صابرہ نائلہ کی بات سُن کر دھیرے سے مُسکرا دیں۔

’’آج افطار میں اتنا کچھ تھا، مگر آپ نے دیکھا خالہ صابرہ نے کتنا کم کھایا بلکہ کچھ چیزوں کو تو اُنھوں نے چکھا تک نہیں۔‘‘ رات کو نائلہ اپنی ساس کو دوا دینے آئی، توجیسے گلہ کیا۔ ’’ہاں دیکھا تھا۔ پہلے تو صابرہ کے ہاں بھی رمضان کے مہینے میں کیا کیا پکوان نہیں بنتے تھے۔ مگر جب سےاُس کی بہو آئی ہے، سب کچھ بدل گیا ہے۔‘‘ 

نائلہ کی ساس نے بات مکمل کر کے پانی کے ساتھ دوا نگلی۔ ’’ہاں، ہاں، یاد ہے، پچھلے سال ہم اِن کے ہاں افطار پر گئے تھے، تو دسترخوان پر گِن کے چار چیزیں تھیں۔‘‘ نائلہ کو بھی یاد تھا کہ پچھلے سال خالہ صابرہ کے ہاں افطار پر صرف کھجور، دہی بھلے، فروٹ چاٹ اور پکوڑے ہی تھے، جب کہ پینے کے لیے سادہ پانی اور اسکنجبین رکھی گئی تھی۔ جواباً ساس نے اثبات میں سَر ہلایا۔ ’’مجھے تو لگتا ہے، اِن کی بہو بہت کنجوس ہے۔‘‘ نائلہ نے رائے دی۔ ’’ہاں، مجھےبھی لگتا ہے کہ اُس نے صابرہ کے گھر، بیٹے اور بیٹے کی ساری کمائی پرقبضہ کرلیا ہے۔ 

صابرہ کو شاید ہر معاملے ہی سے بے دخل کردیا ہے۔ مَیں نےاتنی بار اشارے کنایوں میں اُس کی بہو کے بارے میں پوچھا ہے، مگر وہ تو آگے سے اُس کی تعریفوں کے پُل باندھ دیتی ہے۔‘‘ نائلہ کی ساس کے لہجے میں خدشات بول رہے تھے۔ ’’دیکھ لیں امّی! آپ کو کتنی اچھی بہو ملی ہے، جو ہر کام آپ کے مشورے سے کرتی ہے۔‘‘ نائلہ نے شرارت سے کہا۔ تو اُس کی ساس مُسکرا دیں۔ ’’کسی دن جاؤں گی، صابرہ کی طرف تو اُس سے ٹھونک بجا کر پوچھوں گی کہ آخر وہ مجھ سے کیا چُھپا رہی ہے۔ دیکھ لینا سب اُگلوا لوں گی۔‘‘ بالآخر نائلہ کی ساس یہ کہتے ہوئے سونے کا ارادہ باندھ کے لیٹ گئیں۔

دو چار روز گزرے، تو صابرہ افطار کی ٹرے لیے چلی آئی۔ نائلہ نے ٹرے سے کپڑا ہٹایا، لوازمات پرایک نظر ڈالی۔ مبہم سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی ساس کو دیکھا اور ٹرے لیے کچن میں چلی آئی۔ افطار کے نام پر فروٹ چاٹ، پکوڑے اور کھجوریں ہی تھیں۔ ’’اللہ! اب کوئی اتنا بھی کنجوس نہ ہو۔‘‘ نائلہ نے لوازمات اپنے برتنوں میں نکالتے ہوئے خُودکلامی کی۔ ’’صابرہ! آج ایک بات سچ سچ بتانا۔ 

کہیں تمھاری بہو نے تمھیں ہر چیز سے بےدخل تونہیں کر دیا؟‘‘ نائلہ کی ساس کی دل کی بات آخر ہونٹوں پر آہی گئی۔ ’’تمھیں ایسا کیوں لگا؟‘‘ صابرہ مسکرائی۔ ’’بہت سی باتیں ہیں، مگر ایک یہی دیکھ لو کہ بہو کے آنے سے پہلے تمھارے ہاں سحری و افطاری میں کتنی چیزیں بنتی تھیں اور اب ایسے جیسے کسی غریب کا دسترخوان ہو۔‘‘ نائلہ کچن میں کھڑی سن رہی تھی۔ اور اب اُس کی حسِ سماعت صابرہ خالہ کے جواب کی منتظر تھی۔ ’’ نہیں بہن! میری بہو نے ہر چیز پر قبضہ نہیں کیا بلکہ میرے سوچنے اور دیکھنے کا انداز بدل دیاہے۔‘‘ صابرہ خالہ کی آواز اُبھری۔ ’’کیا مطلب…؟‘‘نائلہ کی ساس حیران تھیں۔ 

’’رمضان المبارک میں دسترخوان وسیع ہونا چاہیے، رمضان میں کسی چیز کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا، جتنا چاہو، خرچ کرو، اللہ اور دیتا ہے، یہ بابرکت مہینہ ہے، کُھلے ہاتھ سے خرچ کرو‘‘۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار جملے مَیں نے بھی سُن رکھے تھے اور اُن پر عمل بھی کرتی تھی، مگر صرف اپنی ذات یا اپنے خاندان کی حد تک۔‘‘ صابرہ سانس لینے کو رُکی۔ ’’تو اِس میں بُرا کیا ہے؟‘‘ کچن میں کھڑی نائلہ کے دل میں یہ سوال اُبھرا ہی تھا کہ اُس کی ساس نے یہ سوال پوچھ لیا۔ ’’اللہ بھلا کرے میری بہو کا، اُس نے مجھے بالکل مختلف انداز سے سوچنے کی طرف مائل کیا کہ رمضان المبارک دراصل ہماری تربیت کا مہینہ ہے۔ 

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اپنے نفس پر قابو پائیں اور صرف اپنی ذات ہی کے لیے نہیں بلکہ اُن لوگوں کے لیے بھی کچھ کریں، جو مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ جنھیں زندگی کی آسائشیں اور نعمتیں میسّر نہیں۔ زندگی کی نعمتوں میں ایک بڑی نعمت خوراک ہے، تو جو خوراک ہم اپنے دسترخوان پہ سجاتے ہیں، اگر اُس کا کچھ حصّہ ناداروں میں بھی بانٹ دیا جائے، تو درحقیقت یہی عمل رزق کی فراوانی کا سبب بنے گا۔ 

نہ کہ صرف اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے طرح طرح کے لوازمات سے دسترخوان سجا لیا جائے اور جو اشیاء کھانے سے بچ جائیں، اگلے روز ضایع کر دی جائیں۔ دسترخوان وسیع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے دسترخوان پر سجی نعمتوں کو محروم لوگوں کے دسترخوان تک پہنچانے کی سعی کی جائے۔‘‘ نائلہ ایک لمحے کو تھم سی گئی۔ وہ کچن سے نکل کر دونوں کے قریب آگئی کہ اِس طرح تو اُس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ اُس کی ساس بھی یک ٹُک خاموش بیٹھی تھیں۔

’’میری بہو ہر سال رمضان کے شروع میں اپنی حیثیت کے مطابق چار پانچ تنگ دست گھروں میں پورے ایک مہینے کا راشن پہنچا دیتی ہے تاکہ وہ سحری اور افطاری میں پیٹ بھر کر کھا سکیں۔ میرا زاویۂ نظر بدلا، تو مَیں نے بھی اِس کام میں اُس کا ساتھ دینا شروع کردیا ہے۔ اب ہم رمضان کے علاوہ بھی کچھ لوگوں کو خاموشی سے راشن پہنچا دیتے ہیں۔ َ

میں تمھیں یہ سب شاید کبھی نہ بتاتی۔ مگر صرف اِس لیے بتادیا کہ ایک تو تمھاری، میری بہو کے حوالے سے بدگُمانی دُور ہو جائے۔ دوم، یہ کہ تم لوگ بھی صاحبِ حیثیت ہو، تو اگر آج ہی سے اِس انداز سے سوچنا شروع کردو، تو کسی نہ کسی غریب کا بھلا ہو جائے گا۔‘‘صابرہ خالہ تو خالی برتن لے کر چلی گئیں۔ مگر… نائلہ اور اُس کی ساس بہت دیر تک نظریں جُھکائے بیٹھی رہیں۔

’’کہہ تو صابرہ ٹھیک ہی رہی تھی کہ ہم میں سے زیادہ ترلوگوں کا یہی تصوّر ہے کہ رمضان میں ہر طرح کی فضول خرچی کی چُھوٹ مل جاتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ جو مہینہ رحمت و برکت کا ہے، اُسے ہم نے فضول خرچی، شکم سیری، دکھاوے اور نمود و نمائش کا مہینہ سمجھ لیا ہے۔‘‘ 

نائلہ کی ساس نے کافی دیر بعد ایک ٹھنڈی سانس بَھر کر کہا۔ ’’مجھے خالہ صابرہ کی بہو کا نقطۂ نظر سمجھ آگیا ہے امّی! اور مَیں اب اِن شاءاللہ، اپنی ذات اور خاندان کے ساتھ ساتھ دوسرے ضرورت مندوں کا خیال بھی رکھوں گی۔ اپنا دسترخوان ناداروں تک وسیع کروں گی۔‘‘ نائلہ نے بھی عزم سے کہا۔ ’’اِن شاءاللہ تعالیٰ‘‘ نائلہ کی ساس جواباً بولیں تو دونوں طمانیت سے مُسکرا دیں۔