• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنتِ عطا، گوجرانوالہ

’’جی امّی! ہم نے کوشش کی، لیکن یہاں کوئی جواب ہی نہیں دیتا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی، یہ لوگ کسی دوسرے سیارے سے ہیں یا ہم کوئی خلائی مخلوق ہیں۔‘‘وہ ہنستے ہوئے بولی۔ عائشہ فون پر اپنی ساس سے بات کررہی تھی۔ ایک ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر تھی، مگر لہجے سے بےبسی سی جھلک رہی تھی۔ دوسری طرف سےعائشہ کی ساس کی نرم سی آواز آئی۔ ’’بیٹا! صبر رکھو۔ نئی جگہوں پرلوگوں کو اپنانے میں وقت لگتا ہے۔ 

آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ ’’اللہ کرے، ایسا ہی ہوامّی۔ ویسے یہاں سب اپنےآپ ہی میں مگن رہتے ہیں۔ نہ کوئی سلام، دُعا کرتا ہے، نہ خُود سے بات چیت۔ یہ بالکل الگ ہی دنیا لگتی ہے۔‘‘ فون بند کرنے کے بعد عائشہ نے ایک گہری سانس لی۔ نئے محلے میں آتے ہوئے جو خواب انہوں نے دیکھے تھے، وہ آہستہ آہستہ دھندلا رہے تھے۔ وہ سوچنے لگی کہ آخرایسا کیوں ہے؟

عائشہ اور زبیر اپنے بچّوں، رمیز اور زویا کے ساتھ چند ہفتے پہلے ہی اِس سوسائٹی میں منتقل ہوئے تھے۔ اُن کے پرانے گھرمیں خُوب گہما گہمی تھی۔ وہ زبیر کے والدین، دو بھائیوں اور اُن کے بیوی، بچّوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے مگر ہنستے بستے گھر میں رہتے تھے، جہاں ہر وقت قہقہے گونجتے، بچّے اِدھر اُدھر کھیلتے کودتے، بھاگتے دوڑتے پِھرتے اور…باورچی خانے سے ہمہ وقت رنگا رنگ خوشبوئیں آتی رہتیں۔ لیکن…پھر جیسے جیسے خاندان بڑھا، گھر کچھ تنگ محسوس ہونے لگا۔ 

گرچہ کوئی شکایت نہیں کرتا تھا، مگر یہ بات سب کے علم میں تھی کہ اب سب کا ایک گھر میں رہنا ممکن نہیں رہا۔ ’’یہ کوئی حل نہیں ہے، عائشہ! اب ہمارے لیے الگ گھرضروری ہوگیا ہے۔ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ بچّوں کے لیے بھی۔‘‘ ایک دن، زبیر ہی نے عائشہ سے کہا تھا۔ ’’لیکن ہم جائیں گے کہا ں؟‘‘ عائشہ نے فکرمندی سے پوچھا تھا۔ تب زبیر نےکچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ’’دفتر کے قریب ایک سوسائٹی ہے، جہاں نئے گھر بن رہے ہیں۔ 

وہ جگہ ٹھیک رہے گی۔ بچّوں کے اسکول کا بھی مسئلہ نہیں ہوگا، اورمیرا دفتر بھی قریب ہوجائےگا۔‘‘عائشہ کو یہ فیصلہ آسان نہیں لگا، لیکن وہ بھی سمجھتی تھی کہ اب یہ ضروری ہوگیا ہے۔ اور پھر بالآخرانہوں نے اپنا پرانا گھر چھوڑ کر اِس سوسائٹی میں شفٹ ہونے کا فیصلہ کر ہی لیا، اور اُس امید کے ساتھ کہ یہاں زندگی کچھ آسان اورنسبتاً زیادہ پُرسکون ہوگی۔

لیکن… نئےگھر میں شفٹ ہونے کے بعد، اُنہیں جلد ہی احساس ہوا کہ یہ جگہ خُوب صُورت تو ہے، لیکن یہاں کا ماحول بہت سرد ہے، اذیّت ناک حد تک سرد۔ اُن کے پرانے محلے میں سب لوگ ایک دوسرےکوجانتے تھے۔ آتے جاتے حال چال پوچھتے، خوشی غم کے مواقعپر اکٹھے ہوتے، جب کہ یہاں تو سب کو اپنے دروازے بند رکھنے کا جیسےخبط سا تھا۔ عائشہ نے کئی بار محلے کی خواتین کو سلام میں پہل کی، لیکن جواب میں صرف زبردستی کی مسکراہٹ ہی ملی۔ زبیر نے بھی گلی میں آتےجاتےلوگوں سے سلام،دُعاکی کوشش کی، مگرزیادہ ترنے نظریں چُرانے ہی کو ترجیح دی۔ 

بچّے بھی اس محلے کے ماحول میں خود کو بہت اکیلا اکیلا محسوس کررہے تھے۔ ’’یہ جگہ تو بہت ہی عجیب ہے۔‘‘ رمیز نے ایک دن تنگ آکر کہہ ہی دیا۔’’یہاں کے بچّے تو ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے ہی نہیں۔‘‘ ’’اور امّی! یہاں کوئی خالہ بھی نہیں، جو ہمیں ٹافیاں دیں، جیسےخالہ کلثوم دیا کرتی تھیں۔‘‘ زویا نے بھی شکایتی لہجے میں کہا۔ عائشہ اور زبیر نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ وہ بھی اس خاموش، جامد، سردماحول سےسخت ناخوش تھے، لیکن جانتے تھے کہ بہرحال اب یہی اُن کا نیا گھر ہے اور اُنہیں ہی اِسے اپنانا ہے۔

جب رمضان کا مقدس مہینہ شروع ہوا، تو سب گھروالوں نےاپنی توجّہ عبادت کی جانب مرکوز کرلی۔ عائشہ سحر و افطار بڑی محبّت سے تیار کرتی، ہر کھانے میں روایتی گرم جوشی شامل ہوتی۔ ’’کیوں ناں ہم، کل ہم سایوں کی طرف افطار بھیجیں، جس طرح امّی بھیجتی ہیں۔ شاید اسی طرح چاہت و اپنائیت، خلوص وبرادری کا احساس اجاگر ہوجائے۔‘‘ ایک شام، افطار کے دوران زبیر نے کہا۔ عائشہ نے اِس بات سے اتفاق کیااور بچّے بھی اِس خیال سے بہت خوش ہوئے۔ 

اگلے دن سب نےمل کرکھجور، سموسوں، پکوڑوں، فروٹ چاٹ اور بریانی کی چھوٹی چھوٹی ٹرے تیار کیں اور افطار سے پہلے ایک کے بعد ایک ہم سائے کے دروازے پر دستک دی۔ کچھ ہم سایوں نے ؒ تو ٹرے لے کر شکریہ کہا اور فوراً ہی دروازہ بند کرلیا۔ کچھ نے زبردستی مُسکرا کر قبول کیا۔ اور چند ایک نے تو دروازہ کھولنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ جب زبیر اور بچے افطار بانٹ کے گھر واپس آئے، تو بچے مایوس تھے۔’’امّی! کسی کسی نے تو شکریہ بھی نہیں کہا۔‘‘ زویا بہت افسردہ تھی۔ 

عائشہ نے بیٹی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا۔ ’’ہم نے اپنا فرض ادا کیابیٹا! یہ اہم نہیں کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں، اہم یہ ہے کہ ہم نے اچھا کام کیا۔‘‘ زبیر بھی اپنی مایوسی چُھپا نہیں پا رہے تھے۔ ’’لوگ اتنے سردمہر کیسے ہوسکتے ہیں؟ کیا ہم واقعی بھول چُکے ہیں کہ مِل جُل کر کیسے رہا جاتا ہے۔ دینِ اسلام میں ہم سایوں کے کتنے حقوق ہیں۔ ہمارے نبی ﷺ نے تو اِن حقوق پر بہت زور دیا ہے۔‘‘

ایک ہفتے بعد، مغرب کے فوراً بعد، پورے محلے کی بجلی چلی گئی۔ اسٹریٹ لائٹس بجھ گئیں، اے۔ سی کی گونج تھم گئی۔ خاموشی کچھ اوربھی گہری ہوگئی۔ زویا، عائشہ سے لپٹ گئی۔ اُسے اندھیرے سے بہت ڈر لگتا تھا۔ زبیر نے باہرجھانکا۔ گلیوں میں مہیب سناٹا تھا۔’’ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا۔‘‘ زبیر نے موم بتی جلاتے ہوئے کہا۔ ’’کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوگیا ہو۔‘‘جیسے جیسے وقت گزررہا تھا، بےچینی بڑھتی جا رہی تھی۔ 

کچھ ہم سائے اپنے گھروں سے باہر نکل آئے، بجلی کے محکمے کو فون کیاگیا، لیکن کوئی حل نہ نکلا۔ فونز کی بیٹریاں ختم ہو رہی تھیں، اورگرمی تو جیسے ناقابل برداشت ہوگئی تھی۔ زبیر سچویشن کو کچھ کچھ سمجھتے ہوئے، عائشہ کی طرف متوجّہ ہوا۔ ’’پوری سوسائٹی تاریکی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ بجلی آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ میرا خیال ہے، ہمیں فوری جنریٹرخرید لانا چاہیے۔کم ازکم لوگ اپنے فون تو چارج کر سکیں گے۔‘‘’’ اتنا بڑا خرچہ ہمارے لیے بھی تو آسان نہیں۔‘‘ عائشہ نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے اندازہ ہے۔‘‘ زبیر نے نرمی سے کہا۔’’لیکن، کسی کوتو یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔‘‘

زبیرنے گھر کے ڈرائیووے میں جنریٹر لگایا، ساتھ ہی ایک بلب روشن کردیا۔ اس کے بعد قریبی ہم سائیوں کے دروازوں پر دستک دی، لوگوں کو اپنےفون چارج کرنے، روشنی میں چلے آنے، ٹھنڈا پانی پینےکی دعوت دی۔ شروع میں چند لوگ ہچکچاتے ہوئے آئے۔ لیکن جیسے جیسے رات گزرتی رہی، زیادہ لوگ آنے لگے۔ یہاں تک کہ کرسیاں کم پڑ گئیں، تو لوگ اپنے گھروں سے کرسیاں لانےلگے۔ 

عائشہ نے چائے بنائی اور کپس میں ڈال ڈال کے رکھنے لگی۔ بچّے سب کو چائے اور دیگر لوازمات پیش کرنے لگے۔ آہستہ آہستہ، دھیمی دھیمی روشنی میں آپس میں بات چیت شروع ہوگئی۔ لوگوں نے ایک دوسرے سے اپنا اپنا تعارف کروایا، مُلکی اور شہر کےحالات پربات ہونے لگی، جو بڑھتے بڑھتے اپنے گھریلو قصّے کہانیوں تک آگئی۔

سحری کے وقت تک، پورے محلے کا ماحول بدل چُکا تھا۔ وہ لوگ جو کبھی سلام کا جواب تک نہ دیتےتھے، اب ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کر رہے ہیں۔بجلی کی یہ بندش مزید دو دن جاری رہی، لیکن اب یہ کوئی آزمائش محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ ہم سائے ایک دوسرے کا حال چال پوچھ رہےتھے، کھانے بانٹ رہے تھے اورافطار پر بہت سے لوگ یک جا تھے۔

چندہی دنوں میں، زبیر نے محسوس کیا کہ پارک میں رش بڑھ گیا ہے۔ بچّے ایک ساتھ کھیلنے لگےہیں۔ افطار کے وقت دستر خوانوں پرہم سائیوں کی طرف سے آئے کھانے نظر آنے لگے ہیں۔ ایک شام، جب زبیر اور عائشہ گھرکے ٹیرس پہ چائے پی رہے تھے، تو انہوں نے گلی سے قہقہوں کی آواز سنی۔ محلے کے بچّے، بشمول رمیز اور زویا، ایک ساتھ کرکٹ کھیل رہے تھے۔ عائشہ مُسکرادی۔ صرف ایک آزمائش نے سب کچھ تبدیل کردیا، ہےناں؟‘‘ 

زبیر نے بھی جواباً سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں، دراصل ہم سب ہی اپنی اپنی زندگیوں میں بہت مصروف ہوگئے ہیں۔ سب نفسانفسی کی ایک ایسی نہ ختم ہونے والی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں کہ بس ایک دوسرے سے آگے نکلنے ہی کی فکر میں لگے رہتے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر ہم نے کسی سے اپنی کوئی تکلیف، پریشانی شیئرکرلی، تو شاید اسے ہماری کم زوری سمجھا جائے گا یا کسی کو اپنی کسی کام یابی سے آگاہ کردیا، تو شاید کوئی ہم سے جلنے لگے۔ 

کسی حد تک یہ سچ بھی ہو سکتا ہے، لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ خوشی کے لمحات میں بھی اورمشکل گھڑیوں میں بھی، بہرحال ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہم سب کام یابی چاہتے ہیں، لیکن کام یابی صرف اکیلے دوڑنے سے تو نہیں ملتی، ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر آگے بڑھنے ہی سے ملے گی۔ کسی کی مدد کرنا، کسی کے ساتھ بیٹھ کرہنسی مذاق کرنا، اپنی پریشانیاں بانٹنا، بعض اوقات ہمیں خُود ہماری مشکلات کا حل بھی دے دیتا ہے۔ اور یہی باتیں تو زندگی کو زندگی بناتی ہیں۔ وگرنہ ایک انسان اور مشین میں کیا فرق ہے‘‘

رمضان کے اختتام پر، چاند رات کی گہما گہمی نے پورے محلے کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا۔ منہدی کی خوشبو، چوڑیوں کی کھنک،بچّوں کی قہقہوں نے ماحول کو مزید پُرمسرت بنا دیا تھا۔ عائشہ کےگھر کے صحن میں لڑکیاں قطار بنائے بیٹھی تھیں کہ عائشہ سب کے ہاتھوں پر کون منہدی سےخُوب صُورت ڈیزائن بنا رہی تھی۔’’عائشہ بھابھی! میری باری کب آئے گی؟‘‘ ایک لڑکی نے شوخی سے پوچھا۔ ’’بس تھوڑا ساانتظار، سب کو منہدی لگے گی، ان شاءاللہ آج یہاں سےکوئی لڑکی ہاتھ پیلے کیے بغیر نہیں جائے گی۔‘‘عائشہ نے بھی مُسکراتے ہوئےشوخی بَھرے اندازمیں کہا۔ 

آنٹی کوثر سب کے لیے مزےدار چاٹ بنا کر لائی تھیں اور سب لوگ اُن کی خُوب تعریفیں کر رہے تھے۔ رمیز اپنے دوستوں کے ساتھ صحن میں کھیل رہا تھا۔ زویا بھی اپنی نئی سہیلیوں کو اپنی عید کی تیاری دکھارہی تھی۔ گھر کے باہر گلی میں زبیر اور محلے کے دوسرے مرد کرسیوں پر بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔’’یاد ہے، جب ہم ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں تھے؟‘‘ ایک ہم سائے نے ہنستے ہوئے کہا۔ 

تو زبیر نے مُسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ہاں، اور اب دیکھیں، لگتا ہے، جیسے ہم ہمیشہ سے ایک ہی خاندان کا حصّہ ہیں۔‘‘ سب ہی نے مسکراتے ہوئے اعتراف کیا۔’’زبیر بھائی! یہ سب آپ کی فیملی کی بدولت ہوا ہے۔‘‘ ساتھ والے عدیل بھائی نے زبیر کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ لوگوں نے ہی ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہم سائے صرف دروازے کے پار رہنے والے لوگ نہیں، بلکہ ایک خاندان کی طرح ہوتے ہیں۔‘‘زبیر نے عاجزی سے سر جھکادیا۔ ’’یہ سب اللہ کا کرم ہے۔ بس دِلوں کوفراخ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘

رات گہری ہوتی گئی، چاند کی روشنی ہر چہرے کو روشن کیے ہوئے تھی۔ عائشہ اور زبیر نے دل میں اللہ کا شُکرادا کیا کہ اُن کی چھوٹی سی کوشش رائیگاں نہیں گئی۔