السّلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
گیت یاد آرہا ہے!!
خلوصِ بیکراں! خصوصی سالِ نوایڈیشنز، سالِ گزشتہ کےجان دار و شان دار تجزیوں، تبصروں کے ساتھ وصول پائے۔’’حرفِ آغاز‘‘ میں تنقیدی کم، تعمیری باتیں زیادہ پڑھنے کو ملیں۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں اپنا نام دیکھا، تو یقین نہیں آیا کہ آپ مجھ جیسے سٹھیائے ہوئے انسان کو بھی یاد رکھتی ہیں۔ عزت افزائی کا بہت شکریہ، ایک گیت یاد آرہا ہے، نہ جانے آپ پسند کریں یا نہیں۔ اللہ پاکستان کو ہر بُری نظر سے محفوظ رکھے۔ دُعا ہےکہ امن کے رستوں پر خُوشیوں، مسکراہٹوں کے پھول کِھلتے، مہکتے رہیں۔ (سیّد شاہ عالم زمرد اکبرآبادی، راول پنڈی)
ج: کسی کو یاد رکھنا، کسی کا یاد رہ جانا کوئی بڑی بات نہیں، اصل بات اُس کے یاد رہ جانے کا سبب ہے کہ کوئی کس ’’وصف‘‘ کی بناء پر یاد رہ گیا۔ یہ جو انتہائی واہیات گیت آپ کو یاد آیا(خط سےایڈٹ کردیا گیا) آپ کی اِس جیسی کئی باتوں کے بعد آپ کو یاد رکھنا تو بنتا ہے۔
خبروں میں رہنےکے لیے
اِس بار ماڈل کو دیکھ کر یوں گمان ہورہا تھا، جیسے اُس نے آٹے کی بوری اوڑھ لی ہو یا کھیت میں تھریشر لگانےجارہی ہو۔ براہِ مہربانی ’’اسٹائل‘‘ میں سالِ نو کے رنگ کا موضوع نہ اٹھایا کریں۔ اور یہ Pentone کو کس نے اختیار دیا ہے کہ سال کے بہترین رنگ کا انتخاب کرتا پِھرے۔
رنگ تورنگ ہوتا ہے، ہر نئے سال کے ساتھ ایک نئے رنگ کا کیا مطلب؟ اور بھئی، ہماری اونگیوں بونگیوں کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا کریں۔ اب یہ سنڈے میگزین ہی میں لکھا تھا کہ علی امین گنڈا پور عجیب وغریب حرکتیں کرتے ہیں، تو اگر وہ وزیرِاعلیٰ ہو کرصرف خبروں میں رہنے کے لیے ایسی حرکتیں کرسکتے ہیں، تو ہم جیسا عام سا انسان کیوں نہیں۔ (نواب زادہ بےکار ملک، سعید آباد، کراچی)
ج: مگر سوال یہ ہے کہ اِس بےچارے عام سے انسان کو خبروں میں اِن رہ کے بھی کیا کرنا ہے۔
کیسے ہوتے ہیں وہ خط…
پچھلے سال کی ٹھٹھرتی پرچھائیاں سِمٹیں، تو نئے سال کا نیا شمارہ، آفتابِ تازہ بنا علمی اُفق پرتہلکہ مچاتا نظر آیا۔ پچھلے تمام شمارے، گئی رُتوں کی بہار تھے۔ نئے ایڈیشن کی بات کریں تو؎ تازہ تازہ تازہ کلی ہے، ہم اُس کے دیوانے ہیں۔ آتے ہی یوں چھا گیا، گویا خوشبوئےعلم کےبادبان کُھل گئے۔ بدلتی رُتوں نےرستہ روکا، ہواؤں نےکچھ کہنے کولب کھولے۔
ایک سے بڑھ کر ایک مصرعوں کی بہار تھی۔ پور پور بھیگتے ’’حرفِ آغاز‘‘ سے مطالعے کا آغاز کیا۔ پڑھتے پڑھتےجیسے اِک سحر میں ڈوبتےچلے گئے۔ قلم کاروں کے قلم کی روانی کسی فلم ریل کی طرح چلتی پورےسال کی تصویر دکھلا گئی۔ سیاسی دھند کے سبب راہبرانِ قوم ہی رستوں میں گم نظر آئے۔
دہائی دیتے جو قدم بڑھایا، تو مرض بڑھتا گیا، جوں جوں دوا کی۔ اکیسویں صدی کی ہول ناک جنگ کہ جس میں پورا غزہ ہی لہو رنگ ہوگیا۔ عالمِ اسلام کی بےبسی و بے حسی پردل ماتم کُناں ہے۔ مسلّح افواج کی جرات وہمّت کو سلام، اعتراف ہے کہ بےشک، انہوں نےلہو سے اپنے چراغاں کیا ہے راہوں میں۔ جانے اہلِ سیاست کو کب سیاست آئےگی؟ اےکاش! پھر کوئی عدالت میں لےکر ترازو آئے۔
دُعا ہے کہ معیشت کوکوئی آئی سی یو،وینٹی لیٹرسےاٹھا کر وارڈ ہی میں شفٹ کردے۔ ارشد ندیم کا اولمپکس گولڈ میڈل… بس کیمرے نے اِس ایک لمحے کو ٹھہرایا ہوا ہے، اور یہی لمحہ خُودکو دہرانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ مریم نواز کا خوش آئند سیاسی سفر ایک تسلسل ہے، خوابوں کا۔ اپنے صفحے پر سال 2024 ء کی چِٹھیوں کا حال احوال سُننا تو گویا ہفت اقلیم کی دولت مل جاناٹھہرا۔
خیر،وقت کےاسی ہیر پھیر میں ؎ ہوئے نام وَر بےنشاں کیسے کیسے… دُعا ہے یہ محفل آپ کی سربراہی میں یونہی سجی، جمی رہے، یہی ہماہمی رہے اور آپ کے جوابات کی خوشبو یہ احساس دلاتی رہے کہ ؎ ’’ایسے‘‘ ہوتے ہیں وہ خط، جن کے جواب آتےہیں۔ (نازلی فیصل، ڈیفینس، لاہور)
ج:آپ کہہ رہی ہیں تو مان لیتے ہیں، ویسے، ایسے نہیں ہوتے وہ خط، جن کے جواب آتے ہیں۔
بےحد دُکھ ہوا
سال2024 ء کے اختتام اور نئےسال کی شروعات کے ’’سنڈے میگزین‘‘ کے ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے خطوط نگاروں کی فہرست میں اپنا نام نہ پا کر بےحد دُکھ ہوا کہ ہم توسال ہاسال سے اِسی جریدے سے جُڑے ہوئے ہیں، تو بھلا پھر آپ ہمیں کیسے بھول سکتی ہیں۔
بہرحال، شکارپور سے متعلق ایک مضمون پیشِ خدمت ہے، لائقِ اشاعت ہو تو قریبی شمارے میں جگہ دے کر ہمت افزائی کیجیے گا۔ ویسے ایک بات تو طے ہے کہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کم صفحات میں بھی انتہائی معیاری جریدہ ہے، جو ایک بہترین ٹیم کی بدولت دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ ( شرلی مرلی چند گوپی چند جی گھوکلیہ، پرانا صدر بازار، ضلع شکارپور)
ج:اوہو… آپ کا نام شامل ہونے سے رہ گیا، یہ تو واقعتاً ہم سے بڑی کوتاہی ہوئی۔ تہہ دل سے معذرت خواہ ہیں۔ بشرطِ زندگی، اِس نادانستہ غلطی کے ازالے کی کوشش کریں گے۔ رہی دن دونی، رات چوگنی ترقی، تو وہ بس آپ ہی کو نظر آرہی ہے، سچ یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا مسلسل رُو بہ زوال ہے۔
خاصی ڈھارس بندھی
’’سالِ نو ایڈیشن‘‘ دیکھا، فوری لپک کر ’’حرفِ آغاز‘‘ پر نظر ڈالی۔ بلاشبہ، حسبِ روایت نہایت عُمدہ تحریر پڑھنے کو ملی۔ سالِ گزشتہ کا پورا منظر نامہ یک لخت ہی نگاہوں میں آ سمویا۔ سمندر کو ننّھے سے کُوزے میں بند کر دکھانا یقیناً آپ ہی کا وصف ہے اور پھر سال بھر کا مشاہدہ کر کے، جائزہ لے کے مختلف النوع تجزیات کی صُورت اِک اِک موضوع کواحاطۂ تحریر میں لانا بھی (وہ بھی یوں کہ کوئی ایک اہم خبر، خاص واقعہ مس نہ ہوجائے) کوئی آسان بات نہیں۔
گویا پورے سال کی ایک ڈاکیومنٹری سی آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی۔ اور ہاں، ’’حرفِ آغاز‘‘ کے اختتام سے بھی خاصی ڈھارس بندھی کہ جب عنبریں حسیب عنبر کے خُوب صورت دُعائیہ اشعار پڑھے ؎ پت جھڑ اب کے آنکھ چُرا کر یوں گزرے… فصلِ گُل آجائے سب کے جیون میں… ایسی خوشیاں، جن کےکچے رنگ نہ ہوں… میرے مالک بَھر دے سب کے دامن میں۔
پھر اگلا جریدہ دیکھا، واہ جناب! اس قدرعُمدہ، مربوط، مفصّل و جامع تجزیات، تبصرے مرتّب کرنا تو کوئی آپ ہی سے سیکھے۔ راجا حبیب اللہ خان، رؤف ظفر، منور مرزا، ڈاکٹر ناظر محمود، فرخ شہزاد، راؤ محمد شاہد کی بےلاگ تحریریں، ’’اسٹائل‘‘ کا نہایت حسین و دل نشین رائٹ اَپ، ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے بہترین خطوط… سب خُوب، بہت خُوب، بلکہ بہت بہت خُوب۔ اللہ کرے، آپ کی بزمِ خاص کی رونقیں قائم و دائم رہیں۔ (نرجس مختار، خیر پور میرس، سندھ)
ج: جی ہاں، اِک اُمید ہی تو ہے، جو ہنوز ہم پاکستانیوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
خط کا متن سمجھنے میں غلطی
اللہ تعالیٰ کےفضل و کرم سے آس رکھتا ہوں کہ اہلِ بزم خوش و خرم ہوں گے۔ سورج نامہ چمکتا ہے، تو ہمارا چہرہ بھی دمکتا ہے۔ غالباً میرے پچھلے خط کا متن سمجھنے میں کچھ غلطی کی گئی، مَیں نےکسی بےحجاب ماڈل کے سرِورق کی توصیف بالکل نہیں کی تھی۔ مَیں درحقیقت ماہِ ربیع الاوّل کے جریدے کی بات کررہا تھا۔
ویسے سالِ رفتہ کا ماہِ دسمبر میرے لیے بہت اچھا رہا کہ میرے تین عدد خطوط شائع ہوئے۔ ’’خودنوشت‘‘ واقعتاً دو دھاری تلوار ہے، خصوصاً بھلوال اور پنڈی والی اقساط عُمدہ ترین رہیں۔ ہاں مگر، شیخ رشید سے متعلق پڑھ کرسخت افسوس ہوا۔ محمد ریحان نے ’’پیارا وطن‘‘ سلسلے کے تحت ’’بابو سرٹاپ‘‘ کی شان دار سیاحت کروائی، خاصی معلومات افزا تحریر تھی۔
منیر احمد خلیلی صاحب کی یہودی تخریب کاری، جب کہ شمیم اختر کی سقوطِ ڈھاکا سے متعلق عُمدہ تحریریں پڑھ کر دلی خوشی و طمانیت حاصل ہوئی۔ ’’متفرق‘‘ اور ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ کے لکھاریوں نے تو فادرز ڈے یاد دلا دیا۔ اور’’آپ کا صفحہ‘‘ پڑھا، تو جیسے وہ عشرت جہاں کے ’’درد کا درماں‘‘ ہوگیا۔ نیلام گھر اور طارق عزیز کی یادیں، باتیں کرنا بھی دل کو قرار سا دے گیا۔ اللہ تعالیٰ تمام لکھاریوں، قارئین کو بمع منتظمین جزائے خیرعطا فرمائے۔ (ڈاکٹر محمد حمزہ خان ڈاھا، لاہور)
ج: معذرت خواہ ہیں، اگر ہم سے آپ کے خط کا متن سمجھنے میں کوئی غلطی ہوئی، لیکن یقین کریں، اِس نادانستہ عمل کے پیچھے بھی دو امور کارفرما ہیں۔ اوّل، آپ کی گنجلک تحریر، دوم، بالکل نہ سمجھ میں آنے والی ہینڈ رائٹنگ۔ آپ کا خط پڑھنا اور پھر سمجھنا اچھا خاصا دردِ سر ہے۔ لیکن بہرحال، آپ کی اِس خُوبی نے متاثر کیا کہ ہماری غلطی کی نشان دہی کرتے ہوئے بھی آپ نے اخلاق و تمیز کا دامن نہیں چھوڑا، وگرنہ عمومی طور پرایسی صُورت میں جو خطوط وصول پاتے ہیں، اُن کی زبان و بیان، بیان ہی سے باہرہوتی ہے۔
اتنی سی بات تھی، جسےافسانہ کردیا
ہمارے سمدھی مرحوم محسن بھوپالی نے فرمایا تھا ؎ کس قدر نادم ہوا ہوں مَیں بُرا کہہ کر اُسے… کیا خبر تھی جاتے جاتے وہ دُعا دے جائے گا۔ خیر، منور مرزا پچھلے ہفتے موجود نہیں تھے، تو اِس ہفتے اُن کا دو صفحات کا مضمون شامل کر کے ازالہ کر دیا گیا۔
منور راجپوت کتابوں پر بہت ہی اچھا تبصرہ کرتے ہیں۔ رائو محمد شاہد اقبال مختلف کرنسیز پر بحث کرتے رہتے ہیں، تو اب اس کرپٹو کرنسی نے تو کرنسی کی دنیا کی کرپشن میں کئی گُنا اضافہ کر دیا ہے، اِس پر کیا کہیں گے۔ ہاں، ڈاکٹر ناظر محمود بنیادی حقوق پراچھا مضمون لائے۔ چلو، اب ایک اچھا سا شعر سنو۔ ؎ کچھ کہہ کے اُس نے پھرمجھے دیوانہ کر دیا… اتنی سی بات تھی، جسے افسانہ کردیا۔ (مفتاح الحق انصاری، کراچی)
ج: بخدا کئی خطوط پڑھ کر تو ہم کافی دیر تک بس یہی سوچتے رہ جاتے ہیں کہ آخر اِس تحریر کا مقصد کیا ہے؟ نہ لکھی جاتی، تو بھی خیر ہی تھی۔ وہ آپ کے سمدھی (بقول آپ کے) ہی کا شعر ہے ناں ؎ فن کے کچھ اور بھی ہوتے ہیں تقاضے محسنؔ… ہر سخن گو تو سخن وَر نہیں ہونے پاتا۔
فی امان اللہ
خُوب صُورت شالز میں لپٹے ماڈلز (مرد و زن) دل کو خاصے بھائے۔ جنوری کے تیسرے ہفتے میں بھی گزرے سال کے مختلف موضوعات پر تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ منور مرزا، سیما ناز صدیقی، بابرعلی اعوان، طلعت عمران، ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر، راؤ محمّد شاہد، محمد ریحان، کرن صدیقی اور کلیم الدین ابوارحم نےاپنے اپنے موضوعات کے ساتھ خُوب انصاف کیا۔ عنبریں حسیب عنبر، راؤ شاہد اور کرن صدیقی کے تجزیات زیادہ دل چسپی سے پڑھے کہ موضوعات پسندیدہ تھے۔
اچھی بات ہے کہ آپ نے جنوری کے تینوں شماروں میں پورے سالِ رفتہ کا جائزہ لے ڈالا۔ کبھی یہ موضوعات ایک ہی شمارے میں بھی سمٹ جاتے تھے کہ سال نامہ 40،50 صفحات کا ہوتا تھا۔ ذوالفقار چیمہ کی ’’خُودنوشت‘‘کی سولہویں قسط بھی دل چسپ رہی۔ ایک دوجگہوں پرکچھ باتیں مناسب نہ لگیں۔ مثلاًاُنہوں نے ریڈ لائٹ ایریا سے کچھ اداکاراؤں کو پکڑا، تو فلم اسٹارکا نام نہیں لکھنا چاہیے تھا۔
اگر نام لکھنا ضروری ہی تھا، تو سینئر افسروں، سیاست دانوں اور صحافیوں کے بھی لکھے جاتے۔ ایک اداکارہ بُری ہے، تو اُس کے پاس جانے والے کیسے معتبر ہوگئے۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں رونق افروز نے چینلز کے دانش وَروں کے اِدھر اُدھر کے ہانکنے کی بات کی، میرے نزدیک تویہ نام نہاد دانش وَرمحض جگالی ہی کررہے ہوتے ہیں۔ اُن سے بہتر معلومات، دل چسپی کا سامان تو اخبارات کے کالمزمیں ہوتا ہے۔ قرات نقوی نے بھی بالکل صحیح کہا کہ شادی بیاہ میں دکھاوے کے لیے جو لاکھوں خرچ کیے جاتے ہیں، وہ محض اسراف ہے۔ لوگوں کی باتیں، طعنےچنددن ہی میں دَم توڑ دیتے ہیں۔
خُود مَیں نے اپنی شادی پر کزن کی شیروانی لے کر پہنی کہ محض ایک دن کے لیے ہزاروں کا خرچہ کیوں کروں۔ اگلےشمارے کے’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں تعلیماتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں ’’لیڈرشپ کے رہنما اصول‘‘ ایک بہترین تحریر تھی۔ ہماری لیڈرشپ ہو یا عوام، ہم قول وفعل کے بدترین تضادات کے شکار ہیں۔ ’’شام : بغاوتوں، شورشوں کی سرزمین‘‘ منیر احمد خلیلی کی حالاتِ حاضرہ اور تاریخ کا احاطہ کرتی تحریر بہت معلوماتی تھی۔
اخترالاسلام صدیقی محکمہ پوسٹ کی جاری کردہ تصاویر کا جائرہ لے رہے تھے۔ زمانۂ طالب علمی میں کچھ وقت کے لیے مجھے بھی ڈاک ٹکٹ اورسکّے جمع کرنے کا شوق رہا۔ ’’خودنوشت‘‘کی 17ویں قسط بھی شوق سے پڑھی۔ جس وکیل کا ذکرکیا گیا، ایسے لوگ معاشرے کے ناسور ہیں۔ جو نہ صرف سماج کھوکھلا کررہے ہیں بلکہ انصاف کی راہ میں بھی بڑی رکاوٹ ہیں۔
چیمہ صاحب کو اُس کا نام لکھنا چاہیے تھا کہ ان کے چہروں سے تو نقاب اُترنی ہی چاہیے۔ کنول بہزاد، ابوشحمہ اورمحمد اکرام کی تحریریں عُمدہ تھیں۔ ’’ناقابلِ فراموش‘‘ کےچاروں واقعات بھی مختصر، مگر موثر تھے۔ ’’نئی کتابیں‘‘ پر تبصرے تو ہر ہفتے دل چسپی سے پڑھتا ہوں کہ کتاب سے تعلق بچپن سے ہے۔
گزشتہ دنوں ایک نجی کالج کے سالانہ بک فیئر میں جانے کا اتفاق ہوا، دیکھ کر سخت مایوسی ہوئی کہ پورے بورے والا میں(جو سٹی آف ایجوکیشن کہلاتا ہے) کتاب خریدنے والا کوئی نہیں۔ میلے میں جو چند لڑکے، لڑکیاں آتے رہے، وہ بھی سیلفیاں لیتے، ہلّاگُلا ہی کرتے رہے۔
سعودعثمانی کا شعریاد آگیا؎ کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ رُوٹھنےکو ہے… یہ آخری صدی ہے، کتابوں سےعشق کی۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں زلیخا جاوید اصغر کا خط اچھا تھا۔ اعزازی چٹھی کو اُنہوں نے بچپن میں فرسٹ آنےکی خوشی سے منسوب کیا، یقیناً ایسا ہی ہے۔ (رانا محمد شاہد، گلستان کالونی، بورے والا)
ج: چلیں، تو پھر آج آپ بھی اسکول میں فرسٹ آنے جیسی خوشی سے لُطف اندوزہوں، اِس بات سے قطع نظر کہ آپ حقیقتاً اس ذائقے سے آشنا بھی ہیں یا نہیں۔
* میری شدید خواہش ہے کہ مَیں ماڈل بنوں اور پاکستان میں اپنا نام پیدا کرکے بین الاقوامی سطح پربھی مُلک کی نمائندگی کروں اور اِس ضمن میں پوری اُمید ہے کہ آپ میری خواہش کا احترام کرتے ہوئے مجھے ایک موقع ضرور دیں گی۔ (اللہ بخش کاٹھیا، لاہور)
ج : آپ اپنا پورٹ فولیو بھیج دیں۔ پھر دیکھتے ہیں کہ ہم آپ کی خواہش کا احترام کرنے کی پوزیشن میں بھی ہیں یا نہیں۔
* براہِ کرم اتوار کے اخبار میں ’’بچّوں کا صفحہ‘‘ مستقل طور پر شایع کرنے کا اہتمام کریں۔ کئی بار بغیر کسی وجہ کے صفحہ ڈراپ کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ مَیں اپنے بچّوں کو یہ صفحہ پڑھنے کی لازماً تاکید کرتا ہوں۔ اور اگر ’’سنڈے میگزین‘‘ میں بھی کچھ جگہ مستقل طور پربچوں کے لیے وقف ہوجائے، تو کیا ہی اچھا ہو۔ (محمد اقبال)
ج: ہم بحیثیت ایڈیٹر، ’’سنڈے میگزین‘‘، صرف اِسی جریدے کی بابت سوال و جواب کے پابند ہیں۔ بڑے رنگین صفحات کی تیاری، اشاعت، عدم اشاعت ہمارے ذمّےنہیں۔ رہی بات، ’’سنڈے میگزین‘‘ میں بچّوں کے لیے کچھ جگہ مختص کرنے کی، تو ایک بڑے رنگین صفحے کی اشاعت کے بعد یہ بھی ممکن نہیں۔ اورہاں، یہ بات بھی گرہ سے باندھ لیں کہ کوئی بھی صفحہ بلاوجہ ہرگز ڈراپ نہیں کیا جاتا۔
* صفحہ ’’نئی کتابیں‘‘ میں ایک ری ویو شایع کیا گیا، جس میں کتاب کا نام ’’قلم کا رشتہ‘‘ لکھا گیا، درحقیقت کتاب کا نام ’’قلم کاشتہ‘‘ ہے۔ پھر کتاب کی قیمت میں بھی نمایاں غلطی نظر آئی، جب کہ ابتدائی پیرے میں ’’قلم کاشتہ‘‘کے بجائے مصنف کی دوسری کتاب’’تذکار بگویہ‘‘ کا تعارف پیش کیا گیا، ’’قلم کاشتہ‘‘کا ذکر بعد میں آیا، تو اِس ترتیب کو بھی درست ہونا چاہیے تھا، میرے خیال میں تومصنف سے تصحیح کروا کے یہ تعارف دوبارہ شائع کریں۔ (یامین خالد، نیوٹائون، ملتان روڈ، لاہور)
ج :اصلاح ورہنمائی کا بےحد شکریہ۔ آپ نے تصحیح فرما دی ہے، یقیناً قارئین نے بھی نوٹ فرما لیا ہوگا۔ سو، تبصرہ دوبارہ شایع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نیز، یہ کہ تبصرے میں مصنّف کی پہلی کتاب کا ذکر چوں کہ زیرِ نظر کتاب ہی کے تناظر میں کیا گیا، تو اِس میں ہرگز کوئی قباحت نہیں۔
قارئینِ کرام کے نام !
ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ ہمارا پتا یہ ہے۔
نرجس ملک
ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘
روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی
sundaymagazine@janggroup.com.pk