کثرت استعمال کے سبب بعض الفاظ ،جملوں اور اصطلاحات کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے ۔مثال کے طور پر قیام پاکستان کے بعد ہر نسل کے لوگوں نے یہ بات ضرور سنی ہوگی کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے مگر سچ یہ ہے کہ دورِحاضر میں وطن عزیز کوواقعی نہایت مخدوش حالات کا سامنا ہے۔ایک طرف مذہب کے نام لیوادہشتگرد قتل و غارت گری کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کے علیحدگی پسند وں کی تخریب کاری کا سلسلہ عروج پر ہے ۔ستم بالائے ستم یہ کہ مشرق و مغرب میںپاکستان کے خلاف برسرعمل عناصر کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں ۔ایک طرف افغانستان طالبان کی سہولت کاری کے ذریعے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے درپے ہے تو دوسری طرف بھارت کی طرف پاکستان کے اندر گھس کر جہاد کشمیر سے منسلک شخصیات کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ان حالات میں یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ خاکم بدہن کیا بلوچستان کی شورش کا نتیجہ بھی وہی نکلے گا جو 54برس قبل مشرقی پاکستان میں ہمارا مقدر بنا تھا؟
اگرچہ بلوچستان اور مشرقی پاکستان کے حالات میں محرومیوں اور گلوں شکووں کے لحاظ سے کسی حد تک مطابقت ضرور ہے مگر خاطر جمع رکھئے اس بار کسی سقوط کا قطعاً کوئی امکان نہیں ۔یہاں زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں۔پہلی بات تو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کی ہی اکثریت تھی مگر بلوچستان میں صرف بلوچ آباد نہیں ۔یہاں بلوچوں کے علاوہ پشتون اور دیگر قومیتوں کے لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔بلوچوں میں سے بھی خفا ہونے کے باوجود سب لوگ علیحدگی کی اس پرتشدد تحریک کا حصہ نہیں ہیں بلکہ بیشتر افراد کا خیال ہے کہ بم دھماکوں اور دہشتگردی کی وارداتوں کے ذریعے کالعدم بلوچ لبریشن آرمی ان کی پر امن جدوجہد کو نقصان پہنچا رہی ہے اوریوں منزل دور ہوتی جارہی ہے ۔ کچھ دن پہلے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفرازبگٹی نے کہاکہ پنجابی اچھے مقتول ہیں ،جو انہیں قتل کرتا ہے ،یہ اس کی عزت کرتے ہیں۔چند برس قبل جب سردار ثنااللہ زہری وزیراعلیٰ تھے تو کوئٹہ میں ملاقات کے دوران یہی بات انہوں نے مجھے کہی تھی۔یہ کسی ایک شخص کی رائے نہیں بلکہ بیشتر بلوچ سرداروں کا اتفاق ہے کہ جس طرح کی آزادی انہیں پاکستان میں میسر ہے ،بلوچ اس طرح کے حقوق کا ایران میں تصور بھی نہیں کر سکتے۔ایک اور بڑا فرق جغرافیہ کا ہے ۔اگر آپ بنگلہ دیش کا نقشہ اُٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان بھارت حائل تھا۔زمینی راستہ نہیں تھا،فضائی سفر کے دوران بھی بھارتی حدود سے گزر نا پڑتا تھا جب بھارتی طیارہ ’’گنگا‘‘اغوا ہونے کے بعد فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عائد کردی گئی تو صورتحال مزید گھمبیر ہوگئی ۔مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان فاصلوں کے سبب تازہ دم فوجی دستے ،اسلحہ اور دیگر ساز وسامان پہنچانا آسان نہ تھا ۔مگر یہاں بلوچستان میںصورتحال یکسر مختلف ہے ۔اس لئےکوئی بھی لشکر یا فوج ریاست کو شکست دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ میں بھارت نے مرکزی کردار اداکیا۔مکتی باہنی کی ٹریننگ ،مالی امداد اور اسلحہ ہی نہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر بھارتی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئی کیونکہ سرحدیں ملتی تھیں ،باغی ہوجانے والے بنگالی بھارت جاکر پناہ لیا کرتے تھے اس لئے مداخلت کا جواز میسر آگیا۔مگر یہاں بلوچستان میں درپردہ علیحدگی پسندوں کی مدد کرنے کے باوجود بھارت کو کھلے عام مداخلت کرنے کا کوئی بہانہ دستیاب نہیں اور دونوں ملکوں کے ایٹمی طاقت ہونے کے باعث اس بات کا بھی کوئی امکان نہیں کہ کسی موقع پر بھارت اپنی فوج سامنے لے آئے اور حملہ کردے ۔لہٰذا میری دانست میں اس بات کا دور دور تک کوئی امکان نہیں کہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدہ کرنے کی کوشش کامیاب ہوسکے ۔
تاہم ان باتوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بلوچستان میں لگی اس آگ کو بجھانے کی کوشش نہ کی جائے ۔جعفر ایکسپریس کو ہائی جیک کئے جانے کے باوجود ایک بار پھر یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ بلوچوں کی دادرسی کی جائے اور اس معاملے کا سیاسی حل تلاش کیا جائے ۔میں ہمیشہ بلوچوں کیلئے آواز اُٹھاتا رہا ہوں ۔لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کے مسئلے کا اجاگر کیا ،بلوچوں کے حقوق کی بات کی مگر میرے خیال میں فی الوقت سیاسی حال اور گفت و شنید کی بات کرنا عبث ہے ۔اختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک جیسے لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں ۔آپ سیاسی حل کی بات کرتے ہیں مگر پہاڑوں پر بیٹھے دہشتگرد کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں۔ویسے بھی اس موقع پر سیاسی حل اور بات چیت کی پیشکش کر نے کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ ریاست نے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں۔جب کوئی مریض انتہائی تشویشناک حالت میں لایا جاتا ہے تو پہلے اسے ایمرجنسی منتقل کیا جاتا ہے ،اس کا آپریشن کرکے زندگی بچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور جب اس کی حالت سنبھل جاتی ہے تو پھرمتعلقہ وارڈ منتقل کرکے لاحق امراض کا علاج شروع کیا جاتا ہے ۔بلوچستان سے متعلق بھی یہی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔پہلے ایک بھرپور فوجی آپریشن کے ذریعے ان دہشتگردوں کو ختم کیا جائے ،مذاکرات کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا جائے اور جب اس فوجی کارروائی کی بدولت مہلت ملے تو پھر سیاسی عمل کے ذریعے ثمرات سمیٹنے کی کوشش کی جائے ۔بعض افراد یہ اعتراض کرینگے کہ اس سے پہلے بھی کئی آپریشن ہوچکے ہیں ،آخر اس جاں بلب مریض کو کتنی بار سرجری کا سامنا کرنا ہوگا؟ مسئلہ یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی کسی آپریشن کے نتیجے میں حالات بہتر ہوئے تو حکومتوں نے دیرپا علاج شروع کرنے کے بجائے یہ سمجھ لیا کہ اب سب امراض ختم ہوگئے ہیں ۔یوں کچھ عرصہ بعد صورتحال پھر سے خراب ہوجاتی ہے ۔آپریشن تب ہی مفید ثابت ہوگا جب اس سے ملنے والی مہلت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوگوں کے گلے شکوے دور کرنے کی کوشش کی جائے گی ،بلوچوں کے حقیقی نمائندے اسمبلی میں آئیں گے ،کرپشن ختم ہوگی اور ترقی و خوشحالی کے سفر کا آغاز ہوگا۔