• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کا صفحہ: کسی تاریخی دستاویز سے کم نہیں ...

السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

فراخ دلانہ پیش کش

مَیں نے ایک معتبر کتاب میں ایک تاریخی واقعہ پڑھا تھا اور اُسے ہی افسانےکا رنگ دے کر آپ کو ارسال کیا۔ رہی میری نظم، تو وہ متعدّد شعراء کی خدمت میں پیش کی اوراُنہوں نے متفّقہ طور پر اُسے معیاری اور قابلِ اشاعت قراردیا۔ نیز، میری ہَنس بیتیاں بھی مُلک کے نام وَر شہرۂ آفاق رسائل و جرائد میں شائع ہوچُکی ہیں اور بےشمار قارئین نےانُہیں بہترین قراردیا ہے۔ 

ذیل میں چند مُلکی وغیرمُلکی مزاح نگاروں، مزاحیہ کرداروں اور حاضر جواب شخصیات کی ہَنس بیتیاں ارسال کر رہا ہوں، آپ میری بین الاقوامی معیار کی شاہ کار، قہقہہ بار ہَنس بیتیوں سے اُن کا موازنہ کرکے دیکھ لیں۔ ویسے مَیں آپ کو ایک بارپھرپوری فراخ دلی سے پیش کش کررہا ہوں کہ میری ’’ہَنس بیتیوں‘‘ پرنظرِثانی فرما کے انہیں جلد ازجلد شائع کردیں۔ (چوہدری قمر عباس علی پوری، ملتان)

ج: اور ہم آپ سے دست بستہ انتہائی عاجزانہ درخواست کررہے ہیں کہ خدارا ! آپ اپنی بین الاقوامی معیار کی یہ شاہ کار، قہقہہ بار’’ہنس بیتیاں‘‘ شہرہ آفاق رسائل و جرائد ہی کو بھیجتے رہیں کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ جیسا لوکل، عام سا جریدہ اُن کے بے کراں حُسنِ ظرافت، شوخی و لطافت کی تاب ہی نہیں لاسکتا۔

پیغام شامل نہ ہوسکا

ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی دو ہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ دونوں جرائد میں سالِ گزشتہ کا بھرپور جائزہ لیا گیا۔ پہلا سرِورق نئے سال کی مناسبت سے تھا اور ہرسال کے پہلے شمارے کی طرح اُس میں آپ کا ’’حرفِ آغاز‘‘ بےمثال تھا۔ اُمتِ مسلمہ سے متعلق نعیم کھوکھر کے تجزیے کا بھی جواب نہ تھا۔

بلاشبہ مسلّح افواج سنگین اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نبرد آزما رہیں۔ عدلیہ کے لیے 2024ء انقلاب کاسال ثابت ہوا۔ خارزارِسیاست اور صوبوں کا حال احوال گزشتہ سالوں ہی سا تھا۔ سال 2024ءکی بہترین چٹھی میں آپ نے ناچیزکا بھی ذکر فرمایا۔ 

میری باتیں رونق افروز برقی کے دل میں اُترگئیں، اِس محبت کا شکریہ۔ بنیادی حقوق کی پامالی، صنفی امتیاز کےاستحصال کے باوجود خواتین کمربستہ رہیں۔ ہر طرف انتخابات کا شور رہا، حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ کئی تخت الٹے، ہول ناک جنگیں بھی جاری رہیں، تو حصولِ معاش کے لیے ترکِ وطن کی دوڑ بھی لگی رہی۔ ’’جوہم میں نہ رہے‘‘، تصاویر دیکھ کر دل افسردہ ہوگیا اور ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کی پہلی قسط میں ناچیزکا پیغام شامل نہ ہوسکا۔ خیر، کوئی بات نہیں۔ (پرنس افضل شاہین، نادر شاہ بازار، بہاول نگر)

ج: اُمید ہے، آپ کا پیغام ہماری دوسری اشاعت میں ضرورجگہ بنانے میں کام یاب ہوگیا ہوگا کہ اب تو ہم خال ہی کوئی پیغام رد یا مسترد کرتے ہیں۔

بہترین خراجِ عقیدت

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں لعابِ مصطفیٰ ﷺ کی برکات و خصوصیات پر کھتری عصمت علی پٹیل نے شان دار مضمون تیار کیا۔ ’’اشاعتِ خصوصی‘‘ میں محمد عارف قریشی نے قائدِ اعظم سے متعلق مختلف لوگوں کی یاداشتیں شیئر کیں، عمدہ تحریر تھی۔ حافظ بلال بشیر بھی معلوماتی مضامین کےساتھ آرہے ہیں، عبدالستار ترین کی ’’رپورٹ‘‘ میں بلوچستان کے مسائل اجاگر کیے گئے۔ 

منور مرزا حسبِ سابق ایک بہترین تجزیاتی مضمون کے ساتھ آئے۔ ’’خود نوشت‘‘ تواب ایک مقبولِ عام سلسلہ بن چُکا ہے۔’’پیارا گھر‘‘ڈاکٹر عزیزہ انجم کے مضامین سے سج سا جاتا ہے۔ پیرزادہ شریف الحسن عثمانی اس بار منفرد سے افسانےکے ساتھ آئے، اچھا لگا، عارف چانڈیو کا ’’افسانچہ‘‘ بھی اپنے اندر خاصی گہرائی لیے ہوئے تھا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘سے ہم دونوں (مَیں اور بے کار ملک) ہی غائب کردیئے گئے۔ اگلے شمارے کے حالات و واقعات میں منورمرزا شان دار تجزیاتی تحریر کے ساتھ موجود تھے۔ 

’’لازم وملزم‘‘ میں ڈاکٹر قمر عباس نے کیا ہی خُوب صُورت یادیں تازہ کیں۔ طارق عزیز اور نیلام گھر …سارا ماضی آنکھوں کے سامنے آگیا۔ فرخ شہزاد ملک بلوچستان کے ریلوے سیکشنز کی اہمیت اجاگر کر رہے تھے۔ کوئٹہ سے فرخ شہزاد اور وحید زہیر بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ ذوالفقارچیمہ کی ’’خود نوشت‘‘ پڑھ کے تو طبیعت فریش ہوجاتی ہے۔ 

ڈاکٹر سمیحہ راحیل نے اپنےآغا جی (قاضی حسین احمد) کو کیا ہی بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا۔ اللہ سب والدین کوایسی بیٹیاں عطا فرمائے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ میں بینش صدیقہ نے اپنے بظاہر سخت گیر استاد کو عمدگی سے یاد کیا۔ ڈائجسٹ میں نصرت یوسف نے سبق آموزافسانہ رقم کیا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ہمارا خط شامل کرنے اور ہم سےمعذرت کرنے کا بےحد شکریہ۔ (سیّد زاہد علی شاہ، شاہ فیصل کالونی، کراچی)

ج: ہر مرتبہ آپ کے 5۔5 صفحات کےدو خطوط کا مکسچر بمشکل چند سطروں کی صُورت ہی شائع ہوپاتا ہے اور ایک عرصے سے یہی پریکٹس جاری ہے۔ ہر بار ایڈٹ کرتے یہی خیال آتا ہے کہ شاید اگلا خط آپ خُود ہی جامع اور مختصر لکھ ڈالیں کہ نہ آپ کی محنت ضائع ہو، نہ ہمارا وقت۔ مگر سلام ہے، آپ کی مستقل مزاجی، ہٹ دھرمی کو کہ ذرا جو کبھی اندازِ تحریر میں کوئی تبدیلی، رفتارمیں کمی آئی ہو۔

بیٹے کے نام پیغام میں غلطی

سالِ نو ایڈیشن (حصّہ اول) اس مرتبہ صرف 16 صفحات کی صُورت ملا۔ ویسے تو یہ ظلم ہے، لیکن کیا کریں، آپ کی بھی مجبوری ہے۔ ’’حرفِ آغاز‘‘ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی میگزین کی جان تھا۔ نیز، آپ نے’’آپ کا صفحہ‘‘ میں سال 2024ء کی بہترین چٹھی کے انتخاب پر بھی کافی محنت کی۔ 

منور راجپوت ’’کلکس‘‘ کی صورت پورے سال کا منظرنامہ سامنے لے آئے۔ مضامین بھی سارے پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر سال نو ایڈیشن کا دوسرا حصّہ پڑھنے کو ملا۔ گزشتہ سے پیوستہ تمام ہی مضامین عُمدہ بلکہ ایک سے بڑھ کرایک رہے۔ ڈاکٹر ناظر محمود نے ’’اِن اینڈ آؤٹ‘‘ بہت ہی اچھے انداز سے پیش کیا۔ ’’جو ہم میں نہ رہے‘‘ محمد ہمایوں ظفر شان دار انداز سے مرتب کرتے ہیں۔ 

منور راجپوت کے تبصرے اچھے رہے۔ ’’ایک پیغام، پیاروں کے نام‘‘ کا بھی جواب نہ تھا، خصوصاً محصورینِ پاکستان کے نام پیغام بہت پسند آیا ۔ ہاں مگر، وہ جو ہونہار بیٹے کے لیے ایک پیغام شایع ہوا، اُس میں ایک غلطی تھی کہ وہ میسیج واجد علی شاہین نے بحیثیت باپ دیا تھا، جب کہ چوتھی سطر میں لکھا گیا کہ ’’اُمید کرتی ہوں‘‘ تو یہ ’’کرتی‘‘ کہاں سے آگیا؟ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: آپ نے ہمیشہ کی طرح درست نشان دہی کی۔’’کرتی ہوں‘‘ کےبجائے’’کرتا ہوں‘‘ لکھا جانا چاہیے تھا اور یہ یقیناً پروف کی غلطی ہے، بہرحال، ہم اِس کوتاہی پر معذرت خواہ ہیں۔

پڑھنے پر مجبور کردیا

نئے سال کا دوسرا شمارہ سامنے ہے۔ کلرآف دی ایئر Mocha Mousse (خاکی رنگ) سے متعلق بہت کچھ بتایا گیا۔ ہم تواِس رنگ کو تقریباً روز ہی دیکھتے ہیں کہ یہ پوسٹ مین کی وردی کا بھی رنگ ہے۔ ؎ جب بھی آتا ہے وہ میرے دھیان میں …پھول رکھ جاتا ہے، روشن دان میں …تتلیاں کمرے کےاندر آگئیں …ایک پھول ایسا بھی تھا، گُل دان میں۔ ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ میں کلر آف دی ایئر خُوب صُورت اشعار کی لڑی میں بھی پرویا گیا، تولُطف دوبالا ہوگیا۔ 

گزشتہ شمارے کی طرح اس شمارے میں بھی مختلف شعبہ جات کے سالِ رفتہ کا جائزہ لیا گیا، خصوصاً رؤف ظفرکا’’خواتین‘‘ فرخ شہزاد ملک کا ’’نسلِ نو‘‘اور محمّد ہمایوں ظفر کا ’’جو ہم میں نہ رہے‘‘ سیرحاصل رہے۔ واقعتاً زندگی دھوپ چھاؤں ہی کی مانند ہے، تو ہمیں اِس دھوپ چھاؤں سے بےزاری کی بجائےخالق کاشُکرگزارہونا چاہیے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ ہمیشہ کی طرح خوب دل چسپی و دل جمعی سے پڑھا۔ 

شاہدہ ناصرکوسالِ نو کی پہلی بہترین چٹھی پرمبارک باد، قرات نقوی کے مختصر سے برقی خط نے حکیم ابوالقاسم طوسی پر مضمون پڑھنے پر مجبور کردیا، لہٰذا پرانا شمارہ نکالا اور پورا مضمون پڑھ ڈالا۔ آخر میں یہی کہیں گے کہ نئے سال پر کم ازکم اتنا تو کیجے کہ جواچھی باتیں ہماری فون گیلری اور اسٹیٹس پرموجود ہیں،  وہ ہمارےکردار میں بھی نظر آنی چاہئیں۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)

ج: تو کیا آپ سنڈے میگزین کے مستقل قاری نہیں؟ یا پھر اپنے چند پسندیدہ سلسلوں کے مطالعے ہی تک محدود رہنا پسند کرتے ہیں۔

جاگتے رہنا، جاگتے رہنا…

سال کے اختتام پر میگزین کے پہلے صفحے پر سال بھر کی خبریں،  تصاویر کی زبانی دیکھ کر بہت اچھا لگا۔ اگلے صفحات پر سال بھر کے دنیا جہاں کےحالات وواقعات بہت دل کش انداز میں پڑھ کر مزید خوشی ہوئی۔ کیا آپ لوگ سال بھر کے واقعات نوٹ کرتے رہتے ہیں اور پھر سال کےاختتام پر اُنھیں قارئین کے لیے مجتمع کر ڈالتے ہیں۔ مطلب ایک چوکیدار کا کردار ادا کرتے ہیں کہ ’’جاگتے رہنا، جاگتے رہنا…‘‘ فلسطین کے مظلوم عوام پر ظلم وجبر کی انتہا ہوگئی ہے، اِس ضمن میں آپ لوگوں کی کاوشیں اچھی رہیں، اللہ جزائے خیر عطا کرے۔

اعزاز سید کا تجزیہ بعنوان ’’جو راہبرانِ قوم ہیں، راستے میں گم ہوگئے‘‘ اور نعیم کھوکھر کا ’’خونِ مسلم اور عالمی برادری کی بےحسی‘‘ بہت عُمدگی سے لکھے گئے۔ طلعت عمران ’’افواجِ پاکستان‘‘ کے کارہائے نمایاں پر روشنی ڈال رہے تھے اور اویس یوسف زئی پھر عدالت میں لے کے کوئی ترازو آئے۔ بلال غوری نے بھی درست کہا، جانے کب اہلِ سیاست کو سیاست آئے گی اور آخر میں سال بھر کےخطوط کا جائزہ نہایت محنت طلب کام تھا، جس پر آپ خراجِ تحسین کی مستحق ہیں۔ (شمائلہ نیاز، دائرہ دین پناہ، کوٹ ادّو، ضلع مظفّر گڑھ)

ج : ویسے ہمیں آج تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ یہ چوکیدار ’’جاگتے رہنا، جاگتے رہنا‘‘ کی آوازیں کیوں لگاتے ہیں، اگر لوگوں نے خُود ہی جاگ کر اپنے لیے حفاظتی تدابیر کرنی ہیں، تو پھر چوکیدار کا کیا فائدہ؟؟ اور ہم یقیناً ایسے چوکیدار نہیں، اِس لیے آپ بےشک سالِ رفتہ کی طرح سالِ رواں بھی سوتی ہی رہیے گا۔

کسی تاریخی دستاویز سے کم نہیں

سنڈےمیگزین کےسالِ نوایڈیشنز میں شائع ہونے والی تحریریں بلاشبہ کسی دستاویز، تاریخی اثاثے سے کم نہیں۔ لگ بھگ تمام ہی لکھاریوں نے بڑی خُوب صُورتی سے تمام حالات و واقعات قلم بند کیے۔ ہر تحریر اپنی جگہ لاجواب، بےمثال تھی۔ میری طرف سے بھی ایک تحریر حاضرِ خدمت ہے۔ (بابر سلیم خان، سلامت پورہ، لاہور)

ج: قابلِ اشاعت ہوئی تو ضرور جگہ بنا لے گی۔

              فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

حسبِ ضرورت اس ہفتے بھی میگزین کا آغاز بِنا ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کیا گیا، جب کہ صفحہ نمبر2 پر ایک اشتہار قابض تھا۔ اگلے صفحے پر ایک باریش بزرگ، پُرنورچہرے کے ساتھ نمایاں تھے، جناب منیر احمد خلیلی۔ انہوں نے یہودیوں کی تخریب کاری اور بنی اسرائیل کی تاریخ، جامع اور سلیس انداز میں ایسے پیش کی کہ سیدھی دل ہی میں اُتر گئی۔ 16؍ دسمبر کی اہمیت اور وجوہ پر میگزین میں کوئی تحریر شامل نہ ہو، ممکن ہی نہیں کہ یہ وہی تاریخ ہے، جب مُلک کا ایک بازو الگ کردیا گیا۔ یہ تاریخ ہر سال آتی ہے اور ایک الم ناک سانحے کی یاد تازہ کرجاتی ہے۔ 

حافظ بلال اپنے علم اور معلومات سےصحیح کام لے رہے ہیں۔ عربی زبان کے حوالےسے ایک اہم او دل چسپ تحریر نذرِ قارئین کی۔ عربی اور اُردو کا بڑا پرانا اور گہرا رشتہ ہے کہ جو حروفِ ابجد عربی زبان کے ہیں، لگ بھگ وہی اردو کے بھی ہیں اور اِسی سبب اُردو پڑھنے لکھنے والے کو قرآن شریف کی تلاوت میں زیادہ دشواری پیش نہیں آتی اور یہ قدرت ہی کی خاص مہربانی ہے۔ ’’امریکا یاترا‘‘ کو خلافِ توقع صرف دو اقساط میں سمیٹ دیا گیا۔ 

ویسے دونوں ہی اقساط دل چسپی سے بھرپور تھیں۔ دوسرا سیاحت نامہ اپنے ہی وطن کے سرد ترین علاقے ’’بابو سرٹاپ‘‘ سے متعلق تھا، پڑھ کر سردی کا احساس دو چند ہوگیا۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ اور ’’متفرق‘‘ سلسلے یک جا کرکے دیگر مستقل سلسلے ایسے گول کیے گئے کہ اُن کی کمی کا احساس بھی نہیں ہوا۔ پیارا گھر، ناقابلِ فراموش، کچھ توجّہ اِدھر بھی سب غائب تھے، مگر پھر بھی تشنگی محسوس نہ ہوئی، تو یہ یقیناً ایک اچھی ایڈیٹر ہی کا کمال ہے۔ 

یاد رہے، سال 2023ء کی آخری مسندی چٹھی کا اعزاز ہم جیسے طفلِ مکتب کو بخشا گیا تھا۔ تب فیصلہ تو یہی کیا تھا کہ اب مسلسل حاضری دی جائے گی، تاکہ راجاؤں، شہزادوں کو کچھ آرام ملے۔ لیکن لاکھ کوشش کے باوجود ایسا ممکن نہ ہوا۔ بقول فیض ؎ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبّت کے سوا۔ کچھ گھر اور گھر سے وابستہ معاملات، سونے پہ سہاگا ہماری ناتجربہ کار، کشکول زدہ، یس سر(غلام) حکومت نے پوری قوم کو بیٹھے بٹھائے ذہنی مریض بنا کے رکھ دیا ہے۔

آپ کی طرح، ہم بھی سارا سال گورکھ دھندوں ہی میں پھنسے رہے، جانےکہاں گئے وہ دن…بہرکیف، میگزین پوری پابندی اوردل چسپی سے ہرہفتے پڑھا گیا۔ سال بھر کے تمام ترعالمی ایام، خواہ مدرز ڈے ہو یا فادرزڈے، یومِ خواتین ہو یا عالمی یومِ اطفال، یومِ مزدورہو، یا رمضان المبارک اور عیدین کے مواقع، ہر عالمی و قومی دن کا پورے تُزک و احتشام سےاہتمام، آپ ہی کا خاصّہ ہے۔

سچ تو یہ ہے یہ کہ اِسی شان دار جریدے کی خوبی یاخاصیت ہے کہ اِس کا ہرایک صفحہ، سلسلہ قارئین کی پوری توجّہ حاصل کرتا ہے۔ اتنےکم صفحات کےمیں بھی اِس قدر عرق ریزی کا مظاہرہ شاید ہی کہیں ہوتا ہو۔ سالِ رفتہ کئی منفرد سلسلے بھی نگاہ سے گزرے، جیسا کہ فارسی کے سات عظیم شعراء کی سوانح، پھر حافظ محمّد ثانی نے کئی شان دار نگارشات رقم کیں، تو ڈاکٹر قمرعباس اور طلعت عمران کی واپسی سے بھی دلی خوشی حاصل ہوئی، البتہ شفق رفیع کی کمی محسوس ہوتی رہی۔ (چاچا چھکن، گلشنِ اقبال، کراچی)

ج: صفحات کی تعداد میں کمی تو زیادہ عرق ریزی کی طرف مائل کرتی ہے کہ اب تو وہ عالم ہے کہ ؎ اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ… جس دیے میں جان ہوگی، وہ دیا رہ جائے گا۔

گوشہ برقی خطوط

* شمارہ موصول ہوا، سوچا، چلو صُبح صُبح گھر کے پچھواڑے بیٹھ کے پڑھتی ہوں، لیکن باہر تو بہت ٹھنڈ ہو رہی تھی۔ میرا پسندیدہ موسم چھایا ہوا ہے۔ کبھی کبھی بہت دل کرتا ہے کہ یہاں کے سحر انگیز موسمِ خزاں پہ کچھ لکھوں۔ خیر،اسٹائل بزم پر پہنچی اورتحریر کے ایک ایک لفظ سےخُوب لُطف اُٹھایا۔ ہائے ہائے، کیا کیا باتیں کرجاتی ہیں آپ۔ قسم سے تین بار تحریر پڑھی، پھربھی دل نہیں بھرا۔ ’’گھروں میں فریق نہیں، رفیق بن کے رہیں‘‘ بھی کیا خُوب صُورت تحریر تھی۔ 

قاضی جمشید ہمیں مٹکے کا پانی پینے کی ہدایت کررہے ہیں، تو بھئی، اب ہم یہاں ٹیکساس میں مٹکا کہاں ڈھونڈتے پھریں۔ ’’ڈائجسٹ‘‘ میں ’’مُٹھی میں دل‘‘ پڑھ کے تو جیسے میرا دل بھی کسی نے مُٹھی میں لے لیا۔ حسن عباسی ایک کے بعد ایک شان دار تحریرلےکے آرہے ہیں۔ ویسےحافظ شیرازی کے دیوان سے فال نکالنے والی بات پڑھ کے حیرت ہوئی۔ اپنی ای میل اور جواباً آپ کی دُعا پڑھ کے آنکھیں ہی بَھر آئیں۔ اللہ پاک آپ کو بھی سدا خوش رکھے۔ (قرات نقوی، ٹیکساس، امریکا)

* ویسے تو میگزین میرا بہت پسندیدہ اور ہر دل عزیز بھی ہے، لیکن پتا نہیں، مجھے کیوں لگتا ہے کہ بعض ناموں کے پیچھے کوئی ایک ہی فرد ہے، جو محض لوگوں کی تضحیک اور کچھ ایڈوانٹیج حاصل کرنے کے لیے مختلف ناموں سے خطوط، ای میلز بھیجتا ہے۔ جیسا کہ میرے خیال میں محمد سلیم راجا، امِ حبیبہ اور نازلی فیصل ایک ہی فرد کے مختلف نام ہیں۔ باقی سب ٹھیک ہے او ر ’’آپ کا صفحہ‘‘تومجھےبہت ہی پسند ہے۔ (دینا)

ج: آپ یقیناً کسی شدید غلط فہمی کا شکار ہوگئی ہیں۔ آپ یہ بات کسی اور سے متعلق کہتیں تو شاید مان بھی لی جاتی۔ محمّد سلیم راجا اور نازلی فیصل ہمارے باقاعدہ خطوط نگار ہیں۔ اور اُن کی تحریروں میں ہمیں کم ہی کسی کی تضحیک کا پہلو دکھائی دیا۔ البتہ خُود آپ کا نام ہمیں کچھ فرضی سا معلوم ہورہا ہے۔

* جریدہ بہترین ہے، ہر ایک نگارش معلومات میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔ میرے خیال تو میں آپ لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ (شائستہ عابد، لاہور)

قارئینِ کرام کے نام !

ہمارے ہر صفحے، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazine@janggroup.com.pk