پچھلا کالم’’احساس مر گیا ہے‘‘کے زیر عنوان شائع ہوا تو دنیا بھر سے اردو پڑھنے والوں نے احساس کے مرنے کی کئی کہانیاں بیان کیں، کچھ تبصرے بھی ملے، سب تبصرے تو یہاں شامل نہیں ہو سکتے مگر دو تبصرے شامل کر رہا ہوں۔ ایک تبصرہ مسلم ہینڈز سے تعلق رکھنے والے سید ضیاء النور کا ہے جبکہ دوسرا تبصرہ برطانیہ میں مقیم قانون دان قاضی رضوان الحق کا ہے۔ مسلم ہینڈز کے سربراہ سید لخت حسنین پوری دنیا میں انسانوں کی خدمت کرتے ہیں، پاکستان میں خدمت کا یہ کام سید ضیاء النور کے ذمے ہے۔ دکھی انسانوں کی خدمت کرنے والے مسلم ہینڈز کے سید ضیاء النور کہتے ہیں’’میں تقریباً آپ کا ہر کالم پڑھتا ہوں، کسی بھی قوم کے اندر احساس حکمران بیدار کرتے ہیں، انصاف کے ادارے بیدار کرتے ہیں، جب اوپر کی سطح پر احساس مر چکا ہو تو قومیں بھی آہستہ آہستہ بے احساسی کے گڑھے میں ڈوب کر مر جاتی ہیں۔ اس ملک کی بد قسمتی ہے اس ملک کے رکھوالے بن کر جن رہنماؤں نے قوم کے اندر امید کی کرن اور احساس بیدار کرنا تھا، وہ سب یہ چاہتے ہیں کہ قوم نا امیدی سے ختم ہو جائے۔ اس قوم پر نا انصافیوں کے ساتھ اتنے ظلم کئے جائیں کہ یہ نا امیدی کے گڑھے میں گر جائے۔ ہم اللہ کے عذاب کے قریب جا رہے ہیں مگر یہ بھی اس رب کی رحمت ہے کہ ہم محفوظ ہیں، ورنہ اللہ تعالیٰ کے پاس انسانوں کی جگہ نئے انسان لانے کا اختیار ہے اور تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ میری دعا ہے کہ ہم بے حسی کے گہرے کنویں سے نکل کر ایک امید افزا قوم بن جائیں، ایک ایسی قوم جس میں ہر دم احساس جاگتا ہو‘‘۔ دوسرا تبصرہ نامور قانون دان قاضی رضوان الحق کا ہے، قاضی رضوان الحق طویل عرصے سے برطانیہ میں پریکٹس کر رہے ہیں، راوین ہیں اور برطانیہ میں ہر دلعزیز ہیں۔ وہ لکھتے ہیں’’ آپ کا آج کا کالم دھواں دھار ہے بلکہ معاشرے کے منہ پر تھپڑ ہے، یہ سچ ہے کہ بے حسی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے، پاکستان حرام خوروں اور قانون توڑنے والوں کیلئے جنت ہے اور یہ لوگ باقی لوگوں کیلئے اس کو جہنم بنا رہے ہیں۔ صرف قانون اور ٹیکس کا محکمہ درست ہو جائے تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے مگر اس کیلئے امانت دار اور دیانت دار لوگ کہاں سے لائیں؟ رشوت ایک سرطان ہے جو قوموں کو تباہ وبرباد کر دیتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کا بگاڑ اب کسی انقلاب ہی سے درست ہو سکتا ہے، جتنے حالات بگڑ چکے ہیں ابھی ان حالات کو اور بگڑنا ہے، شاید اسے بیس برس اور لگ جائیں کیونکہ انقلاب اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک ہزاروں کی تعداد میں لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر امیروں کے علاقوں کا رخ نہیں کریں گے۔ مجھے یہ بات دکھ سے کہنا پڑ رہی ہے کہ آج کم و بیش ہر شہر میں امیروں اور غریبوں کی بستیاں الگ الگ ہو رہی ہیں، آئندہ پچیس سال میں یہ خلا مزید بڑھے گا اور جب 65 فیصد سے زائد لوگ دو وقت کے کھانے کو ترسیں گے تب وہ زندگی پر موت کو ترجیح دیں گے اور وہ منظر کسی قیامت سے کم نہ ہو گا‘‘۔ قاضی رضوان الحق کی اپنی رائے ہے، اس سے اختلاف بھی کیا جا سکتا ہے مگر کڑوا سچ تو یہی ہے کہ ہمارے ہاں ایک دوسرے کا احساس نہیں رہا۔ میرے دوست وصی شاہ کی والدہ رمضان المبارک میں جدا ہوئی ہیں، ان کی والدہ کی عظمت کا پتہ وصی شاہ کے طور طریقوں سے نمایاں ہوتا ہے، میں نے اتنی شاندار تربیت والے انسان کم کم دیکھے ہیں، آپ کیلئے وصی شاہ ایک شاعر، ڈرامہ نگار اور کمپیئر ہیں مگر یقین کیجئے وہ ان حیثیتوں سے ہٹ کر بھی ایک بڑا انسان ہے، اس کی ماں نے اس کی تربیت بہت شاندار کی ہے۔ احساس کے سفر پر نکلے ہیں تو کوشش کریں کہ معاشرے میں احساس کو بیدار کر جائیں کیونکہ احساس ہی معاشروں کو خوبصورت بناتا ہے، رحمان فارس کی غزل کے چند اشعار پیش خدمت ہیں کہ
صدائیں دیتے ہوئے اور خاک اڑاتے ہوئے
میں اپنے آپ سے گزرا ہوں تجھ تک آتے ہوئے
پھر اس کے بعد زمانے نے مجھ کو روند دیا
میں گر پڑا تھا کسی اور کو اٹھاتے ہوئے
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
پھر اس کے بعد عطا ہو گئی مجھے تاثیر
میں رو پڑا تھا کسی کو غزل سناتے ہوئے
خریدنا ہے تو دل کو خرید لے فوراً
کھلونے ٹوٹ بھی جاتے ہیں آزماتے ہوئے