احیائے دین کا کام حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانے سے جاری، فریضہ اقامت دین (کسی حد تک شاہ ولی اللہ) کی جامع وضاحت بمطابق قرآن پہلی دفعہ علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ نے کی۔
برصغیر کے مسلمان اس لحاظ سے بدقسمت، خالص دینِ اسلام نصیب نہ بنا۔ مستزاد! اکبر کا دین الٰہی کاری ضرب، مقصد اسلام کی بیخ کنی تھا۔ اگر شیخ احمد سرہندیؒ (پیدائش 1564ء) احیائے دین کا پرچم بلند نہ کرتے تو ہندوستان میں دین اسلام زندہ درگور رہنا تھا۔ اورنگزیب عالمگیر کا دور شیخ احمد سرہندی ؒ کے ’’احیائے دین‘‘ کا ثمر ہی تو تھا۔ اورنگزیب عالمگیر نے شیخ احمد سرہندیؒ کے کام پر اقامت دین کی مقدور بھر کوشش کی، اسی کا اعجاز کہ شاہ ولی اللہ دہلوی بطور نعمت امت کا نصیب بنے۔ شاہ ولی اللہؒ کو مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلے کا دور ملا جہاں جاہلانہ رسومات، جبر و استبداد، بدامنی و طوائف الملوکی، عیاشی و نفس پرستی کا دور دورہ تھا۔ شاہ صاحب نے ایمان و عقائد کی ایسی ابتری، معاشرتی برائیوں اور معاشی افراط و تفریط کو ختم کرنے پر جامع انداز میں کام کیا اور دین اسلام کوکسی تحریف سے بچا لیا۔ بدقسمتی کہ ’’احیائے دین‘‘ کے کام میں اس قدر مگن رہے کہ شاید اقامت دین کیلئے فرصت ہی نہ ملی۔
دین اسلام ہے کیا؟ قرآن کا صاف صاف بیان ’’حضرت انسان صرف اور صرف میری اور میرے رسول (ﷺ) کی اطاعت کا مکلف ہے‘‘۔ کتاب حکمت دینِ اسلام کے خدوحال صراحت سے واضح کرتی ہے۔ دین اسلام اور کچھ نہیں رسالت ماب ﷺ کی حیات طیبہ ہے۔ ذات مبارکہﷺ اقامت دین کا ایک کامل نمونہ ہے۔ وصال رسولؐ کے 30سال تک خلافت راشدہ، بعد کی کئی صدیوں کی ملوکیت میں بھی شریعت نافذ رہی۔ توحیدو رسالت کا من و عن اقرار، صوم و صلوۃ پر عمل، قرآن و حدیث سے اجتہاد کی پابندی، سب کچھ نظام ملوکیت کے زیر سایہ بھی تھا۔ رسالت ماب ﷺ کا امت سے وعدہ، ’’ہر دور میں تجدید کا کام کرنیوالے میسر رہیں گے‘‘، عمر بن عبدالعزیزؒ مجددین کے سرخیل اور پہلے ’’مجدد‘‘ کہلائے۔ بعد ازاں امام غزالی، امام ابنِ تیمیہ ؒکی کُلی زندگیاں احیائے دین کیلئے وقف رہیں۔ امام تیمیہؒ کا کام کئی پہلوؤں سے منفرد اور ہندوستان میں پنپنے والی مسلم معاشرت سے مماثل بھی، تاتاری حکمرانوں نے جب اسلام قبول کیا تو اپنی رسومات کا جوڑ ساتھ ملایا۔ بعینہٖ ہندوستان میں ہندو رسم و رواج اور کئی دوسری بدعات و جہالت دین اسلام میں رچ بس گئی۔
عمر بن عبدالعزیز، امام غزالیؒ، امام ابن تیمیہؒ، شیخ احمد سرہندیؒ، شاہ ولی اللہؒ کے بعد علامہ اقبال ؒ اور مولانا مودودیؒ سب نے احیائے دین کے کام کو آگے بڑھایا۔ علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کا دور شیخ احمد سرہندیؒ اور شاہ ولی اللہؒ کے ادوار پر منطبق کہ جہاں اسلام کا بنیادی تصور ماند پڑ چکا تھا وہاں نظام دین کا قیام مکمل طور پر ناپید تھا۔ عمر بن عبدالعزیزؒ کو استثنیٰ کہ ان کے زمانے میں نہ فقہی اختلافات کا سامنا اور نہ ہی علماء کی مخالفت اور نہ ہی اسلام میں جاہلانہ رسومات کی مداخلت، عمر بن عبدالعزیز ؒ کا بنیادی ہدف صرف ملوکیت کی بیخ کنی کرنا تھا۔ جبکہ امام غزالی، امام ابن تیمیہ، شیخ احمد سرہندیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ نہ صرف حکمرانوں اور اشرافیہ کے ظلم و ستم کا شکار بنے، علمائےدین اور فرقوں کی سخت مخالفت کے گھیرے میں رہے۔ شیخ احمد سرہندی ؒسے پہلے تو فریضہ اقامت دین کا تصور تھا نہیں کہ شریعت محمدی (ﷺ) مسلمان حکومتوں میں نافذ چلی آ رہی تھی۔ شیخ احمد سرہندیؒ ، شاہ ولی اللہؒ ، علامہ اقبالؒ نے ’’احیائے دین‘‘ میں کمالات دکھائے مگر بدقسمتی سے تجدید کے کام میں اس قدر جذب کہ اقامت دین کیلئے عملی کوشش کا وقت نہ ملا۔
20ویں صدی کے مجددین کو نہ صرف دین اسلام اور دوسرے جاہلانہ نظام کے اختلاط سے نبٹنا تھا، 20ویں صدی میں جہاں اسلام مکمل جہالت کے نرغے میں تھا وہاں اشتراکی نظام اور سرمایہ داری نظام عالمی طاقت بن کر اپنے اپنے نظریات کو دوسرے ممالک میں نافذ کر رہے تھے۔ دونوں نظام، دین اسلام کو اپنا صف اول کا حریف سمجھ بیٹھے۔ علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ نے ایسے سارے محاذوں پر علم اور استدلال سے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مولانا مودودیؒ اس لحاظ سے منفرد کہ بے لاگ، جرات و دلیری کیساتھ جاہلانہ رسم و رواج، 20ویں صدی کے نئے نویلے نظریات، اسلام میں جاہلیت کی آمیزش، مذہبی افراط و تفریط کو آڑے ہاتھوں لینے کیلئے میدان عمل میں کودے رہے۔ اصلاحی تحریک کی بنیاد رکھی جس میں انواع و اقسام کے مقلدین، فقہ، فرقہ سے وابستگان کو بلاتفریق اکٹھا کیا۔ اسلام کو مسجد سے نکال کر جامعات، کالجز اور جدید درسگاہوں تک پہنچایا۔ بوجوہ مقتدرہ، سیاستدان، علماء وغیرہ سب نے مولانا مودودیؒ کو اپنی توپوں کے دہانے پر رکھ لیا۔ ایسے وقت جبکہ 20ویں صدی میں غیر اسلامی ممالک اور معاشروں میں انواع اقسام کی نظریاتی تحریکیں اُبھر چکی تھیں۔ جبکہ عالم اسلام غیر اسلامی ممالک کی غلامی میں جکڑا تھا۔ مولانا مودودیؒ کی زندگی ہی میں انکی فکر اور نظریہ تیزی سے دیگر درجنوں اسلامی ممالک تک رسائی حاصل کر چکا تھا۔
علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کی فکر اور عمل احیائے دین اور فریضہ اقامت دین سے بھرپور مزین ہے۔ خوش قسمتی مولانا مودودی ؒکے آخری 9سال مجھ پر بیت گئے۔ میرے لئے اعزاز، انکی نظریاتی جنگ کا ایک معمولی سپاہی رہا۔ چشم دیدہ گواہ کہ مولانا مودودی ؒنے احیائے دین اور اقامت دین کیلئے جو جامع عملی و فکری، تحقیق و تدبیر، تجدید وجدوجہد کا فریضہ سرانجام دیا، مخالف نظریہ کو علمی استدلال اور عقل و دانش سے ڈھیر رکھا۔ مولانا مودودیؒ نے عرق ریزی کیساتھ دین کامل کی دسترس میں آنیوالے ہر شعبہ زندگی پر مفصل کام کیا اور اسے عام آدمی کی سمجھ کے مطابق سہل بنایا۔ ستر کی دہائی تک وطنی نوجوانوں کی اکثریت فکر مودودیؒ کی اسیر بن چکی تھی۔ مولانا کے کام سے فقیہانہ اختلاف کی گنجائش موجود مگر یہ حقیقت بھی اپنی جگہ (بلکہ اجماع اُمت) کہ فکر مودودی کی غیرموجودگی میں دین اسلام آج سے زیادہ نازک حالت میں شتر بے مہار کی طرح نفسا نفسی کی گرفت میں رہنا تھا۔ رسول مقبول ﷺ کا سچا وعدہ، ’’میری اُمت میں ہر صدی کے سرے پر ایک مجدد آئےگا جو دین حق کو اس دور کے تقاضوں کے مطابق اجتہاد اور تجدید سے آراستہ رکھے گا‘‘۔ تجدید واحیائے دین کے کام میں تمام مجددین کماحقہ کامیاب، البتہ دین نافذ کرنے کی کوششیں رائیگاں رہیں۔ آہ! دین کو سیاست سے جدا ہوئے دو صدیاں بیتنے کو، امت مرحومہ آج چنگیزی نظام کے چنگل میں پھنسی، بے بس۔