پروفیسر اصغر سودائی ممتاز شاعر، ماہرِ تعلیم، دانش وَر اور مشہور و معروف نعرے ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الّا اللہ‘‘ کے خالق ہیں۔ اُن کی نظم ’’ترانۂ پاکستان‘‘ کے اس مصرعے نےاتنی شہرت پائی کہ یہ نعرہ اور تحریکِ پاکستان گویا لازم و ملزوم ہوگئے۔ اُس دورمیں اگر یہ ولولہ انگیز نعرہ ہرکسی کی زبان پر تھا، تو آج بھی پاکستانی اسےبکثرت استعمال کرتے ہیں۔
نام وَر ادیب، بیوروکریٹ، قدرت اللہ شہاب اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں۔ ’’سیال کوٹ کے اصغر سودائی کا یہ لافانی مصرع ایک ضرب المثل کی صُورت اختیار کرچُکا ہے۔ ایک رات مَیں بڑی دیر تک سرور کے عالم میں، ’’پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الّا اللہ‘‘ گنگناتا رہا اور مجھے بڑی میٹھی، پُرسکون نیند آئی۔
خواب بھی بڑے دل فریب دیکھے۔ نیند میں بھی پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الّا اللہ کی طرب ناک گونج کانوں میں رس گھولتی رہی۔‘‘ خُوداصغرسودائی نے ایک انٹرویو میں اِس شہرۂ آفاق نعرے کے حوالے سے بتایا تھا کہ ’’اس نظم کی تخلیق میں میری کسی طرح کی شعری کاوش کا دخل نہیں، یہ ایک ندائے غیبی تھی، جسےعوام تک پہنچانےکا سہرا قدرت نے میرے سر باندھا اور پھر 1944ء سے لے کر 1947ء تک اس نعرے نے وہ جادو جگایا کہ کشمیر سے لے کرراس کماری تک کےمسلمان اپنے علیٰحدہ قومی تشخّص کا اقرار کرنے لگے۔
آج جب نظریۂ پاکستان کے متعلق سوال کیا جاتا ہے، تو ایک ہی جواب ملتا ہے اور وہ ہے؎ پاکستان کا مطلب کیا،لا الٰہ الّا اللہ۔ اوریہ اللہ تعالیٰ کا بے پناہ کرم، نبی پاک ﷺ کی بےانتہا رحمت ہےکہ مَیں پاکستان میں اس حوالے سے پہچانا جاتا ہوں۔‘‘
اصغر سودائی نے کئی دہائیوں تک ادبی دنیا میں اپنا سکّہ جمائے رکھا۔ نثری نظم میں موسیقیت کو شاعری کا حُسن تصورکیا جاتا ہے اور اصغر سودائی کی شاعری کی موسیقیت، موضوعات کا تنوّع اور لفظی کاری گری ہی اُنھیں دیگر شعراء سے ممتاز کرتی ہے۔ انھوں نے تعلیم و تدریس کے شعبےمیں بھی انفرادی مقام حاصل کیا، جب کہ شعروشاعری کے فروغ کے ضمن میں سیال کوٹ میں کئی کام یاب مشاعرے منعقد کروائے۔
اصغر سودائی نےاسلامیہ ہائی اسکول سے مرے کالج اور مرے کالج کے بعد اسلامیہ کالج، لاہور سے تعلیمی مدارج طے کیے۔ گورنمنٹ جناح اسلامیہ کالج، سیال کوٹ سے بطور لیکچرار تدریسی زندگی کا آغاز کیا اور پھر1965ء تک وہیں بطور پرنسپل خدمات انجام دیں۔ نیز، گورنمنٹ علامہ اقبال کالج، سیال کوٹ کی بنیاد رکھی اور وہاں بھی بطور پرنسپل خدمات انجام دیں۔
بعدازاں، ڈائریکٹر کالجز کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ اُنھیں بطور شاعر تو سبھی جانتے ہیں، مگر بطور نثرنگار بھی اُنہوں نے متعدد شعراء اور مصنّفین کی کتب پر ’’پیش لفظ‘‘ کی صُورت خُوب صُورت تحریریں رقم کیں۔
اصغر سودائی کو علامہ اقبال سےخاص لگاؤ تھا، جس کابڑا ثبوت سیال کوٹ میں علّامہ اقبال کی یاد میں قومی سطح کے مشاعرے منعقد کروانے کا اعزاز رکھنا ہے۔ ان کی منظرِعام پر آنے والی کتب میں اُن کی بہترین شاعری شامل ہے، جنھیں وہ اپنے ’’شوق کی داستانیں‘‘ قرار دیتے تھے۔ ضرورت اس امَرکی ہے کہ اصغر سودائی کی کتب جامعات کےکتب خانوں کی زینت بنائی جائیں تاکہ طلبہ اُن کی فکر و نظر سے آگاہی حاصل کرسکیں۔