روبینہ یوسف
مصوّر دو تصویروں کو مکمل کررہا ہے۔ ایک تصویر میں انسانی ہیولا ہے، جس کی رگ رگ سے کانٹے نکلے ہوئے ہیں۔ بڑی بھیانک تصویر ہے، اگرچہ وہ اُس کے فن کا شاہ کار ہے۔ اِس تصویر کو اُس نے’’ت‘‘ کا عنوان دیا۔ ’’ت‘‘ کے اِک اِک نقش سے سفّاکیت ٹپک رہی ہے۔
اب مصور نے دوسرے کینوس کا رُخ کیا۔ کینوس پر سجی تصویر سے صبیح اُجالے پُھوٹ رہے ہیں۔ نئی اُمیدوں کی کونپل مُسکرا رہی ہے۔ یہ ’’ت‘‘ کا ازلی حریف ’’ت‘‘ہے۔ تصویر کو آخری ٹچ دینے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آ کر گہری نیند سوگیا۔
اُس بھیگتی رات کی صبح بڑی ہنگامہ خیز تھی۔ بھیانک ظاہر اور باطن والا اب کینوس سے نکل کرگھر کا دروازہ کھول، باہر نکل رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں فنائیت کے ڈستے وہ اندھیرے تھے، جو بقا کو راستہ نہیں دیتے۔ اُس نے ہمیشہ محرومیوں، بربادیوں اور رسوائیوں ہی کو جنم دیا تھا۔ وہ اِسی کام کے لیے پیدا ہوا تھا۔ گھر سے نکلتے ہی اُس کا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہو گئیں۔ اب وہ آسمان پر چل رہا تھا۔ اُس کی نظر میں ہرانسان، گاڑیاں، درخت، پتھر سب الٹے ہو گئے تھے۔
الٹے درخت کے نیچے، الٹا نائی اپنےالٹے بیٹھے گاہک کے بال کاٹ رہا تھا۔ الٹے خوانچہ فروش، پان فروش، الٹے چلتے پھرتے راہ گیر، میدان میں کھیلنے والے الٹے بچّے، سڑک پر ٹریفک کا سیلِ رواں…سب ہی الٹے تھے۔ وہ کافی حد تک اپنے مقصد میں کام یاب ہوچُکا ہے۔ مگر نہیں، اب ابھی کچھ لوگ ایسے تھے، جو سیدھے چلےجا رہے تھے۔ کچھ گاڑیاں اور عمارات بھی سیدھی تھیں۔ بس وہ جلد ہی اپنا مقصدِ حیات پا لینے والا تھا۔
اُسے یقین تھا، وہ جلد ہی باقی لوگوں کو بھی راہِ راست پر لے آئے گا کہ اُس کا جنم ہی اس کام کے لیے ہوا تھا کہ وہ آشاؤں کی سب کھیتیاں جلا کر بھسم کردے۔ جلد ہی وہ اپنے آڈیٹوریم میں پہنچ گیا۔ دن کے اُجالے میں اس کی بد صُورتیاں اور بھی واضح نظر آنے لگیں۔ اُس کے ارد گرد ہم خیال لوگ جمع ہونے لگے۔ اُس کی پھٹے ڈھول جیسی آواز، زہر اُگل اُگل کر کوبرا بن جانے والی زبان بدبو کی صُورت الفاظ اگلنے لگی۔ ’’میرے بھائیو! ایسے جذبات، خیالات کو نذرِآتش کردو، جو تمہارے پیٹ کی آگ نہ بجھا سکیں۔
آخر کیا ملتا ہے، تمہیں یہ ساری کھوکھلی باتیں سن کر؟ بار بار تبدیلی کی گردان، تمہارے دَم توڑتے پیاروں کے سانسوں کا ردھم نہیں جوڑ سکتی۔ ہر بار چاروں شانے چِت گرنے کے بعد بھی تم اندھی روشنیوں کے چراغ کیوں جلاتے ہو؟ مجھے دیکھو، مَیں کتنے تسلسل سے تباہی و بربادی کی نارِجہنم دہکاتا آ رہا ہوں اور مَیں سانس لیتی کائنات کے آخری لمحے تک اپنا یہ مِشن جاری رکھوں گا۔‘‘ وہ ذرا سانس لینے کو رُکا، تو الٹوں نے تالیاں بجانی شروع کردیں۔ کائنات کی لہریں الٹے طلسم میں بہنے لگیں۔
چند لمحے سانس لینے کے بعد وہ پھر اپنے کارنامے سُنانے لگا۔ ’’اِس نام نہاد دَورنے تمہارا یہ حال کردیا ہے کہ لا حاصل کی جستجو تمہیں چاٹ رہی ہے۔آؤ، لوٹ چلو، غاروں کے زمانے کی طرف۔ پھر سے درختوں کے پتّوں کو اپنا لباس بنا لو۔ پتھروں کے جگر سے حرارت پیدا کرو۔‘‘ لیکن پھر…اچانک دوڑتے بھاگتے قدموں کی دھمک سے وہ سہم گیا۔ گونج اِس قدر زیادہ تھی کہ اُس کے حامی اپنی اپنی جگہ چھوڑ کے آسمان کے کناروں سے جا لگے۔
’’یہ کون آگیا…؟‘‘ اور آنےوالا عین اُس کےسامنے آ کھڑا ہوا۔ کائنات جیسے ایک دم روشن ہوگئی۔ آنے والے کے پیروں تلے مخملیں سبزہ دَم بخود تھا۔ اُس کے ہم درد و ساتھی تن کر کھڑے تھے۔ ایسے جیسے انقلاب کی آہٹیں سُن رہے ہوں۔ وہی انقلاب، جو خاموشی سے ہرگز نہیں آتا۔ ’’میرے خلاف بولنے والے! تم نے کیا دیا نوعِ انسان کو؟ سوائے اُن دلدلوں کے، جو ہر اُمید کو چاٹ جاتی ہیں۔ غاروں کےزمانےکی بات کرتے ہو، تو یاد رکھو کہ اُس دَور نے انسان کو تن آسانی کے سوا کچھ نہیں دیا۔
مَیں نے پہاڑوں کو چیر کر اُن سے رستہ نکالنے کا ہنر سکھایا۔ جن کو تم نے ناکارہ کر دیا تھا، اُن کے ہاتھوں میں تیشہ و تیر تھمایا۔ پہلے لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر جاتے تھے، آج میڈیکل سائنس شریانوں کے روگ دُور کر کے انہیں بچا لیتی ہے۔ تم نے سب کو بےبسی کی قابلِ رحم تصویر بنا ڈالا۔ تہذیب، معاشرت، آگے بڑھنے کی لگن میں نے پیدا کی۔ زمین سے سر اُٹھا کر آسمان کو دیکھنا سکھایا۔ چاند، تاروں کو تسخیرکیا۔ تمہاری رقم کی گئی بوسیدگی کی تاریخ ہی سے دورِ نو کا دھارا پُھوٹا۔ تم دشمن ہو، انسانیت کے۔ تمہارے پھیلائے گئے شکست ریخت کے جال کو مَیں نے تازہ ولولوں سے مات دی۔‘‘
فضا جیسے یک دم ہلکی پھلکی ہوگئی، مگر ’’ت‘‘ نے ہار نہیں مانی۔ ’’مت آنا، اِس کی باتوں میں۔ کیا اُس وقت کا انتظار کررہے ہو، جب درختوں پر پھلوں کی جگہ زقوم کا زہر اُترنے لگےگا۔ جب چڑیا کی چونچ سے بارود کا دھواں نکلے گا۔ جب پرندے اپنے ہی انڈوں کو گھونسلوں سے نکال باہر پھینکیں گے۔ اپنا سکون، ابدی خوشیاں اور لازوال صحت، سب تم نے داؤ پر لگا دیئے ہیں۔ ’’ت‘‘ کے منہ سے کف اڑنے لگا۔
دوسری طرف ’’ت‘‘ کے چہرے پر ایک آسودہ سی مسکراہٹ تیررہی تھی۔ ’’تم نے اِن کو اِن کے حقوق سے محروم کیا۔ اِن سے بصیرت چھین لی۔ آج جو وقار انسان کو حاصل ہے، وہ کبھی خواب میں بھی اس کا تصوّر نہیں کرسکتا تھا۔ مت بھولو کہ کائنات بنی ہی اِن کے لیے ہے۔ ستاروں کی گزرگاہیں اِن کی منزلیں ہیں۔ آسائشیں، تعیشات اِن کا حق ہیں۔ مت حسد کرو، اِن کی جدوجہد سے۔ نہ روکو، اِن کے رستے۔ اِنہیں پھر سے مٹی پھانکنے پر مجبور نہ کرو۔ ’’ت‘‘ کی اس ولولہ انگیز تقریر کے بعد، ہجوم میں اچانک ہلچل سی مچ گئی۔
سیدھی روش والے الٹے لٹکے ہوؤں کو سیدھا کرنے کو لپکے۔ ’’تنزّلی مُردہ باد… تنزّلی مُردہ باد…ترقی زندہ باد…ترقی زندہ باد۔ آؤ، ہمارے ساتھ شامل ہوجاؤ۔‘‘ کی صداؤں کے ساتھ بازی یک دَم پلٹ گئی۔ تنزّلی نے تیزی سےگھر کا رستہ لیا کہ اُس کے پیچھے پیچھے ترقی کا بحرِ بےکراں جو تھا۔ وہ ہانپتے کانپتے گھر پہنچا اور لمحے بھر میں، خالی کینوس میں جا کر فٹ ہوگیا۔ تخلیق کار کا خواب ٹُوٹ گیا۔ دُورکہیں تمکنت سے استادہ پہاڑوں کی سرگوشی اُبھری۔ ’’ترقی کو زوال نہیں۔‘‘