تحریر: نرجس ملک
ماڈل: حوریا انصاری
ملبوسات: Noor's Creation by Mahnoor Ali
آرائش: ماہ روز بیوٹی پارلر، کراچی
عکّاسی: ایم۔ کاشف
لے آؤٹ: نوید رشید
ڈاکٹر حنا امبرین کا شعر ہے ؎ ’’اِس جہاں میں دُکھ ذرا سا کم ہوا، تو عید ہے..... تیرگی کی راہ میں ہو اِک دیا، تو عید ہے‘‘۔ اسی طرح منصور ساحر کے اشعار ہیں ؎ ’’چندن کی پوشاک بنا لیں، چاند ہمارا اپنا ہے..... گھر آنگن میں نُور بچھا لیں، چاند ہمارا اپنا ہے..... سال میں عید منانے والو! خوشی ہماری مت پوچھو..... جب دیکھیں، تب عید منالیں، چاند ہمارا اپنا ہے۔‘‘ جب کہ عنبر شمیم کے اشعار ہیں ؎ ’’گلشنِ انسانیت میں تازگی کا نام ہے..... رشتۂ عشق و وفا میں زندگی کا نام ہے..... وہ کہ جس کے دل میں کوئی میل ہوتا ہی نہیں..... عید اِک بچّے کے چہرے پر ہنسی کا نام ہے۔‘‘
تو بھئی، یہ اپنی سویّوں، شیرخُرمے والی میٹھی عید، ’’عیدالفطر‘‘ بس کہنے ہی کو ’’چھوٹی عید‘‘ ہے، وگرنہ ہے تواتنی بڑی کہ ہفتہ بھر ہونے کو آرہا ہے اور میل ملاقاتیں، دعوتیں ضیافتیں، عید ملن پارٹیز ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔
پاکستانی قوم تو ویسے بھی دل بستگی، تفریحِ طبع کا سامان ڈھونڈتی پِھرتی ہے۔ معمول کی باتیں بھی ایونٹس، فیسٹیولز بن جاتی ہیں، تو ’’عیدین‘‘ تو پھر اپنے مسلمہ تہوار ہیں۔ بارش کی چاربوندیں پڑیں، موسم خوش گوار ہو جائے، بسنت بہار کی آمد ہو، شادی بیاہ سیزن یا کرکٹ کا موسم جوبن پہ آئے، سالِ نو کا جشن ہو یا یومِ آزادی اور دیگر قومی دِنوں کی سیلیبریشنز..... بس، اِک موقع ملنے کی دیر ہوتی ہے اور ایّام کی مناسبت سے تقریبات کی گویا سیریز، خُوب ہلا گُلّا، شورہنگامہ بپا ہو جاتا ہے۔
خاص طور پر اِن سلیبریٹیز، شوبز اسٹارز، یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا انفلوئنسرز وغیرہ نے تو ’’روزمرّہ‘‘ کوبھی گویا ’’تیج تیوہار‘‘ ہی کردیا ہے۔ تو ایسے میں اگر عیدالفطر اورعید الاضحٰی کے دس، پندرہ یوم بعد بھی ’’عید ملن پارٹیز‘‘ کا شوروغوغا رہے، توکیاہی مضائقہ ہے۔ ایسی گیٹ ٹو گیدرز، گیدرنگز، کھانے پینے کی دعوتوں کے سبب کم از کم نسلِ نو اپنی ورچوئل، ڈیجیٹل لائف سے فزیکل ورلڈ، حقیقی زندگی کی طرف تو آتی ہے۔ پھر چاہے مِل بیٹھنے کے مواقع بھی سیلفیز، تصویریں پوسٹ کرنے، اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کرنے اور رنگارنگ اسٹریکس بنانے کے بہانے ہی کیوں نہ بن جائیں۔
حال ہی میں خوش باش ممالک سے متعلق ایک رپورٹ شایع ہوئی ہے، جس کے مطابق پچھلے آٹھ برس سے فِن لینڈ کے باشندے دنیا کے سب سے زیادہ خوش رہنے والےافراد ہیں۔ اس ’’ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ فار 2025ء‘‘ میں فِن لینڈ کے بعد ڈنمارک، آئس لینڈ اور سویڈن کے عوام کو دنیا کے خُوش باش ترین، ہنستے مُسکراتے، زندگی کا بھرپور لُطف اٹھاتے افراد کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور اِس گیلپ سروے میں خوشی و مسرت کے جو پیمانےمقررکیے گئے، وہ محض دولت، طاقت، تعمیر و ترقی وغیرہ نہیں ہیں بلکہ حقیقی، سچّی، قلبی و ذہنی خوشی کے معیارات صحت کی دولت، بے لوث الفت و محبت، ہم دردی و خیرخواہی، امن و مساوات اور تحمّل و برداشت وغیرہ کو مانا گیا ہے۔
یاد رہے، اِن خُوش باش ممالک کی درجہ بندی میں امریکا، جو 2012ء میں گیارہویں نمبر پر تھا، اب24 ویں نمبر پرآچُکاہے، جب کہ برطانیہ بھی آہستہ آہستہ کم ترین سطح پر آکر 23 ویں نمبر کا حامل ٹھہرا اور اِس ضمن میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ خوشی و مسرت کے اِس ترازو میں ’’اکٹھے بیٹھ کے کھانا کھانے‘‘ کو بھی راحت و سُکون کےحصول کا ایک بڑا سبب مانا گیا ہے، جیسا کہ حالیہ فہرست میں امریکا کی تنزلی کی بڑی وجہ یہ ٹھہری کہ وہاں پچھلی دو دہائیوں میں اکیلےکھانا کھانےوالوں کی تعداد میں تقریباً 53 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ خیر، بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ آمدم برسرِمطلب، ہمارے یہاں اِن دنوں مِل بیٹھ کے کھابے کھانے کی رُت پورے عروج پر ہے۔ نسلِ نو کے انداز میں کہیں، تو آج کل عید ملن پارٹیز کا سین فُل آن ہے۔
اور جب..... بات ہو کہ ؎ ’’تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے‘‘ تو ہمارا بھی کہنا بنتا ہے کہ ؎ ’’سیکھے ہیں مہہ رُخوں کے لیے ہم مصوّری‘‘، تو آج ہم، آپ کے ’’میل ملاقات‘‘ کے اِن بہانوں کے لیے خلّاقی و مصوّری کے جو نموے یک جا کر لائے ہیں، اُس میں چُنری اسٹائل نمایاں ہے۔ عنّابی کے ساتھ ڈارک اورنج رنگ کے کامبی نیشن میں چُنری طرزخُوب صُورت پہناوا ہے، تو جینز رنگ اسٹائلش ڈریس پر ایمبرائڈری کا جلوہ بھی خُوب بہار دِکھا رہا ہے۔
گلابی، سبز اور آف وائٹ کے حسین تال میل میں دل کش ایمبرائڈرڈ لباس کے اندازِ جداگانہ کی بات کچھ الگ ہے، تو فیروزی اوررائل بلیو کا کامبی نیشن بھی کسی قدر چُنری طرز ہی ہے۔ گہرے زرد رنگ کے ساتھ چٹاپٹی شلوار کے حُسنِ دل آویز کے بھی کیا ہی کہنے۔ جب کہ بزمِ خاص کا سب سے حسین و دل نشین انداز غرارہ اسٹائل ٹرائوزر کے ساتھ سیاہ رنگ کا چُنری طرز ایمبرائڈرڈ فراک ہے۔
اِن رنگ و انداز سے خُوب سج سنور کے کسی ’’عید ملن پارٹی‘‘ میں جائیں گے، تو گویا ایک بار پھر عید ہی ہوجائے گی۔ سب سکھیوں سہیلیوں نے تو پھر ہم آواز ہوکر گنگنانا ہی ہے؎ موسم، خوشبو، رنگ، دھنک کے منظر سارے اُس کے تھے..... رات کی کالی چھایا میری، چاند ستارے اُس کے تھے..... بیچ سمندر بخت ہمارا، ساحل تک یہ آتا کب..... موجِ ہوا پہ نام تھا اُس کا، دُور کنارے اُس کے تھے .....سہمی سہمی گونگی بہری ایک گجریا میری تھی..... ہنستے گاتے، دھول اُڑاتے راج دلارے اُس کے تھے۔