• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

جب دو سال کے وقفے سے میرے والد اور والدہ کا انتقال ہوا تو، مجھےاِرد گرد پھیلا، درختوں کی چھاؤں میں گِھرا جنگل جلتا ہوا سا محسوس ہونے لگا۔ تنہائی کا دُکھ رگ و پے میں سرایت کرنے لگا، حدّت کے ایسے کوڑے پڑے کہ بلبلا اٹھا۔ ایسے میں میرے مربّی، بڑے بھائی فضل امام کا ساتھ تپتی دھوپ میں گھنے سائے کی مانند ٹھہرا۔ جنہوں نے بڑی اپنائیت اور پیار سے والدین کی کمی بہت حد تک پوری کی، جس کے بعد محسوس ہونے لگا کہ ایک بار پھر درختوں کی چھاؤں سایہ فگن ہوگئی ہے۔

سقوطِ ڈھاکاسے چند ماہ قبل میرے والد نے حالات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے مجھے تعلیم کے لیے کراچی بھیج دیا۔ یہاں پہنچنے کے دو ماہ بعد ہی میرے بھائی، جو ڈھاکا میں ایک بینک میں ملازم تھے، مجھ سے ملنے آگئے۔ اسی دوران سقوطِ ڈھاکا کے نتیجے میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا اور بھائی واپس نہ جاسکے۔ بعدازاں، اسی بینک نے کراچی میں انہیں ملازمت دے دی۔ اس دوران مَیں نے پڑھائی جاری رکھی۔ میری تعلیم اور دوسرے تمام اخراجات میرے بھائی ہی کے ذمّے تھے، وہ اپنی تن خواہ کے تمام پیسے مجھے لاکر دے دیتے اور جب انہیں ضرورت ہوتی، تو پوچھتے کہ کچھ پیسے ہیں؟ جب کہ انہوں نے مجھ سے یہ کبھی نہیں پوچھا کہ پیسے کب اور کہاں خرچ ہوئے۔ 

مَیں نے کئی بار کوشش کی کہ کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرلوں، لیکن انہوں نے سختی سے مخالفت کی اور اپنی تمام توجّہ پڑھائی پر مرکوز رکھنے کی ہدایت کی۔ ہمارے والدین سابقہ مشرقی پاکستان میں محصور تھے، سقوطِ ڈھاکا کے بعد انتہائی کٹھن حالات سے گزر کر اور بہت سی تکلیفیں جھیل کر تین سال بعد پاکستان پہنچے اور بھائی اور والد پھر سے تنکا تنکا جوڑنے کی تگ و دو میں لگ گئے۔

وقت گزرتا رہا، میری تعلیم مکمل ہوئی اور مجھے بھی بینک میں نوکری مل گئی، پھر آسودگی کا وقت بھی آیا، جس کا سہرا بھائی اور والد ہی کے سَر تھا۔ بھائی کا تبادلہ ابوظبی ہوگیا اور مَیں کولمبیا چلا گیا، لیکن والدین کی تنہائی کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہم دونوں بھائی جلد ہی وطن واپس آگئے۔ 

بھائی نے کراچی میں ایک مکان خرید لیا، تو ہم والدین اور اپنی اپنی فیملی کے ساتھ اسی مکان میں رہنے لگے۔ بھائی اور بھابی نے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ یہ اُن کا مکان ہے۔ خوش قسمتی سے ہماری بیگمات کے تعلقات بھی بہت اچھے تھے، اس لیے مَیں نے بھی کبھی نہیں سوچا کہ میرا الگ مکان ہونا چاہیے۔ پاکستان آنے کے بعد ہم تیرہ سال ایک ساتھ رہے، پھر بھائی نے بتایا کہ بہتر مستقبل کے لیے ان کے بچّے امریکا جانا چاہتے ہیں۔ 

میرے لیے یہ خوشی کی بات ضرور تھی، لیکن ان کی اور بھتیجوں کی جدائی تکلیف دہ تھی۔ انہوں نے ایک بار بھی نہیں کہا کہ میرا گھر چھوڑ کر اپنا ٹھکانہ کرلو۔ اس دوران مجھے خیال آیا کہ اپنا مکان بنالینا چاہیے۔ بچّے رفتہ رفتہ بیرونِ ملک جانے لگے، لیکن بھائی نے اُس وقت تک اپنا مکان نہیں بیچا، جب تک کہ میرا مکان تعمیر نہیں ہوگیا اور ہم اُس میں منتقل نہیں ہوگئے۔

اب بھی یہ عالم ہے کہ وہ بچّوں کی طرح میرا خیال رکھتے ہیں، پابندی سے فون پر بات ہوتی ہے، میری ذرا سی تکلیف پر بے چین ہو جاتے ہیں، مَیں ہر سال وہاں جاتا ہوں اور وہ بھی ہر سال پاکستان آتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر ان کی تربیت کا اثر ہے کہ ہمارے بچّے ایک دوسرے کو کبھی کزن نہیں سمجھتے، سگے بھائیوں کی طرح رہتے ہیں اور ہم دونوں بھائیوں کو بھی اُن کی جانب سے باپ کا احترام ملتا ہے۔ میری دُعا ہے کہ اللہ اُنہیں صحت و سلامتی اور اطمینانِ قلب کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے اور اُن کا سایہ تادیر قائم رکھے ۔ (حسن امام، کینیڈا)

ناقابلِ اشاعت نگارشات اور اُن کے تخلیق کار برائے صفحہ ’’ناقابلِ فراموش‘‘

٭میری کہانی (نورجہاں) ٭خالو کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ (ضیاء الحسن، مظفر گڑھ) ٭احساسِ سودو زیاں (روزینہ خورشید، کراچی)٭ آدھی رات کا راز+مَیں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا+بیت المال سے امداد (ظہیر انجم تبسّم ، جی پی او، خوشاب)٭ میری کہانی، میری زبانی (رفعت سلطانہ) ٭پرندے کی قبر (انجینئر محمد فاروق جان، اسلام آباد)٭بنتِ حوّا (محمد جاوید اقبال، وحدت کالونی، لاہور)٭جب طاقتیں مرضی کے تابع ہوگئیں (محمد جاوید افضل علوی، کالج روڈ، لاہور)٭پاک فوج نے بچالیا (جاوید محسن ملک، اسلام آباد)٭ میری کہانی (ف۔ن)٭دس سال پرانی بات(مغیث الحسن بدایونی ہاشمی، ناگن چورنگی، کراچی)٭جاں نثار (ثروت اقبال،کراچی)