صفیہ نسیم
آج سے تقریباً 85 برس قبل 23 مارچ 1940ء کو لاہور کی بادشاہی مسجد کے سامنے واقع باغ میں منعقدہ کُل ہند مسلم لیگ کا اجتماع ایک تاریخی موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس اکٹھ نے نہ صرف برِصغیر کے مسلمانوں کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتّب کیے بلکہ اُمّتِ مسلمہ اور عالمی سیاست کو بھی یک سَر بدل کر رکھ دیا۔
اس اجلاس میں آسام و بنگال سے لے کر خیبر تک کے مسلمانوں کی نمائندگی موجود تھی۔ برِصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کےنمائندہ اجلاس میں متفقہ طور پر منظور ہونے والی قرارداد ایسے تاریخی، عُمرانی اور نظریاتی عوامل رکھتی ہے کہ جن کو زوال پذیرعالمی سام راجی طاقت، برطانیہ بھی نظرانداز نہیں کرسکتی تھی۔
اس دن برِصغیر کی ملّتِ اسلامیہ کے نمائندوں نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا باضابطہ مطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ اور اس سلسلے میں منظور ہونے والی قرارداد اتنی غیرمعمولی تھی کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں اور کارکنان نے اِسے ’’قراردادِ لاہور‘‘ قرار دیا، مگر ہندو پریس نے اس قرارداد کو ’’قراردادِ پاکستان‘‘ کا نام دیا۔
قراردادِ پاکستان کی منظوری سے قبل علاّمہ اقبالؒ 1930ء میں الٰہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے برِعظیم کے شمال مغربی خطّوں کی سیاسی مرکزیت کے قیام کو مسلمانوں کے مسئلے کا ایک حل قرار دے چُکے تھے اور اس کی بنیاد پر علاّمہ اقبالؒ کو ’’تصوّرِ پاکستان کا خالق‘‘ کہا جاتا ہے، جب کہ علاّمہ اقبالؒ کےخطبۂ الہٰ آباد اور 1940ء میں قائدِاعظمؒ کی سربراہی میں تاریخی قرارداد منظور ہونے تک لفظ، ’’پاکستان‘‘ کو اختیار نہیں کیا گیا تھا، لیکن مسلمانوں کی بےداری اور تحریک نےاس آزاد اور خُود مختار مُلک کو پاکستان کا نام دیا۔
23 مارچ 1940ء کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائدِاعظمؒ نے کہا کہ ’’قومیت کی جو بھی تعریف کی جائے، مسلمان اس تعریف کی رُو سےایک الگ قوم ہیں، لہٰذا وہ اِس بات کا حق رکھتے ہیں کہ اُن کی ایک الگ مملکت ہو،جہاں وہ اپنے عقائد کےمطابق معاشی، سماجی اور سیاسی زندگی بسرکرسکیں۔ ہندو اور مسلمان ہر اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ہم اپنے مذہب، تہذیب و ثقافت، تاریخ، زبان، طرزِ تعمیر، اصول وقوانین، معاشرت، لباس غرض یہ کہ ہر اعتبار سے مختلف ہیں۔‘‘ دو قومی نظریے کی اس قدر واشگاف توضیح کے تناظر میں یہ کہنا بالکل مناسب ہے کہ علاّمہ اقبالؒ کے خواب سے لے کر قائدِاعظمؒ کی قیادت میں اس خواب کی تعبیر تک یہ واضح ہے کہ23مارچ 1940ء کا دن دو قومی نظریے کی وجہ سے طلوع ہوا۔ قراردادِ پاکستان کے ظہور کا سبب بھی دو قومی نظریہ تھااوردو قومی نظریہ ’’لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہے۔
برِعظیم کے مسلمان ایک بِھیڑ، ہجوم تھے اور یہ دینِ اسلام کی قوّت اور تاثیر ہی تھی کہ اُس نے چند ہی برسوں میں انہیں ایک منظّم قوم بنادیا۔ برِعظیم کے مسلمان ایک قوم کی حیثیت تو پہلے بھی رکھتے تھے، مگر اُنہیں اپنی قوّت کا شعور نہ تھا۔ اسلام کی قوّت اور اُس کی بنیاد پر ایک ریاست کے قیام کے مطالبے نےجداگانہ قوم اور جداگانہ ملّت کےتصوّر کو اتنی تیزی سے عام کیا کہ دُنیا کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ مسلمانوں نے 23مارچ 1940ء کوایک الگ مُلک کا مطالبہ کیا اور 14اگست 1947ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ یعنی ایک خواب صرف سات برس میں شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔
پھر یہ بھی اسلام ہی کی قوّت تھی کہ تحریکِ پاکستان مسلم اقلیتی صوبوں اور علاقوں مثلاً یوپی، دِلی اور بِہار وغیرہ میں زیادہ مقبول تھی، حالاں کہ ان علاقوں کے مسلمانوں کو بخوبی معلوم تھا کہ صرف وہی علاقے پاکستان میں شامل ہوں گے کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، لیکن اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے محض نظریاتی بنیاد پر قیامِ پاکستان کے لیے اپنے تن، من، دھن کی بازی لگا دی۔ یہ اسلام ہی کی تاثیر تھی کہ جس نےآسام وبنگال سےخیبر تک کے مسلمانوں کو وحدت کی ایک لڑی میں پرو دیا۔ قومی، لسانی اور علاقائی اختلافات اسلامی قومیت میں جذب ہوگئے اور آج بھی اگر کوئی چیز مسلمانوں کو متّحد کرسکتی ہے، تو وہ اسلامی وحدت کا یہ جذبہ ہی ہے۔
یومِ پاکستان، اسلامی وحدت اور دو قومی نظریے کے تحفّظ کےعہد کا دن ہے، کیوں کہ آج پھر ایک طبقۂ فکرپاکستانی قوم کو پاکستان کے مقصد اورنصب العین سے متعلق غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہا ہے، حالاں کہ قائدِ اعظمؒ نظریۂ پاکستان، دو قومی نظریے اور اُمّتِ مسلمہ سے متعلق ایک سے زائد بار اپنے خیالات واضح الفاظ میں بیان کرچُکے تھے۔ 1942ء میں تحریکِ پاکستان کے دوران قائدِاعظمؒ نے فرمایا کہ ’’اسلامی حکومت کےتصوّرکایہ امتیاز ہمیشہ پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اتحاد اور وفا کا منبع خدا کی ذات ہے، جس کے احکام کی تعمیل کا واحدذریعہ قرآن مجید کےاحکام و اصول ہیں۔ اسلام میں نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے، نہ کسی پارلیمان، نہ کسی اور شخص یا ادارے کی۔
یہ قرآنِ حکیم کے احکام ہیں، جو سیاست یا معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول و احکام کی حُکم رانی ہے اور حُکم رانی کے لیےآپ کوعلاقے اور مملکت کی ضرورت ہے۔‘‘(اورینٹ پریس بحوالہ روزنامہ انقلاب لاہور، مورخہ 8 فروری 1942ء) اس موقعے پر قائدِ اعظمؒ نے دین و سیاست اور دین و دُنیا کی علیحدگی کے تصوّرکو یک سَر مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ اسلام کو ایک خطّۂ زمین میں ریاست و حکومت کی ضرورت ہے۔
اس وقت دُنیا میں اسلام و کفر کے درمیان جاری کشمکش عالمی سیاست کا مرکزی عنوان بن چُکی ہے اور پاکستان کو اس خطّے میں پوری دُنیا کے مسلمانوں کے تحفّظ کا مرکز بننا ہے، جوعالمی منظرنامے پر واحد اسلامی جوہری طاقت ہے۔
ایسےمیں مُلک کےاسلامی و نظریاتی تشخّص کی حفاظت اور قومی وحدت کا فروغ موجودہ دَورکا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہمیں مِن حیث القوم اپنےمُلک اور اُمّتِ مسلمہ کی بقا کی خاطر اس چیلنج کو قبول کرنا ہوگا اور اس شعور کو عام کرنا ہوگا۔