مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے بڑے بھائی، سیّد قیام الدین، قیام نظامی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ بچپن ہی سے شرافت، دیانت اور نرم مزاجی سے بھرپور شخصیت کے حامل تھے۔ دورانِ تعلیم خود بہت محنت کرتے رہے اور جب ہمیں پڑھانے لگے تو محبت و شفقت کا پیکر بن گئے۔ درس و تدریس ہمیشہ اُن کا شوق رہا اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے مجھے اپنےکندھوں پر بٹھایا، پڑھنا، لکھنا سکھایا۔ تقریریں کرنا بھی مَیں نے اُن ہی سے سیکھا۔ اُن کے جتنا نرم مزاج شخص مَیں نے اپنی زندگی میں شاید ہی دیکھا ہو ویسے ہم نے انُھیں قہقہہ لگاتے بھی شاذو نادر ہی دیکھا۔
جب خوش ہوتے، توبس مسکرادیتے۔ کسی نکتے پر بات کرتے، تو دلائل کے ساتھ۔ کوشش کرتے کہ کسی کے ساتھ بحث میں نہ الجھیں۔ نرم گوئی کا یہ حال کہ اختلاف کرنے والوں سے بھی انکساری سےپیش آتے۔ بچپن میں مجھے میلے میں لے کر جاتے تو سارے مناظر بآسانی دکھانے کے لیے اپنے کاندھے پر بٹھالیتے۔ ہمارے گھر سے اسکول خاصا دُور تھا۔ گھر سے دو سائیکلیں چلتی تھیں۔ ایک قیام بھائی چلاتے اور مَیں اُن کے سامنے بیٹھتا، جب کہ دوسری امام بھائی چلاتے اور پیچھے کیریئر پر اشرف بھائی بیٹھتے۔ قومی تہوار کے مواقع پر چراغاں دکھانے کے لیے بھی یہی دونوں بڑے بھائی اپنی اپنی سائیکلوں پرلے کے جاتے۔
مذہبی اور قومی تہواروں کے موقعے پر گھر سجانے کے لیے قیام بھائی ہمیں رنگ برنگی جھنڈیاں اور دیگر سامان لا کردیتے اور بتاتے کہ کیسے اور کب کون سا کام کرنا ہے۔ سوچتا ہوں تب میں اور بعد میں کتنا فرق آگیا تھا۔ بچپن میں، مَیں جن کے اشاروں پر چلتا تھا، بعد میں وہ ہر گھریلو مسئلے پر میرے فیصلے کے منتظر ہوتے۔ اولاد کی شادی بیاہ کے معاملات ہوں یا کوئی خاندانی اونچ نیچ، وہ بڑے ہونے کے باوجود مجھے ہر مشورے میں شامل رکھتے۔ مَیں جب امریکا جانے لگا، تو زارو قطار رونے لگے۔ اپنے بیٹوں سے کہتے ’’ارشد، میرا بازو ہے۔‘‘
قیام بھائی ہمیشہ سے میرے آئیڈیل تھے۔ وہ میرے مربّی سرپرست، دوست، بھائی سب کچھ تھے۔ اسکول میں بھی میرے استاد ہوئے اور گھر پرٹیوٹر تو تھے ہی، اسکول کے زمانے ہی سے مجھ سے چھوٹے چھوٹے مضامین لکھواتے، تقریروں کی پریکٹس کرواتے۔ مَیں نے ڈھاکا اور پھر کراچی کے جلسوں میں وہ مناظر بھی دیکھے، جن میں، مَیں اسٹیج پر بیٹھتا، مائیک پر تقریر کررہا ہوتا اور میرا یہ عظیم بھائی مجمعے میں بیٹھا امام اور اشرف بھائی کے ساتھ میری تقریر پر تالیاں بجا رہا ہوتا۔
قیام بھائی کی ایمان داری بھی مثالی تھی کہ ان کی تربیت والدہ ماجدہ نے جو کی تھی۔ جب بھائی چھوٹے تھے، تو ایک روز گھر کے باہر کھیلتے ہوئے کوئی معمولی سا کھلونا کہیں سے اٹھا لائے۔ والدہ نے دیکھا تو پوچھا ’’کس کا کھلونا ہے؟‘‘ بھائی نے سچ بتادیاکہ فلاں بچّے کا ہے۔ والدہ نے یہ سنتے ہی غصّے سے کہا۔ ’’ابھی اُس کے گھر جاؤ اور کھلونا واپس کرکے فوراً میرے پاس آؤ۔‘‘ وہ کھلونا دے کر واپس آئے، تو والدہ نے چولھے سے جلتی ہوئی لکڑی نکالی اور اُن کی ہتھیلی پر رکھ دی۔(وہ جلنے کانشان وفات تک اُن کے ہاتھ پر موجود تھا) اگرچہ اُس وقت اس عمل کو پڑوسیوں نے امّی کا ظلم قرار دیا، مگر بعد میں وہی بچّہ بڑا ہوکر معاشرے میں ایمان داری کی مثال بن گیا۔
اُن کے بچّے، یعنی میرے سب بھتیجے مجھ سے خاصے بے تکلف ہیں۔ پانچ برس پہلے کی بات ہے۔ میں شکاگو سے کراچی آیا ہوا تھا۔ اُن کے چھوٹے بیٹے عون احمد نظامی، جو حافظ اور عالم بھی ہیں، کسی معاملے پر مجھ سے الجھ پڑے۔ بڑے بھیّا وہاں موجود نہ تھے، مگر جب اس واقعے کی اطلاع انہیں ملی، تو اُنہیں سخت رنج ہوا۔ مجھے فون کیا اور روتےہوئے کہنے لگے کہ ’’مَیں تم سے بیٹے کی جانب سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘ میں شرم سے زمین میں گڑ گیا۔
حالاں کہ چار بھائیوں میں وہ سب سے بڑے اور مَیں سب سے چھوٹا تھا، اس کے باوجود وہ معافی مانگ رہے تھے۔ مجھ پر اعتماد کا عالم یہ تھا کہ اپنی دو کتابوں سے متعلق مسلسل فون پر بات کرتے اور مَیں جو مشورہ دیتا، مِن و عن تسلیم کرتے۔ مَیں نے وعدہ کیا کہ شکاگو واپس جانے سے پہلے ایک کتاب شائع کرواکے آپ کو پیش کروں گا، مگر وائے قسمت، وہ چلے گئے اور کتاب اُن کے انتقال کے بعد چَھپ کر منظرِ عام پر آئی۔ ہائے!بھائی نہ رہے، مگر اُن کے علم کی روشنی جہاں بھرمیں ضرور پھیلے گی۔ (احتشام ارشد نظامی، شکاگو)