امریکا نے گزشتہ دنوں یمن کے حوثی باغیوں پر شدید حملوں کا سلسلہ شروع کیا، جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی احکامات کے تحت کیے گئے۔ اِس ضمن میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بحرِ احمر(ریڈ سی)میں جہازوں پر حملوں کے بعد امریکا نے حوثی باغیوں پر فیصلہ کُن حملے شروع کردیئے ہیں، جس کا فوجی زبان میں مطلب ہوا کہ اُنہیں سرینڈر ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔امریکی صدر نے الزام لگایا کہ یہ گروپ، ایران کی فنڈنگ سے کارروائی کرتا ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ’’حوثی ٹھگوں نے امریکا اور اُس کے اتحادیوں کے جہازوں پر بحرِ احمر میں حملے کیے۔
بحری ڈکیتی، تخریب کاری اور دہشت گردی کی وجہ سے اربوں ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے اور زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں۔‘‘حوثی باغی، غزہ کے محاصرے کے خلاف اور حماس کی حمایت میں یہ کارروائی کر رہے ہیں۔اِس ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ’’حوثی ریڈ سی میں اُس وقت تک حملے جاری رکھیں گے، جب تک اسرائیل، غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کردیتا۔‘‘دوسری طرف، اسرائیل نے بھی ایک بار پھر غزہ پر حملوں کا آغاز کردیا، جس میں سیکڑوں افراد شہید ہوچُکے ہیں۔
حوثیوں کے مطابق اُن کا ہدف وہ جہاز ہیں، جن کا تعلق اسرائیل سے ہے، جب کہ میڈیا کے مطابق دیگر ممالک کے جہاز بھی اُن کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔امریکی فوجی ذرائع کے مطابق وہ حوثی لیڈر شپ کو نشانہ بنانے میں کام یاب رہے، جب کہ متعدّد فوجی اور تیل تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
امریکا نے حوثی باغیوں پر یہ شدید بم باری اُس وقت کی، جب غزہ امن معاہدے کے پہلے مرحلے کا اختتام اور دوسرے فیز کی شروعات ہو رہی تھیں۔امریکا نے الزام لگایا کہ حوثی باغیوں کو ایران کی مدد حاصل ہے اور وہ اُسی کی مالی و عسکری مدد سے بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جب کہ ایران نے امریکی الزامات مکمل طور پر مسترد کردیئے۔
آگے بڑھنے سے پہلے بتاتے چلیں کہ بحرِ احمر کی بین الاقوامی پانیوں یا گزرگاہوں میں کیا اہمیت ہے۔ دنیا کے بیس فی صد کے قریب تجارتی جہاز اِسی ریڈ سی سے گزرتے ہیں۔ ایک زمانے میں یمن کی گزرگاہ، باب المندب بحرِ ہند کی پانچ سب سے اہم اور اسڑیٹیجک گزرگاہوں میں شمار ہوتی تھی، باقی چار ابنائے ملاکا، سنگاپور، خلیجِ فارس اور سوئز کینال تھیں۔ یہ برطانوی راج کا زمانہ تھا اور اِنہی گزرگاہوں کے ذریعے وہ بحرِ ہند کو کنٹرول کرتا تھا۔
پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں یمن کی بے پناہ فوجی اہمیت تھی اور اتحادی فوج کے دستے اکثر اِسی راستے مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے بحرِ روم میں آتے، جاتے۔ اِس کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ کے تیل کی سپلائی کی بھی یہ اہم ترین گزرگاہ مانی جاتی ہے۔ یمن اِس وقت سیاسی تقسیم کا شکار ہے۔ یہ مغربی ایشیا کا مُلک ہے، جو سعودی عرب اور اومان کے ساتھ سرحدیں رکھتا ہے، جب کہ خلیجِ عدن اور ریڈ سی اس کے اہم سمندری راستے ہیں۔یمن کی آبادی ساڑھے تین کروڑ اور صنعا اس کا دارالحکومت ہے۔
اِس مُلک کی اصل وجۂ شہرت اس کی فوجی چھاؤنی اور آبی گزرگاہ، باب المندب ہی رہی ہے۔مسلم دَور کے آغاز میں یمن نے زبردست فوجی اہمیت اختیار کی۔ یہ ایک اہم چھاؤنی تھی، جہاں سے فوجیں مختلف علاقوں، خاص طور پر جنوب مشرقی ایشیا اور افریقا بھیجی جاتی تھیں۔
یمن بھی بیش تر مسلم ممالک کی طرح آزادی کے بعد کسی فعال اور مضبوط ترقّی کا ویژن رکھنے والی لیڈر شپ سے محروم رہا۔ عوام بغیر کسی ویژن کے لڑتے رہتے ہیں اور اسے اپنی آزادی کی جنگ کہتے ہیں۔ نوجوان بندوقوں سے مسائل حل کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکے اور الزامات دوسروں کے سَر تھوپ دیتے ہیں۔ وہاں کے باسی اپنی اسٹریٹیجک اہمیت سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے فرقہ واریت اور آپس کی سیاسی کش مکش کو دشمنیوں میں تبدیل کرنے میں مگن ہیں۔ وہاں اب بھی سِول وار جاری ہے، جس میں اقوامِ متحدہ کے مطابق65 ہزار افراد ہلاک ہوچُکے ہیں۔
جنگ کا آغاز صدر صالح اور حوثی باغیوں کے درمیان ہوا، جو بعدازاں سعودی، ایران تنازعے کا حصّہ بن گئی۔ حوثی باغیوں نے شمالی یمن اور صنعا کے کچھ حصّوں پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ سعودی عرب جیسے خوش حال پڑوسی مُلک سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے اُس سے دشمنی مول لی ہوئی ہے۔چین کی ثالثی میں ہونے والے سعودی، ایران معاہدے کے بعد خیال تھا کہ یہ خانہ جنگی رُک جائے گی اور امن قائم ہوجائے گا، لیکن پھر7اکتوبر کو حماس، اسرائیل جنگ شروع ہوگئی، جس میں حوثیوں نے حماس کا کُھل کر ساتھ دیا۔
اس نے ریڈ سی میں اُن جہازوں پر حملے شروع کردیئے، جو اُس کے مطابق اسرائیل یا اُس کے اتحادیوں سے تعلق رکھتے تھے۔ حوثیوں نے ان جہازوں پر ڈرون اور بلاسٹک میزائل داغے، جب کہ حملوں میں تجارتی اور فوجی جہازوں میں کوئی فرق بھی نہیں رکھا۔ یہ بات بھی کوئی ڈھکی چُھپی نہیں کہ حوثی باغی گروپ، ایران کی اُن ملیشیاز میں سے ایک ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں سرگرم ہیں، جیسے حزب اللہ۔
یہاں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ ایک ایسے وقت میں، جب صدر ٹرمپ دنیا بَھر میں جنگیں بند کروانے کی ڈپلومیسی پر جارحانہ طور پر عمل پیرا ہیں، یہاں تک کہ اِس کے لیے اپنے قریب ترین حلیف یوکرین کے صدر ذیلنسکی کی سرِعام تذلیل سے بھی باز نہیں آئے، غزہ والوں کو دھمکیوں پر دھمکیاں دے رہے ہیں کہ جنگ بند کرو، ایران کے صدر خامنہ ای کو خُود خط لکھ کر مذاکرات کی دعوت دیتے ہیں، تو یمن کے حوثی باغیوں پر اِس قدر شدید حملے کیوں کیے۔
ماہرین کے نزدیک، صدر ٹرمپ اِس سے دومقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔اوّل، وہ ایران کو مزید دباؤ میں لانا چاہتے ہیں تاکہ وہ جلد ازجلد مذاکرات کی میز پر آجائے۔ دوم، ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل کے ہاتھوں حزب اللہ اور حماس کو شدید نقصانات کے بعد اب حوثی باغیوں کی باری ہے۔ شاید نیتن یاہو اور صدر ٹرمپ کی ملاقات میں یہی طے ہوا ہو کہ حوثی باغیوں کو حماس کی حمایت کی سزا دی جائے۔ نیز، ٹرمپ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وہ امریکی فوجی قوّت کا مشرقِ وسطیٰ میں مظاہرہ کریں اور ایران کو بتائیں کہ وہ کہاں تک جاسکتے ہیں۔
ایران نے اس کے جواب میں حملوں کی اعانت سے انکار کیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کہ اگر اُس پر حملہ کیا گیا، تو وہ بھرپور جواب دے گا۔ امریکا ایک سُپر پاور ہے اور اس کے فوجی فلیٹس دنیا بَھر کے سمندروں اور گزرگاہوں کو کُھلے رکھنے کے ذمّے دار ہیں۔ صدر ٹرمپ ان جہاز بردار بیڑوں کی طاقت کی بھی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں۔کیا حوثیوں پر حملوں سے کسی قسم کی علاقائی جنگ کے بھڑکنے کا امکان ہے؟فی الحال تو اِس کا کوئی امکان نہیں۔
ایران کی ساتھی ملیشیاز، حماس اور حزب اللہ اِس قدر کم زور ہوچُکی ہیں کہ اُن کے لیے اپنے علاقوں ہی میں قدم جمانا مشکل ہوگیا ہے، اِسی لیے وہ بیانات سے آگے نہیں بڑھ رہیں۔مصر میں ہونے والی اسلامی وزرائے خارجہ کانفرنس کے اعلامیے میں غزہ میں حماس کا کردار محدود کرنے کی بات کی گئی اور بحالی کے کاموں کی نگرانی بھی مغربی کنارے کی فلسطینی اتھارٹی کو سونپنے کا کہا گیا۔
یوں لگتا ہے، اسرائیل اور امریکا اِس بات پر متفّق ہیں کہ حوثیوں کا فوجی کردار غیر مؤثر کردیا جائے، اُسی طرح جیسے لبنان میں حزب اللہ کو محدود کیا گیا۔اُن کے خیال میں، اِس طرح ایران مزید تنہائی کا شکار ہوگا اور نتیجتاً مذاکرات پر مجبور ہوجائے گا۔
بظاہر، آیت اللہ خامنہ ای نے صدر ٹرمپ کی دعوت یہ کہہ کر مسترد کردی کہ وہ دھونس، دھمکیوں میں مذاکرات نہیں کریں گے، تاہم ایران کے وزیرِ خارجہ نے یورپی ممالک سے نیوکلیئر ڈیل پر مذاکرات کی شروعات کردی ہے۔ اُدھر ٹرمپ کے خط پر غور کے لیے ایران، چین اور روس کے سہ فریقی مذاکرات ہوئے۔امریکی فوجی یورش کے پیشِ نظر اِن تینوں ممالک نے خلیجِ فارس میں چا بہار پورٹ کے نزدیک سمندری مشقیں بھی کیں۔
یاد رہے، چابہار پورٹ بھارت نے تعمیر کی اور وہ بیس سال کے لیے اُسے چلا رہا ہے۔ چابہار کے بالکل متوازی پاکستان کی گوادر پورٹ ہے، جو چین نے تعمیر کی اور وہ اسے چلاتا ہے۔ یہ اب بہت ہی عجیب سی صُورتِ حال ہے۔پھر جو پہلی نیوکلیئر ڈیل ہوئی تھی، جس سے بعدازاں ٹرمپ نے امریکا کو الگ کرلیا تھا، اُس میں فرانس، جرمنی، برطانیہ، روس اور چین شامل تھے، جنہوں نے مل کر ایک معاہدے کے تحت ایران پر پانچ فی صد سے زاید یورینیم افزودگی پر پابندی عاید کی تھی۔
دوسری طرف، روس کے صدر پیوٹن، ٹرمپ کی تعریف پے تعریف کر رہے ہیں اور ٹیلی فون کالز پر گھنٹوں بات چیت کرتے ہیں۔اب ایسی صُورت میں ایران یا حوثی باغیوں کے پاس کتنی اسپیس رہ جاتی ہے، یہ دیکھنا ہوگا، جب کہ یمن کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ ایران کی معیشت بھی شدید دباؤ میں ہے۔نیز، تیل کی تیزی سے گرتی قیمتوں نے مشرقِ وسطیٰ کے تیل پیدا کرنے والے ممالک اور روس کو بہت مشکل میں ڈال دیا ہے۔
حوثی باغی گروپ یمن کا ایک اقلیتی گروہ ہے،لیکن اُن کی عسکری قوّت کا یہ عالم ہے کہ اُنہوں نے ایک طرف منتخب وزیرِ اعظم عبد اللہ صالح کو فرار ہونے پر مجبور کردیا(جو بڑی مشکل سے واپس آئے )اور دوسری طرف، سعودی عرب سے مسلسل پانچ سال تک ایک بے فائدہ جنگ کرتے رہے۔سعودی کمپنی، آرامکو کی تنصیبات پر حملہ اِنہی حوثیوں نے کیا تھا،جس سے دنیا کو تین دن تک تیل کی فراہمی معطّل رہی۔
اِس طرح کے حملوں سے اُن کا امیج ایک شدّت پسند گروپ کے طور پر اُبھرا۔پھر اُنھوں نے اسرائیل کی مخالفت اور حماس کی حمایت کے نام پر بحرِ احمر میں جہازوں پر جو حملے کیے، اُن کا مقصد مشرقِ وسطیٰ، خاص طور پر فلسطینی عوام میں مقبولیت حاصل کرنا تھا۔یہ کوئی انکشاف نہیں کہ ایران ان کی مکمل سپورٹ کرتا ہے، تاہم اِس وقت ایران اِس پوزیشن میں نہیں کہ حوثیوں کے لیے زیادہ کچھ کرسکے۔شام سے روس کے ساتھ پسپائی کے بعد اُس کے لیے مزید کسی محاذ پر لڑنا مشکل ہوگا، خاص طور پر اُس وقت جب اس کی اقتصادی صُورتِ حال بھی دگرگوں ہے۔
ظاہر ہے، ایسے میں امریکا کی خواہش یہی ہے کہ حوثیوں کو حزب اللہ اور حماس کی طرح بے اثر کردے تاکہ جب وہ ایران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھے، تو اس کی پوزیشن مضبوط ہو۔گو، امریکا کا کہنا ہے کہ یہ حملے بحرِ احمر میں محفوظ جہاز رانی ممکن بنانے کے لیے کیے گئے کہ دنیا کا بیس فی صد تجارتی سامان اسی راستے سے گزرتا ہے۔ان میں روس، چین، یورپ، عرب ممالک، جنوبی ایشیائی اور افریقی ممالک شامل ہیں، تو ایسے میں کون سا مُلک چاہے گا کہ اس کی تجارتی گزرگاہ میں میزائل یا ڈرون حملوں کا خطرہ ہو۔یہ کُھلے سمندر میں جہاز رانی کے عالمی حقوق کا معاملہ ہے۔
اب اگر حوثی باغی اِن حملوں کو کسی کاز یا کسی کی حمایت سے جوڑتے ہیں، تو وہ عالمی ہم دردی اور حمایت سے محرم رہے گا، چاہے اُس کے پس منظر میں کتنے ہی اچھے جذبات کیوں نہ کارفرما ہوں۔یہاں پھر وہی بات سامنے آجاتی ہے کہ ٹرمپ ایک تاجر سیاست دان ہیں اور اُنہیں منافعے کا سودا کرنا آتا ہے۔حوثی باغیوں پر حملے کی ٹائمنگ بتا رہی ہے کہ ٹرمپ نے بہت سوچ سمجھ کر حملوں کا سلسلہ شروع کیا، خاص طور پر جب یمن کے پڑوس میں سعودی عرب، یوکرین جنگ بند کروانے میں ثالث کا کردار ادا کر رہا ہے، جس میں ایک فریق امریکا ہے، تو دوسری طرف روس اور یورپ ہیں۔
ہم ایک اور بات کی طرف بھی اشارہ کریں گے۔ ٹرمپ اپنی پہلی ٹرم میں بھی مشرقِ وسطیٰ کے ممالک پر زور دیتے رہے کہ وہ تیل کی قیمتیں کم رکھیں، کیوں کہ اس سے امریکا کو نقصان اور روس کو فائدہ ہوتا ہے۔تاہم، تیل کی قیمتیں کم کرنے سے یہ ممالک بڑی آزمائش میں آجاتے، کیوں کہ اُن کے پاس کمائی کا کوئی متبادل ذریعہ نہیں ہے۔اُن کے لیے اپنا سالانہ بجٹ بنانا مشکل ہوجاتا۔
اِن ممالک نے حالات میں بہتری کے لیے ٹرمپ کی تجویز پر اسرائیل سے تعلقات میں نرمی برتنا شروع کردی۔امریکا نے اعلان کیا تھا کہ وہ اِس علاقے سے جارہا ہے اور اب وہ جنوب مشرقی ایشیا پر فوکس کرے گا، لیکن یہ صرف جزوی سچ تھا۔وہ مغربی ایشیا، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشا میں دل چسپی تو کم لے رہا ہے، تاہم جب تک اُسے تیل کا متبادل حاصل نہیں ہوجاتا، وہ یہاں موجود ہے اور نہ صرف موجود ہے، بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنے مفادات کے لیے فوجی طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرے گا۔