دہشتگردوں کی جانب سے ریل گاڑی جعفر ایکسپریس کوقبضہ میں لیکر مسافروں کو یرغمال بنائے جانے کی خبر ملی تو وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کے طرح دار بیانات یاد آنے لگے۔ 26اگست 2024ء کو ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بلوچستان دھماکوں سے گونج اُٹھا تو جناب محسن نقوی کوئٹہ پہنچے اور وزیر اعلیٰ سرفراز بگٹی کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کی۔ کسی صحافی نے فوجی آپریشن سے متعلق سوال کیا تو فرمایا، دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کیلئے کسی لمبی چوڑی سائنس یا فوجی آپریشن کی ضرورت نہیں، یہ دہشتگرد صرف ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے۔ مگر میرا خیال ہے محسن نقوی صاحب کا کوئی قصور نہیں۔ وہ بہت زیرک آدمی ہیں، سارا قصور اس وزارت داخلہ کی کرسی کا ہے جو عقل چوس لیتی ہے۔ آپ چاہیں تو اس سے پہلے وزارت داخلہ کی مسند پر جلوہ افروز شخصیات کے بیانات اُٹھا کر دیکھ لیں۔ چوہدری نثار علی خان کتنے منجھے ہوئے اور تجربہ کار سیاستدان ہیں مگر جب وہ وفاقی وزیر داخلہ ہوا کرتے تھے تو یوں لگتا تھا جیسے سطحی قسم کے فنکار ہیں، ہمارے ہاں میدان سیاست کی خاک میں ایسی چنگاریاں پوشیدہ ہیں کہ بار بار نثار ہونے کو جی چاہتا ہے۔ کئی بار خیال آیا کہ کیوں نہ اقوال نثار کے عنوان سے کتاب شائع کروائی جائے۔ مثال کے طور پر جب طالبان سے مذاکرات کا قومی کھیل پورے جوبن پر تھا تو ایک دن چوہدری نثار نے ببانگ دہل طالبان کو کرکٹ میچ کھیلنے کی دعوت دے ڈالی۔ وہ تو بھلا ہو طالبان کا کہ انہوں نے شکریہ کے ساتھ یہ دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ انہیں کرکٹ کا کھیل پسند ہی نہیں ورنہ ایک طرف نثار الیون اور دوسری طرف حکیم اللہ محسود الیون، چشم تصور سے ملاحظہ کیجئے کیا منظر ہوتا۔ حکیم اللہ محسود کی موت پر اس وقت کے امیر جماعت اسلامی منور حسن کے بعد جس شخص کو سب سے زیادہ دکھ ااور رنج ہوا، وہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان تھے۔ پھر ایک دن ان پر کیفیت طاری ہوئی تو پارلیمنٹ میں بلا خوف و تردد کہہ دیا کہ طالبان حکومت دشمن تو ہو سکتے ہیں مگر ملک دشمن ہرگز نہیں۔ چونکہ پریس کانفرنس کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا اس لئے ایک دن صحافیوں کو جمع کر کے انکشاف کیا کہ اسلام آباد کی سیکورٹی فول پروف ہے۔ شومئی قسمت اس پریس کانفرنس کے تیسرے روز ہی اسلام آباد کچہری میں دھماکہ ہو گیا جس میں ایڈیشنل سیشن جج رفاقت حسین شہید ہوئے۔ چوہدری نثار اچانک نمودار ہوئے اور بتایا کہ جج صاحب دہشتگردوں کی فائرنگ سے نہیں بلکہ اپنے محافظ کی گولی سے شہید ہوئے۔ ایک مرتبہ دہشتگردوں کی شناخت اور علامات سے قوم کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا، کسی کو تنور سے 50یا اس سے زائد روٹیاں لے جاتے دیکھیں تو قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو اطلاع دیں کیونکہ ایسے لوگ دہشتگرد ہو سکتے ہیں۔ ایک دن راجپوتانہ خون نے جوش مارا تو فرمایا ہم افغانستان کے چوکیدار نہیں مگر اسکے باوجود پرانی تنخواہ پر چوکیداری کی ملازمت جاری و ساری رہی۔ لاہور سمیت پنجاب کے کئی علاقوں سے داعش کے لوگ پکڑے گئے، آئی بی سمیت تمام خفیہ ادارے متنبہ کر رہے تھے کہ داعش پاکستان میں پنجے گاڑنے کی کوشش کر رہی ہے اگر اسکے خلاف بروقت کارروائی نہ کی گئی تو یہ ملکی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ بن سکتی ہے مگر ہمارے وزیر داخلہ ایسے وسوسوں اور اندیشوں سے کوسوں دور رہے اور مسلسل یہ بیان داغتے رہے کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں۔
میرے ایک دوست جو نیکٹا میں کام کر چکے ہیں اور کمالاتِ چوہدری نثار سے بخوبی واقف ہیں ان کا خیال ہے کہ چوہدری نثار کا رعب تو جنرل رومیل جیسا ہے مگر بدقسمتی سے وہ علامتی وزیر داخلہ تھے۔ 18ویں ترمیم کے بعد وفاقی وزیر داخلہ کے اختیارات محدود ہو چکے ہیں اور اب جو بھی یہ عہدہ سنبھالتا ہے، عملاًوہ اسلام آباد کا کمشنر ہوتا ہے۔ بات تو سچ ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وزیر داخلہ کی حیثیت کمشنر اسلام آباد کی سی ہے تو پھر اسلام آباد کے کمشنر کے کیا فرائض ہیں؟
جب تحریک انصاف کے مظاہرین ڈی چوک میں دھرنا دیئے بیٹھے تھے تو چوہدری نثار نے انہیں کوسنے دینے اور ملامت کرنے کا فریضہ بطریق احسن سرانجام دیا۔ ان کی لعن طعن سے تو یوں لگ رہا تھا جیسے یہ علامتی بھی نہیں ملامتی وزیر داخلہ ہیں۔ جن کا کام بے بس اور لاچار بچے کی طرح مار کھانے کے بعد یہ بتانا ہے کہ ان گندے بچوں نے کس طرح دھونس دھاندلی کی اور اپنے دائرہ کار سے انحراف کیا۔ اور آپ کو وہ ’’سکندر‘‘ تو یاد ہو گا جس نے دو بندوقوں کے ساتھ چوہدری نثار اینڈ کمپنی کو تگنی کا ناچ نچایا تھا۔
اور قبلہ چوہدری نثار کا یہ فرمان عالی شان کون فراموش کرسکتا ہے کہ ڈی چوک کو مسمار کر کے ازسر نو تعمیر کیا جائے گا اور اس کے گرد اسٹیل کی دیوار تعمیر کی جائے گی تاکہ آئندہ کوئی احتجاجی ریڈ زون میں داخل نہ ہو سکے۔ فولادی دیوار بنانے کا اعلان کرتے وقت انہوں نے اس آہنی عزم کا اظہار بھی کیا کہ ریڈ زون کو ہائیڈ پارک نہیں بننے دینگے۔ میں نے تب لکھا تھا کہ چوہدری نثار کے آبائی علاقے چکری سے تقریباً 75کلومیٹر کے فاصلے پر ٹیکسلا شہر آباد ہے۔ یہاں کسی دور میں ’’سرکپ‘‘ نام کا ایک خوبصورت اور خوشحال شہر ہوا کرتا تھا۔ اس شہرکو یونانیوں، ساکاؤں، پارتھیوں اور کشنوں کے ادوار حکومت میں مسلسل تین صدیوں تک دار الحکومت کا درجہ حاصل رہا۔ آج بھی اس شہر کے آثار موجود ہیں، کسی بھی آثار قدیمہ کے ماہر سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ اس شہر اقتدار کے گرد اشوک اور اس کے جانشینوں نے کیسی کیسی بلند و بالا اور مضبوط فصیلیں تعمیر کروائیں، ان فصیلوں کی چوٹیوں پر تیر انداز تعینات ہوتے تاکہ شاہی محلات کے گرد کوئی پرندہ بھی پر نہ مار سکے۔ لیکن جب نااہلی اور بد انتظامی کے موسم میں بدقسمتی کے بادل امڈ آئے اور کمال کی کوکھ سے زوال نے جنم لیا، اعتبار جاتا رہا تو اقتدار مٹھی میں بند ریت کی مانند پھسلتا چلا گیا اور سب فولادی فصیلیں ریت کی دیوار ثابت ہوئیں۔ یہ سلسلہ چوہدری نثار یا محسن نقوی تک موقوف نہیں۔ مرحوم رحمان ملک ہوں یا فرزند راولپنڈی شیخ رشید، بطور وزیر داخلہ ان سب کے بیانات اسی طرز کے ہوا کرتے تھے۔ اگر یقین نہیں آتا تو کسی دن ان کے اقوال بھی آپ کی خدمت میں پیش کیے جاسکتے ہیں۔