• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد سے ذرا پرے ، مری کے راستے میں،بارہ کہوہ شاید دنیا کا واحد علاقہ ہے جہاں اگر آپ کو گھر بیٹھے اونٹنی کا دودھ درکار ہو تو فون کرکے دودھ نہیں بلکہ خود اونٹنی کو گھر بلا سکتے ہیں اور تازہ دودھ اپنی دہلیز پراپنی آنکھوں کے سامنے نکلوا سکتے ہیں۔یہ بارہ کہوہ مری کے راستے میں پہلا پڑاؤ ہوا کرتا تھا۔ گزرے وقتوں کے دھندلے دھندلے سے اس ذرا سے گاؤں کو اب جو دیکھا تو یہ طے کرنا دوبھر ہو گیا کہ یہ کیا ہے؟ بڑے بڑے دفتر، بھاری بھر کم ادارے، سارے نامور بینک، تمام مشہور کمپنیاں، سُپر مارکیٹیں، مال سے بھرے ہوئے اسٹور، چھوٹی چھوٹی دکانوں کی بھرمار، تازہ گوشت، اس سے بھی تازہ اسی وقت کی پکڑی ہوئی مچھلی، باؤ جی کا پلاؤ، ڈھابے سے لے کر شاندار ریسٹورنٹ تک بھانت بھانت کا کھانا۔ روئی دھننے والے دھنئے کی دکانیں، آٹا پیسنے کی چکّیاں جن میں وہیں پچھواڑے پیدا ہونے والا اناج آپ کی آنکھوں کے سامنے پس رہا ہے اور تازہ گرم روٹیوں میں وہ گاؤں دیہات والی لذّت بھری ہے۔ دودھ دہی کی وہی مشہور نام والی دکانیں اور اتنے راہ گیر کہ ہر ایک کا کھوا دوسرے کے کھوے سے چھلا جا رہا ہے۔ اوپر سے ٹریفک، اتنا زیادہ کہ راہ چلنا مشکل۔ ان سب سے اونچی اور دومیناروں والی ایک شاندار مسجد اور ہر گلی کوچے میں نمازیں ہی نمازیں اور اذانیں ہی اذانیں، کچھ سے پہلے نعت شریف ، کچھ میں شروع ہی سے اﷲ کے بڑے ہونے کی شہادت۔ہر عقیدہ، ہر مسلک، اسی مناسبت سے دیواروں پر ہر طرح کی تحریریں، یہاں تک کہ ویسے ہی اسکولوں اور مدرسوں کے نام، کہیں کہیں تو اتنے بہت سارے اسکول کہ ان پر اسکولوں کے جمعہ بازار کا گمان ہوا اور صبح کا وہ منظر آنکھوں سے کسی حال محو نہیں ہوتا جب ہر گھر سے نکل کر اسکولوں کی سمت جاتے ہوئے ہر عمر کے بچّوں کا پیدل چلتا ہوا ہجوم جن کی پیٹھ پر کتابوں کے بستے اور جن کے ہاتھوں میں کسی بڑے کا ہاتھ۔ منظر کیا کمال کر دکھاتے ہیں کہ آنکھوں میں کھُب جاتے ہیں۔وہیں تبلیغی قافلے بھی دیکھے جو دنیا والوں کو دین والے بنانے کے لئے لپکے چلے جارہے تھے۔ پھر وہ حیرت انگیز نظارا دکھائی دیتا ہے کہ گھنے ہجوم والے بازار کے بیچوں بیچ ایک خاتون سر پر بالٹی رکھے چلی جا رہی ہیں، ان کے ساتھ ساتھ ایک اونٹنی اور اس کا بچّہ چل رہا ہے۔
خاتون کو آواز لگانے کی ضرورت نہیں، دنیا خود ہی جان لیتی ہے کہ وہ اونٹنی کا تازہ دودھ بیچ رہی ہیں، آپ کی نظروں کے سامنے نکالا ہوا ، ہلکی ہلکی حرارت لئے ہوئے پانی جیسا تازہ دودھ۔ ادھر یہ بات ہونٹوں ہونٹوں پھیل گئی ہے کہ اونٹنی کا دودھ پینے سے کتنے ہی مرض ختم ہوجاتے ہیں اور یہ کہ ذیابیطس کا اس سے زیادہ موثر علاج ممکن ہی نہیں۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس علاقے میں دودھ کی نہریں بہتی ہیں۔
یہ سارا پہاڑی علاقہ ہے جس میں میٹھے پانی کے کتنے ہی پہاڑی نالے بہتے ہیں۔ ان نالوں کی وادیوں میں دودھ دینے والے مویشیوں کے باڑے ہیں جہاں صبح شام تازہ دودھ دوہا جاتا ہے ۔سوئی ہوئی توانائیوں کو جگانے کے خواہشمند وہاں سے مینڈھے کی مادہ کا دودھ خریدتے ہیں۔ اصلی دودھ کے متلاشی برتن لے کر ان وادیوں میں اتر جاتے ہیں اور ایسا گاڑھا دودھ لاتے ہیں کہ جسے ہضم کرنا مشکل ہے۔ چنانچہ آج کے معدے کی بگڑی ہوئی عادتوں کو دیکھتے ہوئے اس دودھ میں پانی ملانا پڑتا ہے تب کہیں جاکر ہاضمے کا نظام اسے شرف قبولیت بخشتا ہے۔ پہاڑی نالے قریب ہونے سے علاقے کو جو نعمت حاصل ہے وہ یہ کہ زمین میں گہرا سوراخ کرنے سے نہایت میٹھا پانی نکلتا ہے جس کی آب پاشی سے سبزہ پھوٹا پڑتا ہے۔ لوگوں نے کون سا پھول نہیں لگایا اور کون سا پھل نہیں اُگایا اور کیسے کیسے جانور نہیں پالے ہیں۔
خوب ہے بارہ کہوہ۔ مجھے وہاں ڈھائی دن رہنے کا اتفاق ہوا۔ ان ڈھائی دنوں میں کیا کیا دیکھا، یہ اگر بیان نہ کیا تو سمجھوں گا کہ میری قوتِ بیانیہ بیکار گئی۔ ہوا یہ کہ جب شہر اسلام آباد پوری طرح آباد ہو گیا اور ایک خلقت کو وہاں بسنے کا ٹھکانا ڈھونڈنے میں دشواری ہونے لگی تب کسی کو احساس ہوا کہ کیوں نہ آس پاس کے دیہاتیوں کی کھیتی باڑیوں میں گھروندے بنائے جائیں۔ ان لوگوں نے کسانوں کو اپنی اُس رقم کی پیشکش کی جو غریبوں کی نگاہ میں بھاری تھی۔وہ جھٹ مان گئے پھر کیا ہوا، بالکل وہی جو کسی زمانے میں امریکہ کے ندی نالوں میں سونے کے ذرّے تلاش کرنے والوں کا ہجوم ان ندی نالوں پر ٹوٹ پڑا تھا۔ مالدار لوگ اس علاقے پر جھپٹ پڑے اور انہوں نے کسانوں سے معاملہ کرکے اتنی بڑی بڑی زمینیں خرید لیں کہ بعد میں انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا اور اپنے گھیرے ہوئے بڑے بڑے قطعات کے کچھ حصے فروخت کر کے انہوں نے اپنا لگایا ہوا سارا پیسہ کما لیا بلکہ شاید کچھ اوپر سے بھی۔ اس کے بعد ان زرعی زمینوں پر محل بننے شروع ہوئے اور حویلیاں تعمیر ہونے لگیں۔ دیکھتے دیکھتے بارہ کہوہ جیسے علاقوں میں پانچ ستاروں والی کوٹھیاں اور بنگلے کھڑے ہو گئے۔ علاقوں میں دونوں ہی یعنی پیسہ اور پیسے والوں کی بہتات ہوئی تو معاشیات نے اپنا چمتکار دکھانا شروع کیا اور ہر طرح کا کاروبار کھلنے لگا۔ مستری ، کاریگر ، بڑھئی، راج مزدور سارے کام کاج چھوڑ کر اس خوش حال نگر میں آن بسے، وہ آئے تو رونق آئی ۔ بینک کھلے، اے ٹی ایم کھلے، بسیں چلنے لگیں، پولیس اسٹیشن بننے لگے، حفاظتی چوکیاں کھل گئیں۔ غرض یہ کہ نئے زمانے کی ساری خوبیاں اور ساری خرابیاں ان گلیوں اور راہ داریوں میں بسیرے کرنے لگیں ۔ اب تو خیر سے بارہ کہوہ دنیا کے نقشے پر بھی آگیا ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پر گوگل میں جاکر ڈھونڈا، موجود تھا۔وہ بھی اس شان سے خودکش حملہ آوروں نے وہاں بھی اپنا کام دکھایا اور ایک صاحب کمر کے گرد گولہ بارود باندھ کر ایک عبادت گاہ کو نشانہ بنانے پہنچے۔ وہ تو ناکام رہے مگر بارہ کہوہ کا نام ہو گیا۔ بعد میں وہاں اسلحہ کے ذخیرے ملنے کی خبریں آتی رہیں ۔ ویسے بھی پرانے دنوں میں یہاں کے جرائم پیشہ لوگوں کی کافی شہرت تھی۔ میں نے کسی سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ چلے گئے؟ جواب ملا کہ جی نہیں، وہ سڑک کی دوسری طرف رہتے ہیں۔
ایک زمانے میں پاکستانی فوج ان پہاڑیوں میں گولہ باری کی مشق کیا کرتی تھی جس کی دھمک دور دور تک سنائی دیتی تھی۔ میں نے وہاں جتنی راتیں گزاریں، ہر رات کہیں سے گولیاں چلنے کی آوازیں آیا کرتی تھیں۔ میں گھبرا کر گھر کی کھڑکیاں بند کیا کرتا تھا مگر محسوس کرتا تھا کہ دوسرے لوگوں پر اس ترتراہٹ کا ذرا سا بھی اثر نہیں۔ سب چین سے سوتے ہیں۔ لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ پتہ چلا کہ وہیں کہیں دو گھرانوں میں کسی زمین کا جھگڑا ہے۔ رات کے وقت وہ دونوں ایک دوسرے پر گولیاں چلاتے رہتے ہیں۔لوگوں نے یہ بھی سمجھایا کہ آپ پریشان نہ ہوں ، یہاں تو یہ ہوتا ہی رہتا ہے۔
یہ بات شروع میں کہیں ادھوری رہ گئی۔ بارہ کہوہ کی رسّی جلی ہو یا نہ جلی ہو، اس کے بل ابھی باقی ہیں۔ زمین کے جن ٹکڑوں پر بنگلے نہیں بنے ہیں، یقین جانئے کہ ان پر ابھی تک اناج اگا ہے۔ لوگ نئے خریدار کے آنے تک ان زمینوں پر کاشت کر رہے ہیں۔ خریدار بھی اب پھونک پھونک کر آرہے ہیں کیونکہ فروخت کرنے والے بھی اس دوران سیانے ہو گئے ہیں اور زمین کی قیمتیں اُس آسمان کو چھورہی ہیں جو پہاڑی علاقہ ہونے کے باوجود دور ہے۔ اوپر سے یہ خوف کہ زمین خریدنے کے بعد اس کا کوئی تنازع نہ ہو جائے اور یوں نہ ہو کہ راتوں کو گولیاں چلیں۔ البتہ یہ اطمینان ہے کہ علاقے کے لوگ اس حال میں بھی گھوڑے بیچ کر سونے کے عادی ہوچکے ہیں۔لوگوں نے چوکیدار ملازم رکھ لئے ہیں جو رات آٹھ بجے ہی سے سیٹیاں بجانے لگتے ہیں۔ اس کے بعد ڈرکاہے کا۔ رہ گئی بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو اس کی یہ شان ہے کہ بجلی باقاعدگی سے جاتی ہے لیکن ایک گھنٹے بعد لوٹ آتی ہے۔ کسی نے کہا کہ غنیمت جانئے۔ اس بہانے لوگوں کو ہر ایک گھنٹے بعد خوشی نصیب ہوجاتی ہے۔ یہ نعمت اس زمانے میں کہاں ملتی ہے؟ جواب آسان ہے، بارہ کہوہ میں۔
تازہ ترین