• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ کالم کے ذریعے شعبہ تعلیم میں سرگرم عمل فلاحی اداروں کے ساتھ مالی تعاون کی درخواست پر ایک دوست نے نہایت اہم معاملے کی طرف توجہ مبذول کروائی کہ ہماری تمام تر توانائیاں اور وسائل روایتی تعلیم پر خرچ ہورہے ہیں جس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے لہٰذا فنی تعلیمی اداروں کے ذریعے ہنر مند افراد تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔اور یہ بات بالکل درست ہے ۔گزشتہ چند دہائیوں کے دوران نجی و سرکاری اور فلاحی اداروں کی تمام تر توجہ اس بات پر مرکوز رہی کہ بچوں کو اسکول کا راستہ دکھایا جائے اور تعلیم سے متعلق ترغیب کا بنیادی نکتہ یہ رہا کہ نوجوان نسل پڑھے گی تو آگے بڑھے گی ۔اس پالیسی کے نتیجے میں ایک تو اس مغالطے نے جنم لیا کہ بچے ڈگریاں لیکر کالج اور یونیورسٹی سے نکلیں گے تو ملازمتوں کی برسات ہوجائے گی اور دوسری طرف ہم نے ڈگری ہولڈرز کی ایسی کھیپ تیارکرلی جن کے پاس نہ تو کسی قسم کی کوئی قابلیت و مہارت ہے اور نہ ہی وہ نوکری کے علاوہ کچھ کرنے کے قابل ہیں ۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ جب گریجویشن یا ماسٹرز کرنے کے بعد کلرک یا کانسٹیبل کی نوکری بھی نہیں ملتی تو یہ نوجوان مایوسی و نااُمیدی کا چلتا پھرتا اشتہار بن جاتے ہیں ۔

گ

کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا کہ بی اے اور ایم اے کی ڈگری لینے والے طالب علم کے پاس مستقبل میں آگے بڑھنے کے کیا امکانات ہیں ؟اور اگر آپ انہیں نکما اور کند ذہن سمجھتے ہیں تو بی ایس ،بی ایس سی ،ایم ایس یا ایم ایس سی کرنے والے طلبہ و طالبات کیا کریں گے؟کوئی معمولی نوعیت کی ملازمت یا پھر ایسے ہی بیکار نوجوان کی نئی کھیپ تیار کرنے کے لئے معلم بن جائیں گے۔حتیٰ کہ ایم بی اے ،ماس کمیونیکیشن یا اس نوعیت کی دیگر پیشہ ورانہ ڈگریوں کی کیا اہمیت ہے؟15برس قبل جب میں ایک اخبار کا مدیر ہوا کرتا تھا تب بھی ایم اے صحافت کرکے آنے والے طلبہ بغیر تنخواہ کام کرنے کے لئے سفارشیں ڈھونڈتے پھرتے تھے کیونکہ انہیں دو سال یونیورسٹی میں جو کچھ پڑھایا جاتا تھا ،اس کی ذرائع ابلاغ کی منڈی میں کوئی افادیت نہیں تھی ۔اگر آپ اس معاشرے اور قوم پر واقعی کوئی احسان کرنا چاہتے ہیں ،قومی ترقی و خوشحالی کے سفر میں طویل المدتی منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کے خواہاں ہیں تو ہنر مند نوجوان تیار کرنے کی مہم شروع کریں ۔آپ کو روزمرہ زندگی میں ہر روز اس بات کا احساس ہوتا ہوگا کہ بے روزگاری کے شور میں قحط الرجال کا یہ عالم ہے کہ آپ کو اچھا خانساماں اور معقول ڈرائیور نہیں ملتا۔بزعم خود کئی ایسے کاریگر ملتے ہیں جو بیک وقت نل ساز ،ماہر برقیات اور نجار ہوتے ہیں،عیدالضحیٰ پر قصاب بنے پھرتے ہیں مگر کوئی ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرپاتے۔راج مستری نہیں ملتے ۔گاڑی کا کام کروانا ہوتو تجربہ کار میکینک ڈھونڈنا مشکل ہوجاتا ہے۔بلوچستان میں زُلف پریشاں کی تراش خراش کرنے والوںکی کمی ہے اورجو حجام پنجاب سے جاتے ہیں ،شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کردیئے جاتے ہیں۔ہنر مندافراد کا بحران پاکستان تک محدود نہیں بلکہ بیرون ملک بھی ایسے افراد کی شدید کمی ہے ۔اگر روایتی تعلیم دیکر بے روزگاری میں اضافہ کرنے کے بجائے ایسے ہنر مند افراد تیار کرنے کی طرف توجہ دی جائے تو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی شاندار مستقبل منتظر ہوگا ۔کم و بیش دنیا کے تمام ممالک میں ہنر مند افراد کی ضرورت ہے ۔آئے دن اس حوالے سے بھرتیوں کے اشتہارات دیئے جاتے ہیں۔جرمنی ،جاپان،پرتگال ،پولینڈ،فرانس ،اٹلی ،امریکہ ،کینیڈا،برطانیہ اور عرب ممالک سمیت ہر جگہ ہنر مند افراد درکار ہیں اورکسی بھی شعبہ میں مہارت حاصل کرکے ماہانہ 2000ڈالر یعنی تقریباً ساڑھے پانچ لاکھ روپے کمائے جا سکتے ہیں۔

اور یہ ہنر کاری محض ان پرانے شعبوں تک محدود نہیں ہے ۔آجکل فری لانسنگ کا دور ہے ۔ڈیجیٹل میڈیا کی شکل میں ایک نئی صنعت وجود میں آچکی ہے ۔ویڈیو ایڈیٹنگ کی مہارت کے حامل افراد کی بہت مانگ ہے ۔مگس بانی یعنی شہد کی مکھیاں پالنے سے جدید کاشتکاری تک کئی مواقع منتظر ہیں ۔آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میدان میں حکومتوں کے زیر انتظام ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کام کر رہے ہیں تو پھر فلاحی تنظیموں کو متحرک اور فعال کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔بدقسمتی سے ’’ٹیوٹا‘‘جیسے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت بھی دیگر سرکاری محکموں سے مختلف نہیں ہے ۔لہٰذا نجی شعبہ بالخصوص فلاحی اداروں کو میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔معمولی اور برائے نام فیس لیکر نوجوانوں کو مختلف شعبہ جات میں تربیت دی جائے ،مختصر مدت کے کورسز کروائے جائیں اور کمپنیوں کوخدمات فراہم کرنے کے لئے پیشہ ورانہ بنیادوں پر ادارے بنائے جائیں تاکہ ایک تو ان سے حاصل ہونے والی آمدن سے کارِخیر کا سلسلہ چندے کے بغیر جاری رہ سکے اور دوسرا فائدہ یہ ہو کہ جو بچے مختصر مدت کے کورس کرکے فارغ ہوں ،انہیں فوراً روزگار میسر آجائے ۔اسی طرح فلاح انسانیت کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو کاروبار کرنے کے لئے بلاسود قرضے دیئے جائیں تاکہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے بعد مزید بے سہارا افراد کی مدد کرسکیں۔ ورنہ راشن تقسیم کرنے ،مفت کھانا دینے کیلئے دستر خوان لگانے یا پھر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر اربوں روپوں کی خیرات دینے سے کسی قسم کی بہتری نہیں آئیگی۔ کاروبار کرنے کیلئے بلا سود قرض فراہم کرنے کیلئے بھی حکومتی سطح پر کئی نوعیت کی اسکیمیں چل رہی ہیں مگر طریقہ کار اس قدر پیچیدہ اور مشکل ہے کہ کوئی عام آدمی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا اور محض منظور نظر افراد کو ہی نوازا جاتا ہے۔ لہٰذا مخیر افراد اور فلاحی ادارے اس طرف توجہ فرمائیں ،بھکاری نہیں بلکہ ہنر مند افراد تیار کریں۔

تازہ ترین