فاسٹنگ (Intermittent Fasting) دنیا بَھر میں ایک بڑھتا ہوا رجحان ہے، جس کے تحت لوگ سات سے لے کر چوبیس گھنٹوں تک بالکل بھوکے رہتے یا تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد ہلکا پُھلکا کھانا کھاتے ہیں یا پھر صرف پانی اور پَھلوں ہی پر گزارہ کرتے ہیں۔ مسلمانوں میں کھانے میں یہی وقفہ صوم کی صُورت ہوتا ہے، جس پر وہ سال کے مختلف ایّام میں عمل پیرا رہتے ہیں، خاص طور پر مسلمان، رمضان المبارک کے پورے ماہ میں انتہائی احترام و اہتمام کے ساتھ روزے رکھتے ہیں کہ یہ مہینہ نفسانی خواہشات اور بھوک کنٹرول کرنے کے ضمن میں ایک الگ ہی شان، مقام کا حامل ہے۔
دنیا میں مختلف اقوام اور مذاہب میں روزے کسی نہ کسی شکل میں رائج رہے ہیں۔ راہب ہوں یا بھکشو، سادھو ہوں یا صوفی، رُوح کی پاکیزگی یا سکونِ قلب کے لیے غاروں، پہاڑوں اور جنگلوں میں کئی کئی دن کچھ کھائے پیے بغیر گزار دیتے ہیں۔اِس پہلو سے دیکھا جائے، تو دنیا کے ہر مذہب اور مکتبۂ فکر سے وابستہ افراد’’کم کھانے میں راحت ہے‘‘ کے اصول پر عمل کر کے اپنی جسمانی و ذہنی صحت کا اہتمام کرتے ہیں، البتہ دورِ حاضر میں وقفہ دے کر کھانا( Intermittent Fasting)یا فاقہ کشی کا جو رجحان دیکھنے میں آرہا ہے، اِس سے قبل دیکھنے میں نہیں آیا۔
دراصل سائنس دان اور طبّی ماہرین مختلف تجربات کے بعد اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسان جتنا کم کھائے گا یا کھانے میں طویل وقفہ دے گا، اُتنا ہی جسم کو طبّی نقطۂ نگاہ سے فائدہ ہوگا۔ اِس قسم کے تجربات تو کئی برسوں سے جاری تھے، لیکن اس پر بحث مباحثے میں اضافہ اور اِس کی زیادہ پذیرائی اُس وقت ہوئی، جب 2016ء میں ایک جاپانی سائنس دان Yoshinori Ohsumiنے Physiology Medicine میں نوبل پرائز حاصل کیا۔
اُنہوں نے جو تھیوری پیش کی، اُسے’’ Autophagy ‘‘بھی کہا جاتا ہے، جس میں مختلف تجربات سے ثابت کیا کہ اگر کوئی شخص کافی دیر بھوکا رہے، تو انسانی صحت مند خلیے، نقصان دہ خلیوں کو اپنی خوراک بنانا شروع کر دیتے ہیں یا خلیوں کی ہیئت میں مثبت تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔ آپ سادہ الفاظ میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا قدرتی عمل ہے، جس میں ناکارہ خلیے، بھوک کے دَوران خود کو کھانا شروع کر دیتے ہیں۔’’آٹو فاگی‘‘ ایک یونانی لفظ ہے، جس کا مطلب ہے، خود کو کھا لینا۔
آٹو فاگی نامی اِس تھیوری کے تحت بھوک کی حالت میں انسانی خلیوں میں یہ خصوصیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ نقصان دہ خلیوں کی توڑ پھوڑ کے بعد اُنہیں مزید بہتر کارکردگی کے حامل بنا دیتے ہیں اور یوں انسانی خلیے پہلے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نقصان دہ سیلز کو جسم سے باہر خارج کر دیتے ہیں۔
صفائی کا یہ قدرتی طریقہ اُس وقت شروع ہوتا ہے، جب سیلز خوراک سے محروم یا دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ سائنس دان اب اِس قدرتی لائحۂ عمل کا مختلف امراض کے تدارک کے حوالے سے جائزہ لے رہے ہیں۔وہ اِس عمل کو جسم کا ایسا قدرتی پراسس بھی قرار دیتے ہیں، جس میں جسم پرانے اور نقصان دہ سیلز کو پھر سے کارآمد بنانے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ انسانی خلیے، دراصل انسانی جسم کے ہر ٹشو( Tissue) اور عضو کی بنیادی اینٹ تصوّر ہوتے ہیں، جب کہ ہر ٹشو میں ایسے متعدّد حصّے ہوتے ہیں، جو اُسے ہر وقت کام کرنے میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔
جب یہ حصّے کام کرنا چھوڑ دیں، تو پھر ان خلیوں کی حیثیت کسی کاٹھ کباڑ کی طرح ہو جاتی ہے۔ آٹو فاگی کے عمل، یعنی بھوکا رہنے سے جسم کا ری سائیکلنگ سسٹم خلیوں میں یہ طاقت پیدا کردیتا ہے کہ وہ ناکارہ خلیوں کو پھر سے کام کے قابل بنا دیں۔ مختصراً یوں سمجھ لیجیے کہ بھوکا رہنے یا طویل وقفوں کے بعد کھانے سے انسانی خلیوں میں قدرتی طور پر ناکارہ خلیوں کی صفائی کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
ابھی اِس تھیوری پر مزید تجربات ہو رہے ہیں اور سرطان سمیت مختلف بیماریوں میں اِس کی افادیت کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ بہرحال، ابتدائی تجربات سے اِتنا ضرور ثابت ہوا ہے کہ قدرت نے انسانی خلیوں میں ازخود شفایابی کی صلاحیت رکھ دی ہے اور شفا یابی کا یہ عمل اُس وقت تیز تر ہو جاتا ہے، جب انسان کچھ دیر کے لیے بھوکا رہتا ہے یا دوسرے الفاظ میں روزہ رکھتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ خلیوں کی قدرتی صفائی کا یہ عمل کیسے شروع ہو سکتا ہے۔
ماہرین نے اِس کے لیے 24سے48گھنٹے کی فاسٹنگ ضروری قرار دی ہے۔ سائنس دانوں نے ابتدائی تجربات میں آٹو فاگی(مخصوص وقفے سے کھانا) کو کینسر کے علاج کے دَوران کیمو تھراپی سے زیادہ مفید قرار دیا، جس سے کیمو تھراپی کے ذیلی اثرات میں کافی حد تک کمی دیکھی گئی، جب کہ ماہرینِ طب نے بھوکا رہنے کے اِس عمل کو اب امراضِ قلب اور ذیابطیس کے لیے بھی مفید قرار دے دیا ہے۔
بشرطیکہ یہ عمل کسی مستند معالج کی زیرِ نگرانی انجام دیا جائے، کیوں کہ معالج ہی رہنمائی کر سکتے ہیں کہ کس حد تک کھانے سے پرہیز کیا جاسکتا ہے اور کون سی ایسی خوراک لی جاسکتی ہے، جس سے جسم کی قوّتِ مدافعت متاثر نہ ہونے پائے۔ نیز، فاسٹنگ کو دماغی صحت اور قوّتِ مدافعت بڑھانے کے لیے بھی مفید قرار دیا جارہا ہے۔
مختلف شعبوں سے وابستہ سائنس دانوں نے جب یہ تھیوری پیش کی کہ 24گھنٹوں یا ایک طویل وقفے تک بھوکا رہنے سے انسانی خلیوں میں مثبت تبدیلیاں رُونما ہوتی ہیں اور ناکارہ سیلز خود بخود ختم ہو کر یا نیا رُوپ دھار کر قدرتی ری سائیکلنگ کے عمل سے گزرتے ہوئے صحت مند ہو جاتے ہیں، تو اِس کے بعد فاسٹنگ کا رجحان عوام، بالخصوص مختلف امراض میں مبتلا افراد کے لیے ایک جنون کی شکل اختیار کر گیا۔
ماہرین کے مطابق اِس وقت دنیا میں انٹرمٹنٹ فاسٹنگ سے متعلق 40 انٹرنیشنل اسٹڈیز ہو چُکی ہیں، جن سے معلوم ہوا کہ طویل وقفے کے بعد کھانا کینسر سے شفا یابی کے مراحل میں تیزی لانے، وزن کم کرنے اور شوگر پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اِس رجحان میں اگلے 6برسوں میں 15فی صد اضافے کا امکان ہے۔ ایک سروے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ 18سے 80سال کی عُمر کے 10فی صد امریکی فاسٹنگ پر عمل کرتے ہیں۔
نیز، مختلف ایپس پر یہ نہایت تیزی سے مقبول ہونے والا ٹرینڈ ہے اور صرف انسٹا گرام پر اِس سے متعلق اوسطاً ایک گھنٹے میں 52پوسٹس کی جاتی ہیں۔ خوراک میں وقفہ اور ردّ و بدل متوسّط عُمر کے مرد و خواتین میں زیادہ مقبول ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں فاسٹنگ کے مقبول ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خوراک کو وقفے سے کھانا یا اس میں ردّ و بدل کرنا انسان کے اپنے کنٹرول میں ہے، بالخصوص وزن کم کرنے والوں میں یہ زیادہ پاپولر ہے، کیوں کہ اگر لوگ وزن میں کمی کے لیے بڑے بڑے اداروں سے رجوع کریں، تو وہ اُنہیں عموماً پیچیدہ طریقۂ کار، خوراک میں ردّ و بدل کے مشکل ٹاسک میں الجھا دیتے ہیں اور بعض ایسی ادویہ بھی استعمال کرواتے ہیں، جن کے ذیلی اثرات بہت نقصان دہ ہوتے ہیں۔
یوں لوگ کیلوریز میں کمی کے چکر میں پھنس کر رہ جاتے ہیں، جب کہ فاسٹنگ میں زیادہ تردّد نہیں کرنا پڑتا اور غذائی عادات میں مثبت تبدیلی انسان کے اپنے بس میں ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں ایک امریکی جریدے نے’’ Fasting on Rise‘‘ کے زیرِ عنوان لکھا ہے کہ’’ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے فاسٹنگ( یا روزے رکھنا) کوئی نئی بات نہیں۔
بُدھ مت کے پیروکار، مسلمان، عیسائی اور بھارتی سادھو صدیوں سے اِسی طریق پرعمل پیرا ہوتے آئے ہیں، لیکن اب فاسٹنگ کا عمل مذہبی رسومات، ہدایات اور طریقۂ کار سے نکل کر ہر شخص کے دائرۂ اختیار میں آچُکا ہے اور اب اس میں مذہب اور رنگ و نسل کی کوئی قید نہیں رہی۔ مریض اِسے امراض کی صحت یابی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، تو شوبز سے وابستہ نام وَر شخصیات خود کو فِٹ رکھنے یا ویٹ مینجمنٹ کے لیے آزما رہے ہیں۔‘‘
ایک عالمی سروے سے معلوم ہوا کہ 2022ء تک دنیا بَھر کے 80فی صد افراد فاسٹنگ کے تصوّر سے آشنا ہو چُکے تھے، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ عمل کتنا عام ہو چُکا ہے۔ فاسٹنگ کے بڑھتے رجحان کے ساتھ اِس کے فوائد پر بھی ریسرچ اور تحقیقی رپورٹس میں تیزی آرہی ہے۔ 2022ء کے ایک عالمی سروے کے مطابق 80فی صد زیرِ تجربہ رضا کاروں نے بتایا کہ اُنھیں فاسٹنگ کے عمل سے ایسا لگنے لگا ہے کہ اب جسم، کم بھوک محسوس کرتا ہے۔
ان سروے رپورٹس میں فاسٹنگ کو ذیابطیس میں بھی بہت مفید پایا گیا اور اِس سے فاسٹنگ گلوکوز لیول میں 4اعشاریہ 6فی صد کمی دیکھی گئی، جب کہ انسولین Resistance میں بھی کمی نوٹ کی گئی۔ بلڈ شوگر کنٹرول کرنے کے علاوہ فاسٹنگ امراضِ قلب، وزن میں کمی اور بعض موذی امراض کی روک تھام میں بھی مددگار ثابت ہوئی۔ حتیٰ کہ اِس سے بڑھاپے کو روکنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
ایک اور سروے سے معلوم ہوا کہ فاسٹنگ سے نیند میں بہت بہتری آجاتی ہے۔ اِس سلسلے میں 12شعبوں کی ایک اسٹڈی میں شامل 23فی صد رضا کاروں نے بتایا کہ اُنہیں پہلے سے بہت بہتر نیند آنے لگی ہے۔ ذیابطیس کے مریضوں کو اس سے یہ فائدہ ہوا کہ اُن کا وزن کم ہوگیا، جس سے فربہی سے پیدا ہونے والے مسائل کم ہوگئے۔ امریکی جریدے کے مطابق 2019ء میں انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ کے ضمن میں خوراک اور غذا، گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی اصطلاح تھی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنی صحت اور غذا سے متعلق کس قدر آگاہی رکھتے ہیں یا آگاہی کے خواہش مند ہیں۔
اگرچہ بعدازاں اس کی جگہ Keto Diet کی اصطلاح نے لے لی، تاہم پھر بھی فاسٹنگ کی سرچ آنے والے برسوں میں ٹاپ ٹرینڈ رہی۔ گوگل کی 2022ءکی رپورٹ کے مطابق دنیا میں امریکا فاسٹنگ کی پوسٹس کے ضمن میں سرِفہرست رہا۔ اس کے بعد چلّی، آسٹریلیا، برطانیہ اور آئرلینڈ کا نمبر تھا۔ اِس ریسرچ کا ایک دل چسپ پہلو یہ بھی ہے کہ تنزانیہ اور جنوبی افریقا کے لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے بھی اِس موضوع میں گہری دل چسپی کا اظہار کیا۔سروے سے یہ بھی پتا چلا کہ اِس موضوع پر ریسرچ کرنے والوں کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہی۔
بعض اوقات اِس میں دل چسپی سو فی صد تک بڑھی،تو چند ماہ بعد 25فی صد کمی واقع ہوگئی۔ فاسٹنگ میں دل چسپی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس موضوع پر درجنوں موبائل فون ایپس وجود میں آچُکی ہیں، جن سے یہ موضوع یا عمل تقریباً ہر پڑھے لکھے شخص کی پہنچ میں آگیا۔ مارکیٹ واچ کی ایک ریسرچ کے مطابق آنے والے برسوں میں اس میں دل چسپی مزید بڑھ جائے گی اور مرد و خواتین اپنے جسمانی و ذہنی مسائل کے حل کے لیے ادویہ کی بجائے فاسٹنگ پر انحصار کرتے دِکھائی دیں گے۔ اِس وقت بھی زیرو فاسٹنگ ٹریکر، Fastient اور فاسٹ ہیبٹ نامی ایپس عوام کی رہنمائی کر رہی ہیں۔ اِن ایپس نے اپنے صارفین کے ذریعے کئی تحقیقاتی رپورٹس بھی مرتّب کی ہیں۔ ایک ایسی ریسرچ بھی کی گئی، جس میں 2کروڑ، 60لاکھ افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق فاسٹنگ کے سب سے زیادہ حوصلہ افزا نتائج وزن کی کمی کے حوالے سے دیکھنے میں آئے۔ برسوں قبل چوہوں پر کیے گئے تجربات سے ثابت ہوا کہ اگر اُنھیں کم کیلوریز والی خوراک دی جائے، تو اُن کی عُمر میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اب انسانوں پر کیے گئے تجربات بھی حوصلہ افزا ثابت ہوئے ہیں اور معلوم ہوا ہے کہ فاسٹنگ سے جسم کے میٹا بولزم پر مثبت اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔نیز، بلڈ شوگر، بلڈ پریشر اور کولیسٹرول پر کنٹرول کے ضمن میں تو یہ عمل خاصا مفید ثابت ہوا۔قصّہ مختصر، جُوں جُوں تحقیقی عمل آگے بڑھ رہا ہے، فاسٹنگ سے وابستہ کئی سربستہ راز بھی عیاں ہوتے جا رہے ہیں۔
معروف عالمِ دین، مولانا مجیب الرحمٰن نے فاسٹنگ پر مذہبی نقطۂ نظر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور کوئی دوسرا نظام اِس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔آج سائنس دان فاسٹنگ یا محدود فاقہ کشی سے متعلق جو تحقیقات سامنے لا رہے ہیں، ہمارے پیارے نبیﷺ نے تو صدیوں پہلے ہی اِس کی افادیت سے دنیا کو آگاہ فرما دیا تھا۔ آپﷺ نے زندگی گزارنے کے جو رہنما اصول و ضوابط وضع کیے تھے، وہ رہتی دنیا تک کے لیے ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہمیشہ کچھ بھوک باقی رہے، تو کھانے سے ہاتھ روک لو اور یہ کہ کم کھانے میں راحت ہے۔ اِسی طرح تین سانس میں بیٹھ کر پانی پینے، کھانا آہستہ آہستہ، خُوب چبا کر کھانے، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے،چھوٹے چھوٹے لقمے بنانے، بہت گرم کھانا نہ کھانے اور نہ ہی اُسے ٹھنڈا کرنے کے لیے پھونکیں مارنے جیسی ہدایات دی ہیں، جو اب سائنس کی کسوٹی پر بھی انسانی صحت کے لیے مفید ثابت ہو رہی ہیں۔
اِسی طرح روزوں کو ذہنی و جسمانی صحت کے لیے نہایت فائدہ مند قرار دیا گیا ہے۔ بہرحال، سائنسی تحقیقات کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اگر ہم غذا اور خوراک کا معاملے میں اسلامی تعلیمات پر عمل کریں، تو جانے ہمیں کتنے ایسے فوائد حاصل ہوں، جن کے اسرار و رموز تک سائنس ک پہنچنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔‘‘