ابرار ندیم کی ایک خُوب صُورت نظم ہے۔؎’’عید کا دن ہے…اور مَیں اپنے دیس سے کوسوں دُور یہاں…پردیس میں تنہا…ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا سوچ رہا ہوں…عید کا دن ہے…باپ میرے نے…شہر سے آکر اپنے گھر میں عید منانے والے…میرے سب یاروں سے…فرداً فرداً میرے بارے پوچھا ہوگا…اور پھر میرے بارے اُن کی لاعلمی سے…ڈھلتا سورج دیکھ کر اُس نے جانے کیا کیا سوچا ہوگا…مَیں جس لمحے گھر کے سب افراد کی خوشیاں لانے کی اِک آس جگا کر…سینے میں…گھر کے سب افراد کو پیچھے چھوڑ آیا تھا…اُس لمحے کو کوسا ہوگا…اور وہ ممتا ماری جس نے…اپنے خون سے سینچ کے مجھ کو یہاں تک ہے پروان چڑھایا…جس کی گود سے سب کچھ سیکھا…جس نے ہے انسان بنایا…دن بَھر اُس نے میرے بارے اِک اِک لمحہ سوچا ہوگا…شام ڈھلے پھر رات گئے تک…میرا رستہ دیکھا ہوگا…ماں نے میرے نہ آنے پر کب کچھ رات کو کھایا ہوگا…جھوٹی طفل تسلّی دے کر گھر بَھر نے سمجھایا ہوگا…تب بھی اُس کو نیند کہاں کی، چین کہاں پایا ہوگا…عید کا دن ہے…اور مَیں اپنے دیس سے کوسوں دُور یہاں پردیس میں تنہا…ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا سوچ رہا ہوں…بچّوں کو نہلا دھلا کر…اچھے سے کپڑے پہنا کر…بیوی میری اب بھی، میرے آجانے کی دل میں کوئی آس جگا کر…گھر والوں سے نظر بچا کر…باہر کے دروازے کی جانب…چوری چوری تکتی ہوگی…اور میرے نہ آنے پر…اُس کے دل میں کیا کیا خدشے، کیا کیا شک نہ آتے ہوں گے…اُس نے یہ بھی سوچا ہوگا…مَیں پردیس میں جاکر شاید پہلے سے کچھ بدل گیا ہوں…سارے وعدے بھول گیا ہوں…اور مَیں جو اپنے گھر سے سب کی خوشیاں لینے نکلا ہوں…دیس سے کوسوں دُور، یہاں پردیس میں تنہا…ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا…سوچ رہا ہوں…عید کا دن ہے…خالی ہاتھوں کیسے اپنے گھر کو جاؤں…خالی ہاتھوں کیسے اپنے گھر کو جاؤں۔‘‘
اپنے وطن سے دُور، سات سمندر پار، عید پر اپنوں کی یاد میں ایک نوجوان کا یہ نوحہ بظاہر ایک شخص کی داستانِ غم ہے، لیکن درحقیقت یہ اُن تمام افراد کی کہانی ہے، جو اپنے آبائی دیس سے کوسوں دُور عید منا رہے ہیں۔ اِس وقت دنیا بَھر میں ایک کروڑ سے زائد پاکستانی تارکینِ وطن مقیم ہیں۔
بے شک، لاکھوں ایسے بھی ہیں، جو اپنے بیویم بچّوں کے ساتھ مطمئین و آسودہ زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن پھر بھی اپنے والدین اور بزرگوں سے دُور، اُن کے دل اپنے وطن کے لیے دھڑکتے ہیں۔ اُن کے بزرگوں کو کوئی تکلیف پہنچے، تو وہ ہزاروں میل دُور اُس کی کسک اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں۔
جب کہ ایسے افراد بھی لاکھوں میں ہیں، جو اپنے والدین اور بیوی بچّوں کو چھوڑ کر، صرف اُن کی خوشیوں کی خاطر تنہا ہی اجنبی مُلک جا بسے۔ دنیا بَھر میں پھیلے ان ہجرت کرنے والوں پر ایک نگاہ ڈالیں، تو آپ کو اِن پردیسیوں میں نیم خواندہ مزدور، الیکٹریشنز، پلمبرز، مستری، اکاؤنٹنٹس، ڈرائیورز، نرسز، پیرا میڈیکل اسٹاف، انجینئرز، آئی ٹی ایکسپرٹس، ڈاکٹرز اور دیگر بے شمار پیشوں سے وابستہ افراد نظر آئیں گے۔ اِن افراد کو تین واضح حصّوں میں تقسیم کیا جائے، تو ایک حصّہ اُن تارکینِ وطن پر مشتمل ہے، جو برسوں پہلے پاکستان سے ہجرت کر گئے اور اب وہاں اپنے بیوی بچّوں کے ساتھ سکون کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔
دوسرا حصّہ اُن افراد پر مشتمل ہے، جن کے بیوی بچّے پاکستان میں ہیں،جب کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت اور معاشی خوش حالی کے لیے تنِ تنہا زندگی بسر کررہے ہیں اور روزگار کی بھٹّی کا ایندھن بنے ہوئے ہیں۔ تیسرا حصّہ وہ نوجوان ہیں، جو دیارِ غیر میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ان میں ایسے غیر شادی شدہ پاکستانی نوجوان بھی شامل ہیں، جو اپنے وطن میں بے روزگاری، ناانصافی، غیر یقینی سیاسی صُورتِ حال، عدم تحفّظ، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی یا دیگر وجوہ کی بنا پر غیر قانونی طریقوں سے اپنا مُلک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور ایسے غیر قانونی تارکینِ وطن کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔
دیارِ غیر میں رہنے والا کوئی بھی پاکستانی، چاہے اُس نے دوسرے مُلک کی شہریت حاصل کر رکھی ہو اور وہاں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ خوش حال زندگی بسر کررہا ہو یا پھر ایسے شادی شدہ اور غیر شادی شدہ نوجوان، جو وہاں روزگار کے لیے مقیم ہوں یا ایسے طلباء وطالبات جو وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہوں، ان سب کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے اور اپنے وطن سے ہزاروں میل دُور ہونے کے باوجود اپنے وطن کی گلیاں، بازار، کھیت کھلیان، موسم کی رنگینیاں، دوست یار، رشتے دار اور سب سے بڑھ کر اپنا خاندان، اپنے بزرگ، اپنے پیارے اُن کی یادوں کا محور ہوتے ہیں۔
اپنے شعور، لاشعور میں بسنے والی یادیں ہمیشہ اُن کی ہم رکاب رہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب بھی رمضان المبارک، عید الفطر، عید الاضحیٰ یا دیگر تہوار آتے ہیں(جب خاندان کے تمام افراد اکٹھے ہوتے ہیں) تو یہ لمحات دیارِ غیر میں رہنے والوں کے لیے بے حد صبر آزما اور ایک ایسا کڑا امتحان ثابت ہوتے ہیں، جس میں اپنے پیاروں کی یاد اُنہیں ہر لمحہ تڑپاتی ہے۔ اُن کا جسم تو دیارِ غیر میں ہوتا ہے، لیکن رُوح اپنے وطن ہی میں بھٹکتی رہتی ہے۔خصوصاً چھوٹی اور بڑی عیدوں جیسے تہوار، اُن کی یادوں اور تنہائی پر ایک تازیانہ ثابت ہوتے ہیں کہ یہ ایک ایسا فسوں، سحر ہے، جس سے وہ کبھی نکل نہیں پاتے۔
ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اب عیدین جیسے تہوار اپنوں، پیاروں سے دُور منانے والوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اگر آپ اِس المیے کو اعداد و شمار کی روشنی میں پرکھیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹّو کے دَور سے بیرونِ مُلک روزی روٹی یا روزگار کے چکر میں باہر جانے کا جو رجحان شروع ہوا تھا، وہ 2024-25ء میں عروج پر پہنچ چُکا ہے۔ سروے رپورٹس کے مطابق آج ہر تیسرا نوجوان مُلک سے باہر جانا چاہتا ہے اور جس کو جیسے موقع ملتا ہے، وہ قانونی یا غیر قانونی طور پر مُلک سے باہر نکل ہی جاتا ہے۔
جب کہ 2023, 2022ء اور 2024ء میں پیشہ وَر، ہنر مند نوجوان اور مزدوروں کی ایک ریکارڈ تعداد نے اپنا مُلک چھوڑ دیا۔ پاکستان دنیا کے اُن 10ممالک میں شامل ہے، جس کے تارکینِ وطن کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور اب اِس کا شمار ایسے پانچ خطرناک ممالک میں ہونے لگا ہے، جہاں سے سب سے زیادہ تعداد میں تارکینِ وطن غیر قانونی طریقے اختیار کر کے دیگر ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔ اِس وقت عرب امارات میں 16لاکھ، سعودی عرب میں 20لاکھ، کویت میں ایک لاکھ 39ہزار، اومان میں ڈھائی لاکھ، برطانیہ میں 16لاکھ، بحرین میں ایک لاکھ 17ہزار پاکستانی رہتے ہیں۔
اس کے علاوہ یورپ، امریکا، ملائیشیا، آذربائیجان اور بہت سے افریقی ممالک میں بھی پاکستانیوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ باہر جانے والوں کی تعداد میں تشویش ناک اضافہ گزشتہ چند سالوں میں دیکھنے میں آیا، جب مسلسل کئی برسوں سے ہر سال اوسطاً 10لاکھ سے زائد ہنرمند، غیر ہنرمند اور دیگر پیشہ وَر افراد باہر چلے گئے۔ 2015ء کے بعد صرف ایک سال میں 8لاکھ سے زائد افراد بیرونِ مُلک منتقل ہوئے۔ اِس نوعیت کا اضافہ پہلی بار دیکھنے میں آرہا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء کے بعد پاکستان سے باہر جانے والوں کی تعداد میں 86فی صد اضافہ ہوا۔ اپنے والدین اور بیوی بچّوں کے تہواروں کو چار چاند لگانے کی تمنّا میں باہر جانے والے نوجوانوں کے اِس معاملے کا ایک الم ناک، بلکہ ہول ناک پہلو غیر قانونی طریقوں سے ایران، یونان، مصر، اٹلی کے راستے یورپ وغیرہ جانے کا جنون ہے، جس میں اب تک ہزاروں نوجوان اپنے سہانے خوابوں سمیت خونی سمندری لہروں کا شکار بن چُکے ہیں۔مچھلیوں یا شارکس کی خوراک بننے والے ان نوجوانوں کی تعداد کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں کہ یہ سب کام خفیہ طور پر ہوتا ہے، لیکن آئے روز کشتیوں پر سوار پاکستانی نوجوانوں کے ڈوبنے کی دِل خراش خبریں دل دہلا دیتی ہیں۔
چند ماہ قبل یونان کے ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتی سے متعلق تحقیقات کرنے والی ایک سرکاری ایجینسی کے تفتیشی افسر نے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ’’ایک نوجوان کی لاش کی منتظر والدہ نے اُسے بتایا کہ کس طرح اُس کا بیٹا اُسے خوشیوں اور دولت سے مالا مال کرنے کا وعدہ کرکے باہرر وانہ ہوا تھا، لیکن اُس کے یہ خواب سمندر نگل گیا۔‘‘ اِس تفتیشی افسر کے مطابق 2023ء کے پہلے6 ماہ میں 13ہزار پاکستانی غیر قانونی طریقوں سے ایران، یونان، اٹلی اور لیبیا وغیرہ کے راستوں سے یورپ کے لیے روانہ ہوئے، جن میں سے 10ہزار کا سراغ نہیں مل رہا۔
کئی نوجوان موت کی وادیوں کا سفر کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر یورپ پہنچ بھی جاتے ہیں اور یہی دوسرے نوجوانوں کے باہر جانے کا محرّک بھی ثابت ہوتے ہیں۔ نسبتاً اچھے گھر میں مقیم ایک خاتون نے ایک رپورٹر کو بتایا کہ اس کا شوہر چند سال قبل ڈنکی لگا کر(غیر قانونی طریقے سے) اٹلی پہنچا تھا۔
اب وہ باقاعدگی سے خاص طور پر عیدین پر اضافی رقم بھیجتا ہے اور کسی آنے جانے والے کے ہاتھ عید پر بچّوں کے کپڑے بھی بھیجتا ہے، لیکن اس کے باوجود یہ خاتون غم زدہ تھی۔ مرجھائے چہرے کے ساتھ اُس کا کہنا تھا کہ’’عید کپڑوں سے نہیں، اپنوں سے ہوتی ہے۔‘‘ غیر قانونی طریقوں سے جانے والوں کی زندگی کا سفر اکثر اوقات راستے ہی میں ختم ہو جاتا ہے اور والدین کو اُن کی قبر کا نشان بھی نہیں ملتا اور وہ عید پر اُن کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔
اپنوں سے دُور عید کے روز تنہائی کے کرب ناک لمحات گزارنے والوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرونِ مُلک جانے والے پاکستانی طلبہ کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان میں اکثر طلبہ اپنے خرچ پر، جب کہ کئی یونی ورسٹیز کی طرف سے ملنے والے وظائف اور اسکالر شپس وغیرہ پر دیگر ممالک کا رُخ کرتے ہیں۔
اِس امر میں شک نہیں کہ اُنہیں بظاہر کوئی پریشانی نہیں ہوتی، وہ موبائل فون وغیرہ کے ذریعے 24گھنٹے پاکستان میں اپنوں سے رابطے میں رہتے ہیں کہ اب وہ دَور نہیں رہا، جب بیرونِ مُلک مقیم کوئی نوجوان ہفتے میں صرف ایک بار محلّے کے کسی گھر میں لگے لینڈ لائن فون پر اپنے اہلِ خانہ سے چند منٹ بات کر پاتا تھا، لیکن اس کے باوجود، عیدین جیسے تہوار اُن کے لیے تنہائی کا احساس دِلانے کا باعث بنتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں ڈیڑھ سے دو لاکھ پاکستانی طلبہ مختلف شعبوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہر سال تقریباً 10 ہزار طلبہ امریکا، برطانیہ ، کینیڈا، جرمنی، عرب امارات، ملائیشیا، تُرکیہ، چین اور دیگر ممالک کا رُخ کرتے ہیں اور فضائی کرایہ زیادہ ہونے کے باعث اُن کی اکثریت عیدین پر اپنے وطن آنے سے قاصر رہتی ہے، چناں چہ اُن کی عیدیں اکیلے ہی گزرتی ہیں اور اِسی تنہائی میں اُنہیں وہ یادیں رُلاتی ہیں، جب ماں کے ہاتھ کی بنی سوّیاں کھانے کو ملتی تھیں اور اس کے ساتھ عیدی وصول کرنے میں جو مزہ آتا تھا، وہ اب صرف ایک یاد بن کر رہ گیا ہے۔ گو کہ ویڈیو کالز نے تنہائی کے اِس کرب میں کسی حد تک کمی کر دی ہے، لیکن رابطہ ٹوٹتے ہی پِھر سے تنہائی کا آہنی حصار اُنہیں اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
’’عیدین پر پردیسیوں کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے،‘‘ میر احتشام الحق ایڈووکیٹ
پاکستان میں کئی دہائیوں سے امیگریشن کے امور سرانجام دینے اور اِس سے قبل لندن میں تارکینِ وطن کے قانونی مسائل میں مشاورت فراہم کرنے والے، میر احتشام الحق ایڈووکیٹ کا اِس ضمن میں کہنا ہے کہ’’میری زندگی کا بیش تر حصّہ برمنگھم میں گزرا، تو مَیں تارکینِ وطن کے دُکھ درد کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔میرا زیادہ تر واسطہ ایسے افراد سے پڑا، جو برطانیہ میں تنہا زندگی گزار رہے تھے۔
ان میں زیادہ تر طلبہ اور روزگار کے سلسلے میں آئے ہنر مند نوجوان تھے۔ وہ ہر سال وطن جانے کی سکت بھی نہیں رکھتے تھے۔ یوں تو اُنھیں ہر لمحہ وطن کی یاد ستاتی، لیکن عیدین پر اُن کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی، کیوں کہ ان تہواروں پر خاندان کے لوگ اکٹھے ہوتے اور گروپ فوٹو میں سب موجود ہوتے، سوائے اُن کے۔ پھر خاندان کے افراد فون پر بار بار کہتے کہ صرف ان کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ ایسے میں اُن کا بھی دل چاہتا کہ اے کاش! اُنہیں پَر لگ جائیں اور وہ اُڑ کر اپنے گھر پہنچ جائیں۔
لیکن پھر یک لخت خوابوں اور خیالوں کی دنیا سے نکل کر خُود کو ایک چھوٹے سے کمرے میں قید پاتے۔ دوست یار لاکھ تسلّی دلاسے دیتے، لیکن اندر کی اداسی دُور نہ ہوتی۔اور ایسے شادی شدہ افراد، جن کے بیوی بچّے پاکستان میں ہیں، وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ گلوبل ویلیج نے اگرچہ فاصلے کم کر دئیے ہیں، لیکن پھر بھی سات سمندر پار کا احساس انہیں بے چین کیے رکھتا ہے۔‘‘ 2020ءکے اعداد و شمار کے مطابق اِس وقت پوری دنیا میں30 کروڑ افراد اپنا وطن چھوڑ کر روزگار کے لیے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔
یہ تعداد پوری دنیا کی آبادی کا تین اعشاریہ چھے فی صد ہے۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ5 دہائیوں میں تارکینِ وطن کی تعداد میں کئی گُنا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں کثیر تعداد ایسے افراد کی ہے، جو اپنے بیوی بچّوں سمیت دیارِ غیر میں آباد ہیں، لیکن ایسے افراد کی تعداد بھی کروڑوں میں ہے، جو بیوی بچّوں سے دُور بستے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ کے مطابق، تارکینِ وطن کی کثیر تعداد برطانیہ، امریکا، عرب امارات، جرمنی، سعودی عرب، روس اور فرانس میں آباد ہے۔ احتشام الحق کے مطابق،’’ہر مُلک اور ہر قوم کے تہوار اپنی روایات اور خوشیوں کے الگ الگ انداز لیے ہوتے ہیں۔