• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں ایران کے رہبرِ اعلیٰ، آیت اللہ خامنہ ای کو براہِ راست خط لکھ کر نیوکلیئر پروگرام پر مذاکرات کی دعوت دی۔ایران اور امریکا کے مابین گزشتہ45 برسوں سے پوری شدّت سے دشمنی جاری ہے، جس نے نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کر رکھا ہے بلکہ پوری دنیا کو غیر محفوظ بھی۔ 

شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی سربراہِ حکومت نے ایران سے معاملات طے کرنے کے لیے اُس کے سپریم لیڈر کو خط لکھا کہ اِس قبل ایسے تمام سفارتی رابطے ایرانی صدر یا سیاسی حکومت ہی سے ہوتے رہے ہیں۔صدر ٹرمپ ایک مختلف شخصیت ہیں اور وہ اِس قسم کے پروٹوکول کا بالکل بھی خیال نہیں کرتے۔

براہِ راست خامنہ ای کو خط لکھنے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ٹرمپ بتانا چاہتے ہیں کہ ایران کی اصل طاقت کس کے پاس ہے اور چوں کہ طاقت کا منبع رہبرِ اعلیٰ کی ذات ہے، تو اِسی لیے خط بھی اُنہیں ہی لکھا گیا ہے، حالاں کہ ایران میں منتخب صدر موجود ہیں، پارلیمان کام کر رہی ہے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ صدر مسعود پزشکیان کی صدارتی انتخابات میں کام یابی کی ایک بڑی وجہ یہی رہی کہ اُنہوں نے اپنی الیکشن مہم کے دَوران بار بار گرتی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے مغربی ممالک اور امریکا سے روابط پر زور دیا۔

اُن دنوں امریکا میں الیکشن کا ماحول تھا اور صدر بائیڈن کے لیے ممکن نہ تھا کہ اسرائیل اور ایران میں براہِ راست حملوں کے بعد کسی قسم کے مذاکرات کی بات کرتے۔ وہ مضبوطی سے اپنے حلیف اسرائیل کے ساتھ کھڑے رہے۔ٹرمپ، ایران کو مشرقِ وسطیٰ میں تمام سازشوں اور گڑ بڑ کی جڑ قرار دیتے رہے ہیں، تو سوال یہ ہے کہ پھر وہ مذاکرات کیوں چاہتے ہیں؟

امریکی صدر ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر، خامنہ ای کو لکھا کہ انہیں توقّع ہے کہ ایران مذاکرات کرے گا، کیوں کہ اسی میں اُس کا فائدہ ہے۔ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر ایران کے ایٹمی پروگرام پر بات چیت کرنا چاہیں گے اور کسی قسم کے نیوکلیئر معاہدے کے خواہاں ہیں، لیکن ساتھ ہی شرط لگائی کہ ایران کو ایٹم بم بنانے کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی، کیوں کہ اُن کے مطابق دنیا ایک اور نیوکلیئر ہتھیار سے لیس مُلک برداشت نہیں کرسکتی۔ایران ہمیشہ اِن اطلاعات کو مسترد کرتا رہا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے۔

اس کے مطابق یہ پروگرام پُرامن ہے اور اِس ضمن میں اُس فتوے کا بھی ذکر کیا جاتا ہے، جس میں رہبرِ اعلیٰ نے ایٹمی ہتھیاروں کو حرام قرار دیا تھا۔ تاہم، بین الاقوامی ایٹمی اتھارٹی ایران کی جانب سے یورینیم افزودگی میں کمی سے مطمئن نہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق، ایران ایٹم بنانے کے بہت قریب ہے اور آئے روز اُس کے میزائلوں کے تجربات سامنے آتے رہتے ہیں، جنہیں بہت مشتہر بھی کیا جاتا ہے۔صدر ٹرمپ نے اپنے خط میں ایرانی عوام کی تعریف کرتے ہوئے اُنہیں’’عظیم ایرانی‘‘ عوام کہا۔

اُنھوں نے اپنے خط میں اِس خواہش کا بھی اظہار کیا کہ ایرانی عوام امن سے رہیں اور ترقّی کریں۔ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے خط کے جواب میں کہا کہ’’ ایران دھونس، دھمکیوں میں مذاکرات نہیں کر سکتا۔‘‘ پہلے ذکر ہوچُکا کہ مسعود پزشکیان امریکا اور مغربی ممالک سے روابط بحال کرنے کے خواہش مند ہیں، جس کی وجہ ایران کی گرتی معیشت ہے۔ ایران کے اِس وقت روس، چین، بھارت اور مسلم دنیا سے تعلقات ہیں۔ تاہم اِس امر میں دو رائے نہیں کہ وہ معاشی طور پر عالمی تنہائی کا شکار ہے اور اپنی مرضی سے تجارت نہیں کر سکتا۔ایران کے وزیرِ خارجہ نے بھی ٹرمپ کے خط پر ردّ ِعمل میں کہا کہ دھمکیوں میں بات چیت ممکن نہیں۔تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ صُورتِ حال جمود کا شکار رہے گی؟

اِس ضمن میں دو امور غور طلب ہیں۔سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی حالیہ صُورتِ حال میں ایران کہاں کھڑا ہے اور اسرائیل سے براہِ راست ٹکراؤ اسے کہاں لے جائے گا۔ دوم، ٹرمپ خود کو امن کے داعی کے طور پر پیش کرنے کے لیے کوشاں ہیں، تو کیا اُن کی اِس خواہش سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ البتہ یہ یاد رہے کہ وہ صرف امریکا کے فائدے یا’’امریکا فرسٹ‘‘ ہی کی بات کرتے ہیں۔

ماضی میں ایران کی نیوکلیئر ڈیل کے محرّک ایران کے صدر حسن روحانی تھے، جو ایران کی کم زور معیشت سے بخوبی واقف تھے، تو مغرب سے معاملات طے کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے، کیوں کہ وہ خود مغربی جامعات سے تعلیم یافتہ تھے۔ جب وہ نیوکلیئر ڈیل شروع کرنے چلے، تو اُنہوں نے اپنی کابینہ میں زیادہ تر ایسے وزراء کا انتخاب کیا، جو مغربی ممالک سے ڈاکٹریٹ کی اسناد کے حامل تھے، اُس موقعے پر یہ کہا جاتا تھا کہ صدر اوباما کی کابینہ میں اتنے وزراء امریکی یونی ورسٹیز کے گریجویٹ نہیں، جتنے روحانی کی کابینہ میں ہیں۔ حسن روحانی نے ایرانی رائے عامّہ ہم وار کی، تو ساتھ ہی سخت گیر عناصر کو بھی رام کیا، پھر امریکا اور یورپ کو ٹیبل پر اعتماد میں لینے میں بھی کام یاب رہے۔

اُنہوں نے صدر اوباما اور اُن کے وزیرِ خارجہ سے ذاتی انڈر اسٹینڈنگ پیدا کر لی۔2015 ء میں یہ نیوکلیئر ڈیل ہوئی، جس میں ایران کے ساتھ امریکا، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل تھے۔ اِسے’’جوائنٹ کمپری ہینسیو پلان آف ایکشن‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں روحانی، امریکا سے چالیس ارب ڈالرز حاصل کرنے میں کام یاب رہے، جو پابندیوں کے باعث وہاں منجمد کر دئیے گئے تھے۔

اس سے ایک تو ایران کو اقتصادی طور پر ریلیف ملا، تو دوسری طرف، دنیا سے تجارتی روابط کے مواقع بھی حاصل ہوئے۔ بدلے میں ایران کو اپنی یورینیم افزودگی پانچ فی صد کی سطح تک گھٹانی پڑی، جو کسی بھی قسم کے نیوکلیئر ہتھیار کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ اِس ڈیل پر تہران میں ساری رات جشن منایا گیا۔ ابھی یہ معاملہ چلا ہی تھا کہ ٹرمپ اقتدار میں آگئے۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ نیوکلیئر ڈیل بدترین معاہدہ ہے، اِسی لیے اُنھوں نے یک طرفہ طور پر یہ معاہدہ ختم کردیا۔ اب ٹرمپ دوسری بار صدارت سنبھالنے کے بعد ایک ایسی نیوکلیئر ڈیل چاہتے ہیں، جو اُن کی مرضی کے مطابق ہو۔

اس میں ایران کو اقتصادی رعایتوں کی تو گنجائش کا اشارہ ہے، لیکن کسی قسم کے فوجی پروگرام کی اجازت نہیں ہوگی، اِسی کو ایران دھمکی کہتا ہے۔ تاہم، اگر ایران کی اندرونی اور مشرقِ وسطیٰ کی صُورتِ حال کا جائزہ لیا جائے، تو وہ پہلے سے بہت کم زور ہے۔ ایران کی معاشی صُورتِ حال تسلّی بخش نہیں اور وہ پابندیوں کی وجہ سے اپنا تیل کُھلے عام نہیں بیچ سکتا۔اپنی مصنوعات زیادہ تر کم قیمت پر اور اسمگلنگ کے ذریعے فروخت پر مجبور ہے۔ دوسری طرف غزہ کی جنگ نے اسے بہت نقصان پہنچایا ہے، جس میں اُس کی حمایت یافتہ ملیشیاز بُری طرح متاثر ہوئیں۔

حماس سے غزہ لینے کے منصوبے بن رہے ہیں، تو حزب اللہ کا لبنان میں فوجی کردار خاصا غیر مؤثر ہوچُکا، تیسری طرف حوثی باغیوں کو امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے حملوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ایران پر سب سے بڑی ضرب یہ لگی کہ شام میں، جو اُس کا سب سے اہم اتحادی تھا، اُس کے حمایت یافتہ بشار الاسد کو شکست ہوئی اور وہ فرار ہو کر روس میں پناہ گزیں ہوگئے۔ایران اور روس دونوں کو شام سے نکلنا پڑا۔ تہران سے اسرائیل کا براہِ راست ٹکراؤ بھی ہوچُکا، جو فوجی لحاظ سے اس کی کم زوریوں کو عیاں کر گیا۔ 

اب ایران کے پاس کون سے پتّے یا آپشنز بچے ہیں۔ نیوکلیئر پرگرام سے وہ خود انکاری ہے، اِسی لیے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے حق میں یہی بہتر ہے کہ وہ مذاکرات کرے۔ دل چسپ بات یہ کہ مشرقِ وسطیٰ کے مُلک اب ثالث کے کردار کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سعودی عرب ایک زمانے میں جارحانہ عرب پالیسی کا لیڈر تھا، مگر اب اس کے ولی عہد، شہزادہ محمّد بن سلمان مختلف ممالک کے درمیان بطور ثالث کردار ادا کر رہے ہیں، جیسے ایران، روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی جا رہی ہے۔

اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوا کہ سعودی عرب اپنی طاقت سے مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔نیز، اُسے اِس امر کا بھی اندازہ ہے کہ متبادل انرجی کے فروغ سے تیل کی کھپت اور استعمال میں کمی کے بعد اپنے بین الاقوامی کردار میں تبدیلی ضروری ہے۔ قبل ازیں، قطر ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔طالبان، حماس، اسرائیل مذاکرات سب اسی کی سرزمین پر ہوئے۔

ایران اِس بات کا بھی بخوبی ادراک رکھتا ہے کہ اِس مرتبہ اور گزشتہ ڈیل میں بہت فرق ہوگا۔ اس کے دونوں اتحادی اور تیل خریدنے والے روس اور چین، ٹرمپ کی عاید کردہ پابندیوں اور ٹیرف کی زَد میں ہیں۔ اُدھر، یورپی ممالک جو ایران سے زمینی قربت کی وجہ سے اُس کے لیے سافٹ کارنر رکھتے تھے، وہ بھی اِن دنوں خاصی مشکل میں ہیں کہ یوکرین تنازع اُن کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔

پہلے جب امریکا، ایران پر ڈیل کے لیے دباؤ ڈالتا، تو یہ ممالک بیچ بچاؤ کروا دیتے تھے، مگر اب اُن کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوگا، کیوں کہ خود اُن کے درمیان امریکی صدر کے رویّے پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ مغرب کے لیے اِس وقت نیٹو بہت اہم ہے، جس کے ایران اور اس کے اتحادی سخت مخالف ہیں۔ یہ سب امور مذاکرات کی میز پر پیچیدگی پیدا کریں گے۔ ایران کے سخت گیر عناصر بھی اِن دنوں دباؤ میں ہیں اور وہ نہیں چاہیں گے کہ پزشکیان جیسے معتدل مزاج صدر کسی ایسی ڈیل میں کام یاب ہوجائیں، جس سے اُن کے بیانیے کو دھچکا لگے اور اُن کا ریاست پر کنٹرول کم زور ہو۔

پھر مذاکرات کی آفر دینے والے ٹرمپ ہیں، جو کسی بھی لمحے خوش اور ناراض ہوسکتے ہیں۔ وہ یہ ضرور دیکھیں گے کہ ایران سے، جو پانچواں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا مُلک ہے، امریکا کو کیا فائدہ ہوگا، کیوں کہ ایرانی تیل کے مارکیٹ میں آنے سے امریکی تیل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔مزید براں، ایران اور سعودی عرب میں چین کی ثالثی میں ایک سفارتی معاہدہ ہوچُکا ہے، تو اب ایران کو کسی بھی ڈیل میں عرب تحفّظات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔

اُدھر اسرائیل بھی موجود ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں امریکی پالیسی کی بنیاد ہے۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکا کے بنیادی مفادات اسرائیل ہی دیکھتا ہے، اِس لیے ٹرمپ نے یوکرین کے صدر کو تو لال جھنڈی دِکھا دی لیکن نیتن یاہو کو گلے لگایا۔ اسرائیل کی امداد بھی بڑھائی اور غزہ کے شہریوں کے انخلا جیسے منصوبے بھی سامنے لائے، جس پر بعدازاں یوٹرن بھی لے لیا۔

یہ تمام باتیں تمام عرب اور اردگرد کی ریاستیں اچھی طرح جانتی ہیں۔اِسی لیے کسی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لیے، تو کسی نے اُس سے قطر کی طرح تجارتی تعلقات رکھے۔ ایران، اسرائیل کا واحد ایسا دشمن ہے، جو اُس سے جنگ میں ملوّث ہے، بظاہر تو یہ بات بہت قابلِ تعریف لگتی ہے، لیکن اگر علاقے کی مکمل سپورٹ نہ ہو اور وہ’’ دیکھو اور انتظار کرو‘‘ کی پالیسی پر گام زن ہو، تو پھر وہی کچھ ہوتا ہے، جو حماس، حزب اللہ، حوثی باغیوں اور ایران کے ساتھ ہو رہا ہے۔قطر میں امریکا کا سب سے بڑا علاقائی فوجی اڈّا ہے اور ٹرمپ جیسے امریکی صدر کی موجودگی میں ایران زیادہ ہاتھ پیر ہلاتا ہے، تو اس کے لیے بہت سی مشکلات تیار ہوں گی۔

پھر ٹرمپ کے براہِ راست سپریم لیڈر کو خط سے واضح ہے کہ اب معاملہ بڑوں کے درمیان ہوگا، جن کے پاس فیصلے کی قوّت ہے۔ ایران میں صدر اور سیاسی حکومت تنقید کا نشانہ بنتے ہیں، لیکن جب خود آیت اللہ خامنہ ای مذاکرات کی قیادت کریں گے، تو پھر تنقید کرنے کی مجال کون کرے گا۔ یہ ضرور ہے کہ ایران کا ردّ ِعمل فی الحال منفی ہے اور اِس کی وجہ اُس کی وہ خاص پوزیشن ہے، جو اس نے مدّتوں سے اختیار کر رکھی ہے۔ اس کے سخت گیر عناصر امریکا اور اسرائیل کے سخت مخالف ہیں۔ لہٰذا، ایک دن یا ایک خط سے یہ اُمید وابستہ کرنا کہ الہٰ دین کے چراغ کی طرح سب کچھ دَم بھر میں بدل جائے گا، لاعلمی کے سِوا کچھ نہیں۔

یہی حال اسرائیل کے انتہا پسندوں کا ہے کہ اُنہیں بھی رام کرنے میں وقت لگے گا، لیکن بہرحال، ٹرمپ نے پہلا قدم تو اُٹھا لیا ہے۔ اکثر ماہرین کا خیال ہے کہ اگر وہ یوکرین میں سیز فائر کروانے میں کامیاب رہے، تو پھر ایران سے نیوکلیئر ڈیل کی بحالی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔