جب بھی کوئٹہ سے کوئی اچھی یا بری خبر آتی ہے تو ملتانی کو گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں بطور لیکچرار اپنا قیام یاد آ جاتا ہے۔ مئی 1971 میں سریاب روڈ کوئٹہ کے کالج میں پہلے دن یہ دیکھ کے دنگ رہ گیا کہ ریل گاڑی کالج کی چاردیواری کے اندر سے گزر رہی ہے ۔پستے اور بادام کے درخت وہاں پہلی مرتبہ دیکھے، ایک درخت کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ عبدالصمد اچکزئی کے صاحب زادے محمد خان اچکزئی یہاں کبھی کبھار اپنا گھوڑا باندھتے ہیں وہ معاشیات پڑھاتے ہیں تب خیال آیا کہ معاشیات کی تعلیم نے انہیں بتایا ہوگا کہ خاندانی کار سے گھڑ سواری سستی پڑتی ہے ۔ یہی نہیں اسی کالج کے کچھ شاگردوں اور رفقا کی مدد سے تعلیم و تربیت کے نئے باب کھلے ۔فیلڈ مارشل کے زمانے میں وادی کے پہاڑوں پر بم باری کا پتہ چلا، قرآن کو گواہ بنا کر ایک بوڑھے بلوچ سردار کو نیچے لاکر پھانسی دے دی گئی (شاید یہی بات یادداشت میں رہی کہ ایک روزنامے میں کئی برس بعد کالم لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا تو وعدہ خلافی ' عنوان رکھا )۔
کوئٹہ تب بہت صاف ستھرا شہر تھا کتب خانے ، چائے خانے اور غیر ملکی اشیاء کی فروخت کے بازار تھے ،وہاں ساڑھے چار سو روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے لیکچراروں کی جیب پر بوجھ نہیں پڑتا تھا ۔ چمن زاروں میں گھرے کیفے بلدیہ کا کھانا اور چائے ۔ پھر جنرل یحییٰ کی پسندیدہ دکان لال کباب کی زیارت کی اور پھردسمبر 1971 آیا تو بہت کچھ ڈوبتا محسوس ہوا پھر سچ مچ ایک نئے امید بھرےدور کا آغاز ہوا۔ کیفے بلدیہ سے متصل باغ میں میگافون ہاتھ میں لے کے وزیر اعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل کو پہلی تقریر کرتے دیکھا اور سنا کہ’ شرمندہ ہوں کہ وزیر اعلیٰ بن گیا ہوں، تم لوگوں کے مسئلے کوئی سردار حل نہیں کر سکتااپنے جیسے کسی کو ووٹ دینا سیکھو ‘ان کی کابینہ میں وزیر تعلیم ایک شاعر گل خان نصیر تھا جس نے فیض کا کلام بلوچی میں ترجمہ کیا تھا ، ایک اور شاعر عطا شاد سیکرٹری اطلاعات تھا ۔ گورنر غوث بخش بزنجو تھے جو اسی گورنمنٹ کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر کرار حسین کو کراچی سے لے آئے اور بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا ۔ وہاں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے غصیلے طالب علموں کو کرار حسین اور خلیل صدیقی کے سامنے موم ہوتے دیکھا جب ایم اے کے ایک باریش طالب واجہ عبدالخالق کو چھیڑتا تو وہ کہتا 'واللہ کرار حسین اور خلیل صدیقی کا دل بلوچ ہے '۔
وہاں بے حد خلیق زمرد حسین بھٹہ کی کتابوں کی دکان اور اشاعت گھر تھا ' قلات پبلشرز ' جنہیں نیشنل عوامی پارٹی نے 73 کے آئین کے تحت قائم ہونے والی سینیٹ کا رکن بنایا تب شاید سینیٹ کے اراکین کیلئے اسلام آباد میں ایک ایک پلاٹ کی الاٹمنٹ منظور کی گئی مگر زمرد حسین بھی ان اراکین میں سے تھے جنہوں نے جرات انکار کا مظاہرہ کیا ۔یونیورسٹی کے کئی شعبوں میں بڑے بڑے استاد آئے کرار صاحب ان سے کہتے تھے کہ میری یونیورسٹی غریب یونیورسٹی ہے اسسٹنٹ پروفیسر کا گریڈ (چھ سو روپے ) سے زیادہ نہیں دے سکتا۔ امریکہ ، برطانیہ میں خوب کما لیا ہے ، یہاں آئو خدمت کرو! '
کیا کیا بات یاد کی جائے ۔خلیل صدیقی کو پاکستان اسٹڈیز سنٹر کا ڈائریکٹر بنایا گیا تو وہ عبداللہ جمال دینی کو لائے جن کا’’ لٹ خانہ‘‘مشہور ہوا(تحصیل داری چھوڑو ، کاغذ پنسل کی 'دکان کھولو )۔انہی کی محبت میں شاہ محمد مری نے پاکستان کی تمام زبانوں کا ماہنامہ سنگت نکالا اور عشاق کے تیس سے زیادہ قافلے کتب کی صورت میں روانہ کئے ۔ مگر جب یہاں کبوتروں پر چاند ماری ہوئی، انگریزی کا پرانا ہمارا ساتھی فضل باری قتل ہوا ، خواتین یونیورسٹی کی بس پر خود کش حملہ کیا اور پھر وہ ٹرین اغوا ہوئی جس کے لئے پٹڑی گورنمنٹ کالج کوئٹہ اور بلوچستان سے گزرتی ہے ، تب کوئٹہ کے ایک خوش نوا محسن شکیل سے ملاقات ہوئی اسی نے بتایا کیفے بلدیہ بند ہو گیا ہے جس میں بیٹھنے والے مصور حنیف رامے نے ایک لڑکی (شاہین) کی تصویر بنائی تھی جو کالج میں پڑھتی تھی (بعد میں شاہین رامے ہوئیں )۔
محسن شکیل سے کہا یار دل بہت اداس ہے کوئی شعر سنائو اس نے کہا ؎
چراغ جلتے رہیں گے ہوا، بغور یہ سن
ہنر پہ تجھ کو ابھی دست گاہ تھوڑی ہے ؟