• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِس امر سے انکارنا ممکن ہے کہ پاکستان کے حالات بڑے گمبھیر ہیں۔ ایسے میں سیاست دانوں، حکمرانوں اور اَمنِ عامہ قائم رکھنے والے اداروں پر سخت ذمےداری عائد ہوتی ہے کہ وہ حالات کو معمول پر لانے کیلئے تدبر و تحمل اور دُور اندیشی سے کام لیں اور طاقت کے بے جا استعمال سے اجتناب کریں۔ تاریخ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ طاقت کا اندھا دھند استعمال معاملات کو اِس قدر بگاڑ دیتا ہے کہ واپسی کا راستہ بند ہو جاتاہے۔ ہمیں موجودہ صورتِ حال کا حقیقت پسندی سے جائزہ لے کر ایک ایسا لائحہ عمل وضع کرنا ہو گا جو بڑھتے ہوئے بحران کو گہرا نہ ہونے دے اور جو خواب ہم نے مل کر دیکھا تھا، اُس کی تعبیر کیلئے سب جدوجہد کرتے رہیں۔ بلوچستان کے وزیرِاعلیٰ جناب سرفراز بگٹی نے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں جو فیصلے کیے ہیں، اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ خرابی کہاں تک پہنچ گئی ہے۔ اُنہوں نے کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کے نام یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ سرکاری ملازمین پر کڑی نگاہ رَکھیں اور اگر وہ رِیاستی مفادات کے مقابلے میں اپنے سیاسی عقائد کو ترجیح دیں، تو اُنہیں ملازمت سے برخاست کر دیا جائے۔

اِس وقت پاکستان کے دو صوبے دہشت گردی اور اِنتہاپسندی کی زد میں ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت دس برسوں سے قائم ہے۔ اِس دوران جناب عمران خاں تقریباً چار سال پاکستان کے وزیرِ اعظم بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اَفغان طالبان سے بڑے متاثر تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اُنہوں نے سوویت یونین کو شکست دینے اور اَمریکہ کو افغانستان سے نکالنے میں کلیدی کردار اَدا کیا ہے۔

بلاشبہ افغان مجاہدین نے سوویت یونین کی افواج کے دانت کھٹے کر دیے اور اُنہیں عبرت ناک شکست سے دوچار کیا تھا مگر اِس طویل جدوجہد میں پاکستان کا ایک ناقابلِ فراموش کردار تھا۔ اُس زمانے میں پاکستان کی آئی ایس آئی کے افغان مجاہدین کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ خاص طور پر حقانی نیٹ ورک اُس کے حلقۂ اثر میں تھا۔ افغان طالبان نے جب افغانستان پر قبضہ کر لیا اور اَمریکہ کو جلدی میں انخلا کرنا پڑا، تو وہ جدید اسلحہ بہت بڑی تعداد میں پیچھے چھوڑ گیا۔ اُس وقت افغان طالبان کا ایک وفد عزیزم اعجاز الحق سے ملنے آیا اور اُنہیں اِس امر کا یقین دلایا کہ وہ اِنتہاپسندی کے بجائے اعتدال کا راستہ اپنائیں گے۔ خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گی اور تمام شہریوں کو بنیادی آزادیاں حاصل ہوں گی۔ اعجاز الحق صاحب مجھ سے ملنے آئے اور وَفد سے ملاقات کی روداد سنائی۔ اُس کی بنیاد پر مَیں نے چند کالم افغان طالبان کی حمایت میں لکھے، مگر جلد ہی معلوم ہو گیا کہ وہ اَپنی روش تبدیل کرنے کے بجائے پہلے سے زیادہ شدت پسند ہو گئے ہیں۔ یہی بات مَیں نے تفصیل سے لکھ دی اور یوں اُن افغان طالبان کا اصل چہرہ بےنقاب ہو گیا تھا۔

اِن تمام مدوجزر کے باوجود عمران خاں صاحب افغان طالبان کے شیدائی رہے اور جب وہ اِقتدار میں آئے، تو اُنہوں نے چالیس پچاس ہزار اَفغان طالبان پاکستان میں لا کر آباد کر دیے۔ اِس سے قبل کوئی تیس لاکھ کے قریب افغانی پاکستان میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ بدقسمتی سے اقتدار میں آنے کے بعد افغان طالبان پر مختلف بیرونی طاقتوں نے کام کرنا شروع کر دیا اور وُہ بھارت کے زیرِاثر چلے گئے۔ اب وہ پاکستان کے دو صوبوں میں دہشت گردی کو ہوا دَے رہے ہیں اور پنجاب میں بھی اپنے قدم جمانا چاہتے ہیں۔اِن سرگرمیوں کے باعث پاکستان کی بقا اور سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔

دہشت گرد اَور اِنتہاپسند تعداد میں بالعموم کم ہوتے ہیں مگر وہ اَپنی ہیبت اور ذہنوں کو معطل کر دینے والے پروپیگنڈے سے عوام و خواص میں جگہ بنا لیتے ہیں۔ بلوچستان میں اُنہوں نے جبری گم شدہ اَفراد کا مسئلہ اٹھایا اور اُسے ایک عوامی تحریک کی شکل دے دی۔ معاملہ چونکہ حساس تھا، اُس نے خواتین کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ ڈاکٹر ماہ رَنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یک جہتی تنظیم قائم ہوئی جو بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ گم شدہ اَفراد میں زیادہ تر وہ جیالے شامل ہوتے ہیں جو بلوچستان کو آزاد کرانےکیلئے بی ایل اے میں شامل ہو جاتے اور پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں۔ ریاست کیلئے اِس نازک صورتِ حال سے نبردآزما ہونا بہت دشوار ہوتا ہے، کیونکہ اگر اُن ناراض بلوچوں کو گلے لگانے کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے، تو وہ معصوم شہریوں اور رِیاست کے منتظمین کے گلے کاٹنے کیلئے مزید شیر ہو جاتے ہیں۔ اگر اُن کے ساتھ قانون کے مطابق سختی کی جائے، تو ’مظلومین‘ کے حق میں ایک ہاہاکار مچ جاتی ہے۔ انتظامیہ اور رِیاستی اداروں کے خلاف میڈیا میں ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوجاتا ہے۔

اِس خطرناک دوراہے پر اربابِ اختیار کو بےپایاں حکمت اور غیر معمولی احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ ایک طرف جھوٹے پروپیگنڈے کا زور توڑنے کیلئے ایک قابلِ فہم بیانیہ ترتیب دینا اور عوام کو اصل حقائق سے باخبر رکھنا ہو گا۔ آج کا زمانہ ذہنوں کو مطمئن کرنے کا ہے۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کیلئے حقائق کو گھر گھر پہنچانا ازبس ضروری ہے۔ حکومت اب تک اِس محاذ پر قدرے ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستان کے وہ شہری جو اَپنے عزیز وطن کو دہشت گردوں اور اِنتہاپسندوں سے نجات دلانا چاہتے ہیں، اُنہیں اِس جہاد میں رضاکارانہ طورپر شامل ہونا چاہیے۔یہ صرف حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی ذمےداری نہیں۔ اِسی طرح کسی بات کو پھیلانے سے پہلے اُس کی تحقیق لازم ہے۔ دوسری طرف اب یہ احساس ختم ہوتا جا رہا ہے کہ پورے جسم کو محفوظ رکھنے کیلئے جسم کے اُس حصّے کو کاٹ دینا ضروری ہو گیا ہے جو لاعلاج نظر آتا ہے، تاہم اِس میں ایک ذمےدار ڈاکٹر کی طرح پوری احتیاط برتنا ہو گی۔ تیسری جانب یہ مناسب ہو گا کہ فوج کے بجائے پولیس کو دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار اَور مسلح کیا جائے۔ فوج کے مقابلے میں پولیس شہریوں سے مؤثر انداز میں بات چیت کر سکتی اور اُنہیں راہِ راست پر لا سکتی ہے۔ اِس پورے عمل میں صحافیوں اور اَینکر پرسنز کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس لیے اُنہیں اعتماد میں لینا اور اُنہیں قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادیِ اظہار کی ضمانت دینا ازبس ضروری ہے۔

تازہ ترین