حریم شفیق، سواں گارڈن، اسلام آباد
’’جَھلاّ گونگا، جَھلاّ گونگا…‘‘ بچّے پھر اُس کے پیچھے لگ گئے تھے۔ اُنہیں وہ جب بھی نظر آتا، تو اُسے ستانے سے باز نہ آتے۔ وہ آگے آگے اور بچّے اُس کے پیچھے پیچھے بھاگتے رہتے۔ پھر امّاں جنّتے اپنی کھولی کا پھٹا پُرانا، بدرنگ پردہ ہٹا کر باہر آتی اور شرارتی بچّوں کو جُوتا دکھاتے اور کوسنے دیتے ہوئے بھگا دیتی۔ تب کہیں جا کراُس غریب کی جاں بخشی ہوتی۔
پُرانے نالے کے قریب غریبوں کی ایک’’سوسائٹی‘‘ تھی، جہاں مزدور اور گھروں میں کام کرنے والی ماسیاں اپنے کُنبوں کے ساتھ برسوں سے آباد تھیں۔ امّاں جنّتے بھی اپنے بیٹے کے ساتھ اس بستی میں ٹِن کی چھت والے چھوٹے سے کمرے نُما مکان میں رہتی تھی۔ وہ کون تھی اور کہاں سے آئی تھی؟کوئی نہیں جانتا تھا۔ بس پندرہ سولہ سال کی لڑکی ایک تین سالہ بچّے کو گود میں لیے آئی اور کچے سے خالی مکان میں رہنے لگی۔
گاؤں والوں نے شروع شروع میں کچھ پوچھنا چاہا تو بس آنسو بہاتی اور بچّے کو اپنے سینے سے بھینچ لیتی۔ سب سمجھ گئے کہ کوئی زخم کھا کےآئی ہے۔ وہی زخم، جو اِس سرزمین کے حصول کی راہ میں نہ جانے کتنے مسلمانوں نے کھائےہیں۔ سو، اُسے اُس کے حال پہ چھوڑ دیا۔
بچہ گونگا تھا، کچھ بولتا نہ تھا۔ اوراب گلیوں میں گندے مندے حلیے میں گھومتا ادھیڑ عُمر ہو چُکا تھا اور اماں جنتے بہت بوڑھی۔ مگر وہ اب بھی اُس کا اُسی طرح خیال رکھتی تھی، جیسے بچپن میں رکھتی تھی۔ یہ بات تو سب جانتے تھے، وہ اُس کا بیٹا نہیں، مگر وہ اُسے اپنا بیٹا ہی کہتی تھی۔ اُس کا اصل نام دلاور تھا اور یہ بات اُس کے گلے میں پڑے تعویذ سے پتا چلتی تھی۔
’’پکڑو…پکڑو…جانےنہ پائے…چور… چور… ‘‘ گلی میں پھر شورمچا۔ سب بچّے، جوان چور پکڑنے بھاگ رہے تھے۔ اور آخرکار چور پکڑا گیا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی، جسے سینے سے لگائے وہ بھاگ رہا تھا۔ اماں جنتے بھی باہر نکل آئی۔ اُس کی آنکھوں کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ جھلا گونگا اور چور…؟؟ ’’ ارے! کیا چُرا لیا ہے اس نے، جو کُتوں کی طرح اس کے پیچھے پڑے ہو؟‘‘ اماں نے ایک ہاتھ کمر پہ رکھا اور دوسرے سے آنکھوں پہ چھجا بنایا۔ ’’اماں! پوٹلی میں کوئی چیز چُھپا کر بھاگ رہا تھا۔‘‘ بچّوں نے بتایا۔ ’’ہے کیا، اِس پوٹلی میں…؟‘‘ کسی نے کہا۔ ’’کھول کے تو دیکھو…‘‘ پوٹلی کھولی گئی اور دیکھنے والےحیران رہ گئے۔ چرمرائی ہوئی ہری، سفید جھنڈیاں…جو بچّوں نے یومِ آزادی پہ گلی سجانے کے لیے لگائی تھیں اور اب جگہ جگہ گری پڑی تھیں۔ سب حیران رہ گئے کہ یہ کیا چیز تھی چُھپانے والی۔ ہاں، صرف اماں جنتے جانتی تھی کیوں کہ وہ اس کہانی میں اُس کی ساتھی جو تھی۔ وہ سارا منظر ایک خواب کی طرح اُس کی آنکھوں کے سامنے لہرانے لگا۔
وہ اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور چند دوسرے گاؤں کے لوگوں کے ساتھ بیل پہ سواراُس منزل کی طرف رواں دواں تھی، جس کی خاطر نہ جانے کتنے مسلمان اپنی جانوں کے نذرانے دے چُکے تھے۔ آنکھوں میں اپنی سرزمین کے خواب سجائے وہ بہت مسرور تھی۔ اپنے اسکول کی ہونہار طالبہ، جس نے آزادی کی جنگ میں جوش وخروش سے حصّہ لیا تھا۔ وہ پاکستان کے نعرے لگایا کرتی، بچّوں کو جمع کرکے قائدِاعظم کی تعریف میں تقاریر کیا کرتی۔
بچّوں کو ترغیب دیتی کہ اپنے گھر والوں سے کہیں کہ پاکستان کے حصول کے لیے قائد کا ساتھ دیں۔ اور آج وہ اُسی منزل کو پانےجارہی تھی کہ اچانک سکھوں نے حملہ کر دیا۔ اُس کے سامنے اُس کے پورے خاندان کو شہید کردیا گیا۔ وہ صرف اس لیے بچ گئی کہ باپ نے اُس کے بھائی کی لاش اُس پہ ڈال دی تھی۔
وہ سانس روکے نیچے دبی رہی، جب تک کہ بلوائی لوٹ نہ گئے۔ سسکتی بلکتی باہر نکلی، توکچھ بھی تو نہ بچا تھا، سوائے خالہ ثریا کے تین سالہ پوتے کے۔ اُس غریب نے بھی یہ موت کا رقص اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اس کی قوت گویائی سلب ہوگئی۔ وہ اُسے گود میں اٹھائے پیدل چلتی رہی، یہاں تک کہ تھک کے گر گئی۔ آنکھ کُھلی تو ایک کیمپ میں تھی۔ وہ پاکستان پہنچ چُکی تھی اور وہ ننّھا معصوم اُس کے دوپٹے کا کونا پکڑے خوف زدہ نگاہوں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔
اماں جنتے نے لرزتے ہاتھوں سے ساری جھنڈیاں جمع کیں اور دلاور کو دے دیں۔ اُس کے اشک مسلسل بہہ رہے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ اِس جھنڈے کی اصل قدرو قیمت صرف وہی جان سکتا ہے، جس نےاِس کےلیے اپنا سب کچھ ہار دیا ہو۔