تحریر: نرجس ملک
ماڈلز: خدیجہ، ماہی، ثناء
ملبوسات: فائزہ امجد اسٹوڈیو (ڈی ایچ اے، لاہور)
آرائش: دیوا بیوٹی سیلون
عکّاسی: عرفان نجمی
لے آؤٹ: نوید رشید
وہ کہتے ہیں ناں’’عید تو لڑکیوں بالیوں کی ہوتی ہے یا بچّوں کی‘‘، تو بہت حد تک درست ہی کہتے ہیں۔ ویسے تو ’’عیدین‘‘ کُل اُمّتِ مسلمہ کے خوشی ومسرت سے بھرپور اجتماعی، دینی و ملّی تہوار، مومنوں کے لیے ربِّ کریم کی طرف سے انعاماتِ عظیم ہیں کہ ’’عیدالاضحیٰ‘‘ کی صُورت ملنے والا تحفہ ہمارے باپ حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ اور اُن کے پیارے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کی سنّت کے اتباع میں اصلاحِ نفس تزکیۂ رُوح، ایثار و قربانی اور باہمی اتحاد و یگانگت کا مظہر ہے، تو ’’عیدالفطر‘‘ مالکِ کون و مکاں، ربِ دوجہاں کے اپنے مہینے ’’ماہِ صیام‘‘ کی عبادتوں، ریاضتوں کاشان دارصلہ، محنتانہ، مزدوری یا انعام ہے۔
مطلب ہر وہ شخص، جس نے رمضان کریم کو حقیقی معنوں میں ’’اللہ کے مہینے‘‘ کے طور پر برتا، اِس کے اصل معنی و مفہوم، حقیقی رُوح کو سمجھا۔ اِسے اُسی طور اپنایا، جیسا کہ اِس کا حق تھا۔ کلیتاً نہ سہی، جزوی طور پر ہی اِس کے حقوق و فرائض ادا کرنے کی حتی الامکان سعی کی، جسمانی و روحانی تطہیر، ماہیتِ قلب کا ذریعہ بنایا۔ اِس 30 روزہ ری فریشر کورس سے آئندہ سال بھر کے لیے کوئی درس، سبق حاصل کیا، سالِ رفتہ بلکہ عمرِرفتہ کی برائیاں، بیماریاں، میل کچیل، آلائشیں، کثافتیں دھونے کی حتی المقدور کوشش کی۔
اپنے خالق و مالک کو راضی، خُوش کرنے کے لیے ’’ایامِ معدودات‘‘ کو (گنتی کے چند ایام) سرمایۂ افتخار، اپنی نیک بختی، خوش قسمتی جانا اور بے ریا و بے بہا عبادات و طاعات، محنتوں، ریاضتوں کی صُورت نذرانہ و شُکرانہ ادا کرکے بالآخر نارِ جہنم سے نجات کا پروانہ پایا کہ حدیثِ نبویؐ ہے، ’’رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔‘‘ اور یہ کہ ’’جس نے ایمان کے جذبے اور ثواب کی نیّت سے رمضان کے روزے رکھے، اُس کے پچھلے گناہ (صغیرہ) بخش دیئے جائیں گے اور جس نے رمضان کی راتوں میں ایمان کے جذبے، ثواب کی نیّت سے قیام کیا، اُس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘ اور… رحمان و رحیم رب کے رحم وکرم سے ہر باعمل مسلمان کو یہ اُمید و تمنّا رکھنی چاہیے کہ جس نے کوشش کی، یقیناً اُس نے پا لیا۔
اگر ہم نے ماہِ صیام میں اپنے پالنہار کی بندگی، اُس کی بیش بہا نعمتوں کے شکرانے کے طور پر کچھ زیادہ محنت و مشقّت کی، خُود کو تھوڑا تھکایا، نڈھال کیا، تو وہ عرشِ بریں کا مالک بڑا حیا دار ہے، اُسے تو اپنے بندے کو خالی ہاتھ لوٹاتے حیا آتی ہے، وہ تو ہر آجر کو مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُجرت کی ادائی کی تاکید کرتا ہے، تو خود بھلا ہمیں، ہماری توقعات، اُمیدوں اور اوقات سے بڑھ کرکیوں نہیں نوازے گا۔
ضرور نوازے گا، اور یہ اُس کی نوازش ہی تو ہے کہ ہماری سال بھر کی بداعمالیوں کے باوجود (شاید اِس ایک ماہ کی بدولت ہی) وہ ہمیں بُھولتا نہیں، چھوڑتا نہیں، ہم سےمُنہ نہیں پھیرتا، وگرنہ یہی انسانی تاریخ ربِ کعبہ کے جاہ و جلال، غیض و غٗضب کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔
’’عیدالفطر‘‘ یوں تو ہر اُس مومن کا صلہ، انعام، مزدوری، محنتانہ ہے، جس نے سال بھر کے سردار مہینے کی سرداری کا حق ادا کیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ فی زمانہ اِس تہوار پہ لڑکیوں بالیوں، نوجوانوں اور بچّوں، بالکوں ہی نے قبضہ جما رکھا ہے۔ بڑے بوڑھے اُن میں عیدیاں بانٹنے، اپنی شفقت و محبّت لٹانے پر مامور ہیں، تو والدین، خصوصاً والد، اولاد کی ہر جائز، ناجائز خواہش کی تکمیل، بے جا لاڈ و پیار، نازنخرےاُٹھانے اور مائیں نت نئے کھانوں کی فرمائشیں پوری کرنے ہی میں پورے ہوئے جارہے ہیں۔
وہ عنبریں حسیب عنبر کے ’’عید پر.....‘‘ کے عنوان سے کیا خوب صُورت اشعار ہیں ؎ ’’ہیں دھنک رنگ سی لڑکیاں عید پر..... جیسے اڑتی ہوئی تتلیاں عید پر..... رنگ، خوشیوں، اُمنگوں سے آراستہ..... ہیں منوّر سبھی بستیاں عید پر..... اُس نے بھیجے ہیں، چاہت میں لِپٹے ہوئے..... پُھول، خوشبو، حنا، چوڑیاں عید پر..... باہمی رنجشیں بھول کر آملو..... توڑ ڈالو سبھی بیڑیاں عید پر..... کاش! آجائے وہ، جس کے ہیں منتظر..... میرا دل، بام و دَر، کھڑکیاں عید پر۔‘‘
جب کہ باغ، آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے نوجوان شاعر، سوشل ورکر احمد فرہاد کی ’’عید‘‘ ہی کے عنوان سے ایک اچھوتی سی نظم ہے ؎ ’’اُسے یہ عید مبارک کہ جس کی آنکھوں میں..... کسی وصال کی خوشبو، کسی ملن کی چمک..... اُسے یہ عید مبارک کہ جس کے چہرے پر..... کسی کے قُرب کی حدت، کسی نظر کی لپک..... اُسے یہ عید مبارک کہ جس کے ہاتھوں میں..... کسی کے نام کی منہدی، کسی دُعا کی شفق..... اُسے یہ عید مبارک کہ جس کے آنگن میں..... خوشی کا رقص، تمنّا کا راگ، سُکھ کی للک..... ہمیں نہ دو یہ مبارک، کہ ہم اسیرِ وفا..... ہمیں نہ دو یہ مبارک، کہ ہم قتیلِ انا..... ہمیں نہ دو یہ مبارک، کہ ہم امینِ عزا..... ہمیں نہ دو یہ مبارک، کہ ہم رہینِ جفا..... خوشی سے درد کا صدقہ اتار لیتے ہیں..... یہ دن بھی سوگ مناتے گزار لیتے ہیں۔‘‘
اِسی طرح ساغر صدیقی کی بھی ایک معروف غزل کے اشعار ہیں ؎ ’’چاک دامن کو جو دیکھا تو مِلا عید کا چاند..... اپنی تقدیر کہاں بھول گیا عید کا چاند..... اُن کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے..... اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُبھا عید کا چاند..... دُور ویران بسیرے میں دِیا ہو جیسے..... غم کی دیوار سے دیکھا، تو لگا عید کا چاند..... لے کے حالات کے صحرائوں میں آجاتا ہے..... آج بھی خلد کی رنگین فضا، عید کا چاند..... تلخیاں بڑھ گئیں، جب زیست کے پیمانے میں..... گھول کر درد کے ماروں نے پیا عید کا چاند۔‘‘ تو بھئی، بات یہ ہے کہ غم، خوشی، دُکھ سُکھ، رنج، راحت توجب تک انسان جیتا ہے، اُس کے ساتھ ساتھ ہی لگے ہیں۔
ایک موسم، رُت سدا نہیں رہتی کہ وقت جیسا بھی ہو، بہرحال گزر ہی جاتا ہے۔ مگر، ’’عیدین‘‘ ہمارے وہ تہوار ہیں، جوبھرپورخوشی و مسرت، راحت و شادمانی، تشکّر و امتنان ہی سے معنون ہیں۔ یہ مالک الملک، کائنات کے شہنشاہ کا تحفہ ہیں اور اِن ایّام کو اجتماعی تقاریبِ مسرت بنانا ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی سُنت ہے۔ تو پھر ہم تو یہ دِن جی جان ہی سے منائیں گے۔
ہاں، اپنے تئیں جس حد تک ممکن ہو، کوشش یہی کرنی چاہیے کہ ’’اجتماعیت‘‘ اوّلین ترجیح ہو۔ راحت و فرحت، جشن و اجتماع اور باہمی میل جول کے اس موقعے پر اُن بے کسوں، بے بسوں، بے وسیلوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرنے کی پوری سعی کی جائے کہ جنہوں نے ’’مزدوری‘‘ تو پوری کی، مگر ابھی پوری اجرت کے انتظارمیں نگاہیں آسمان ہی کی طرف اُٹھارکھی ہیں، تو اگر ہم میں سے ہر ایک، ایک ایک کابھی ہاتھ تھام لے، تو بلاشبہ پکڑنے والے ہاتھ، پکڑانے والوں سے کسی طور کم نہ ہوں گے۔
نیز، گھروں، گھرانوں، خاندانوں، اہلِ محلہ میں بھی جو چھوٹی موٹی رنجشیں، خفگیاں، گلے شکوے، جھگڑے، ناراضیاں ہیں، اِس شہزادیٔ بہار (عیدالفطر) کے صدقے سب بھول بھال کے دِلوں کا میل صاف کر لیں۔ سب کو معاف کردیں، سب سے مان جائیں کہ یہی اِس تہوار کا مقصد ومفہوم، غرض وغایت، معنی ومنشا ہے۔ اور… اس تہوارِخاص پراپنےاُن پیاروں کےلیے دُعائے مغفرت کرنا تو ہرگز مت بھولیں کہ جو کل تک آپ کےساتھ تھے، آپ کے دل و دماغ میں بستے تھے۔
خصوصاً اُن پیارے والدین، بزرگوں کو کہ جو آپ کے ذرا سی تاخیر سے گھر لوٹنے پر سخت پریشان ہوجاتے، معمولی تکالیف پرتڑپ اُٹھتے تھے۔ اُن مُخلص و بے غرض ساتھیوں، خیرخواہوں کو بھی کہ جنھوں نےآپ سےہمیشہ غیرمشروط چاہت و الفت برتی (جیسا کہ اِمسال ہمیں اپنی بہت پیاری لکھاری نادیہ نازغوری بے طرح یاد آتی رہی کہ ہر سال وہ عیدالفطر کی آمد سے بھی کوئی دو ماہ قبل ایک خوب صُورت ’’عید آرٹیکل‘‘ لکھ بھیجتی تھی۔
اللہ رب العزت اُس کی شان دار میزبانی فرمائے) بہرکیف، ڈاکٹر شاہدہ حسن کی اس دل پذیر دُعا کے ساتھ کہ ؎ ’’اے مہہِ عیدالفطر! خالقِ ارض و سماوات کی تنویر ہے تُو..... ایک برہان ہے، فیضان ہے، تکبیر ہے تُو.....اور اِک امرِ شہادت کہ وہ ذات..... جو کہ اس عالمِ آب و گِل میں..... قلزمِ عشق کی صُورت ہے رواں..... ہر ہویدا و نہاں سے ہے عیاں..... اے مہہ عید الفطر! بس اُسی قلزمِ رحمت سے مَیں..... کرمِ شاہِ زماں مانگتی ہوں..... ظلمت و دہشت سے بَھری دنیا میں..... دائمی امن و اماں مانگتی ہوں۔‘‘ اِس ’’عید اسپیشل بزم‘‘ کی صُورت یہ چھوٹا سے ’’نذرانۂ تہنیت‘‘ قبول فرمائیں۔ ہماری طرف سے آپ سب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آمدِ عیدالفطر بہت بہت مبارک ہو۔