مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میری پیاری والدہ سروری بیگم جب اس دارِ فانی سے رخصت ہورہی تھیں، تو وہ لمحات ہمارے لیے کشمکشِ موت و زیست سے کم نہ تھے۔ مجھے خُوب یاد ہے کہ صبحِ صادق کا وقت تھا اور وہ مسلسل تین راتوں سے جاگی ہوئی تھک ہار کر اپنے رب سے فریاد کررہی تھیں، ’’اے اللہ! تُو مجھے گہری نیند سلا دے۔‘‘ اس وقت گھر کے سب افراد ان کے پاس موجود تھے۔ ان کی سب بیٹیاں، بہوئیں اردگرد بیٹھی دُعائیں کررہی تھیں۔ سورہ یٰسین کی تلاوت جاری تھی۔ایسے میں بھی بار بار وہ اپنے ربّ کا شُکر ادا کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں۔ ’’پاک پروردگار! تُونے مجھے بہت کچھ دیا، تیرا شُکر ہے۔‘‘ وہ مسلسل بچّوں کو نصیحتیں کیے، دعائیں دیئے جارہی تھیں۔
بار بار کلمہ پڑھ کر پانی پی رہی تھیں، بچّوں کو تسلّی دے رہی تھیں کہ مجھے کوئی درد، کوئی تکلیف نہیں۔ بالآخر اذانِ فجرکے بعد اللہ تعالیٰ نے اُنھیں سکون کی ابدی نیند سُلادیا۔ بیاسی سال کی شبانہ روز محنت اور اپنے بچّوں کی تعلیم وتربیت کے لیے جُہدِ مسلسل کے بعد اب وہ اُسی ابدی سکون کی متلاشی تھیں۔ وہ واقعتاً اپنے ربّ سے ملنے کی مشتاق تھیں؎ ’’آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے.....سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے۔‘‘
میری والدہ ہم سب کو علی الصباح نمازِ فجر کے لیے اُٹھاتیں کہ ’’اُٹھ جائو، فجر کا وقت ہوگیا ہے۔،، پھر کہتیں ’’ثمینہ وضو کرلو، تو چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی باری باری اٹھادینا، مَیں ناشتا بنانے جارہی ہوں۔‘‘ بڑی بیٹی ہونے کے ناتے میں نے امّی کی کچھ ذمّے داریاں سنبھالی ہوئی تھیں۔ چھوٹا بھائی اکثر نماز کے بعد قرآنِ مجید پڑھنے میں سُستی کرتا تھا، مگر امّی کو اندازہ تھا، ابھی وہ نماز پڑھ کر لیٹا ہی ہوتا کہ امّی تیزی سے کچن سے نکل کر آتیں اور اُسے بٹھا کر خود اُس کے آگے قرآن کھول کر رکھ دیتیں اور کہتیں ’’چاہے ایک رکوع ہی پڑھو، مگر پڑھنا ضروری ہے۔‘‘
نماز، قرآن کے ساتھ ہم سب کی خوراک پر بھی اُن کی خصوصی توجّہ ہوتی، پہلے سیب، پھر دودھ کے ساتھ ناشتا، بچپن میں ہم بہن، بھائیوں کو چائے بالکل نہ دیتی تھیں۔ اسکول جانے سے پہلے اُن کی بنائی ہوئی خصوصی پھکّی بھی ایک چمچ کھانا لازمی ہوتی تھی۔ چار مغز، بادام اور دکنی مرچوں کا بنا ہوا یہ سفوف وہ ہمارے ذہنوں کو تیز کرنے کے لیے کِھلاتی تھیں۔ ہمارا اسکول گھر سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر تھا، اس لیے یہ ناشتا ہمیں تازہ دَم رکھتا۔
امّی نے اپنی زندگی میں بڑے نشیب وفراز دیکھے۔ بابا کاروبار کرتے تھے، ہمارے بچپن میں تو بابا کے کاروباری حالات بہت اچھے تھے۔ گھر کے ہر کام کے لیے ماسی لگی ہوئی تھی، یہاں تک کہ ہانڈی میں ڈالنے کے لیے مسالا تک وہ سِل پر پیس کر امّی کو دیتی تھی۔ گھر میں بچّوں کے کپڑے، دیگر ضروریاتِ زندگی اور پھل فروٹ وغیرہ بھی وافر مقدار میں آتے تھے۔ سال میں کم از کم ایک دفعہ ہم سب سیر و تفریح کے لیے کراچی سے باہر ضرور جاتے۔ ہمارے بابا کو گھومنے پھرنے اور دوست بنانے کا بہت شوق تھا۔
مگر حالات سداایک جیسے کہاں رہتے ہیں۔ تاہم، نشیبِ زمانہ کے بعد بھی امّی کے مزاج میں فرق نہ آیا۔ پہلے خوش حالی میں ربّ کے حضور ادا کیا جانے والا شُکر اب مزید بڑھ گیا۔ وہ شوہر کی خدمت اور بچّوں کی پرورش میں ایسی مگن رہتیں کہ احساس بھی نہ ہوتا کہ اُن کے پاس کپڑوں یا گھر کے دوسرے سامان کی کچھ کمی ہوگئی ہے۔ وہ ہمیں ہمیشہ تاکید کرتیں کہ ’’اپنے سے نیچے والوں کو دیکھو گے، تو خوش رہو گے۔‘‘ ہماری اسکول واپسی سے پہلے وہ گھر کا سارا کام نمٹا چکی ہوتیں۔
کھانا ہمیں تیار ملتا، اُن کی تربیت کے مطابق ہم سب نہا دھو کر پہلے نماز پڑھتے، پھر سب مل کر کھانا کھاتے۔ امّی کے ہاتھ میں ایسا ذائقہ تھا کہ دال بھی مزہ دیتی تھی۔ کھانے کے بعد امّی کچھ دیر کے آرام کے بعد ہمیں پڑھانا شروع کردیتیں، وہ زیادہ پڑھی لکھی تو نہ تھیں، صرف میٹرک ہی کر رکھا تھا، مگر بچّوں کو اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی لگن نے انہیں سکون سے بیٹھنے نہ دیا۔
ہم پانچ بہن بھائیوں کے ساتھ انہوں نے گویا پانچ دفعہ میٹرک کیا۔ جہاں انہیں اپنے اندر کوئی کم زوری محسوس ہوتی، خاندان کے لائق بچّوں کے نوٹس لاکر فوٹو اسٹیٹ کروا کر اُن سے مدد لیتیں۔ جس زمانے میں ہمارے امتحانات ہوتے، تو نہ وہ خود خاندان کی کسی تقریب میں جاتیں اور نہ ہی اپنے گھر کسی کو مدعو کرتیں۔ سب خاندان والوں کو بھی اُن کی اس لگن و جستجو کا پوری طرح اندازہ تھا۔ تب ہی آج عزیز و اقارب اور سب ملنے جلنے والے اُن کی قربانیوں کو یاد کرتے ہیں۔
امّی کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد مَیں سوچتی ہوں کہ اُنھوں نے جان توڑ محنت کی، مگر بھروسا ہمیشہ اپنے ربّ پر کیا، بچّوں کو امتحان کے لیے بھیجنے کے بعد وہ مصلّیٰ سنبھال لیتیں، نوافل، منّتیں مانتیں اور ہمارے لوٹنے پر جب تک ہم سے پورے پرچے کا احوال نہ پوچھ لیتیں، انہیں چین نہیں آتا تھا۔آج ہم سب بہن بھائی اللہ کے فضل و کرم سے جس مقام پر ہیں، یہ الله کے کرم کے ساتھ ساتھ اُن ہی کی محبّت اور محنت کے مرہونِ منّت ہے۔ امّی صلہ رحمی میں بھی پیش پیش رہتیں، ہم لوگ اپنے تایا ابّو کے ساتھ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے تھے۔ برابر میں پھوپھو اپنی فیملی کے ساتھ رہتی تھیں۔
امّی سب کے ساتھ مل جُل کر چلتی تھیں۔ سب کے دُکھ درد میں کام آنا اُن کی عادت تھی۔ تایا کے انتقال کے بعد ہماری تائی بیس سال تک حیات رہیں، وہ عُمر میں امّی سے کافی بڑی اور بے اولاد تھیں، اکثر بیمار رہتیں، تو امّی ان کی خدمت اور تیمار داری میں کبھی کوئی فرق نہیں آنے دیتیں۔ جب کہ ہماری دادی بھی کافی ضعیف تھیں اور تقریباً سو سال کی عُمر میں ٹانگ کی ہڈی ٹوٹنے اور کافی دن بستر پر رہنے کے بعد اُن کا انتقال ہوا۔
امّی نے اُن کی بھی اتنی خدمت کی کہ انتقال سے کچھ پہلے انھوں نے امّی کو بلا کر پاس بٹھایا اور اُن کے ہاتھ چومے۔ امّی اکثر اس بات کا ذکر کرتی تھیں کہ یہ بات اُن کے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھی۔ اورانھوں نے ابّو کی خدمت بھی ایسی کی کہ ہارٹ اور اپینڈکس کے آپریشن کے بعد وہ جلد ہی صحت یاب ہوگئے۔ لوگ ہنس کے پوچھتے تھے کہ’’ میاں!کس چکّی کا آٹا کھا رہے ہو؟،، بابا دو وقت ہی کھانا کھاتے تھے، ایک ناشتا کرتے اور پھر رات کو جب دیر سے گھر آتے، تب کھانا کھاتے۔
امّی سارے دن کے کاموں سے تھک کر سو جاتیں، مگر بابا کے آتے ہی یک دَم چاق چوبند ہوجاتیں۔ ایک تازہ روٹی توے پر ڈال کر کھانا دے دیتیں اور دوسری روٹی اُس وقت ڈالتیں، جب دو نوالے رہ جاتے،کیوں کہ بابا کو گرم گرم روٹی پسند تھی۔ پھر جب تک بابا کھانا ختم کرتے، امّی پھل چھیل کر صاف کرکے رکھ دیتیں۔ اگر کینو ہوتے، تو ایک ایک پھانک الگ کر کےیا انگور کا ایک ایک دانہ جدا کرکے رکھتیں۔
خاندان میں اگر کسی کی ناراضی ہوجاتی تو سمجھا بُجھا کر صلح صفائی کروادیتیں۔ جس دیورانی یا جیٹھانی کو شاپنگ پر جانا ہوتا، وہ امّی ہی کی خدمات لیتی۔ کسی کے گھر کوئی بھی تقریب ہوتی، امّی نہایت خوش دلی سےشرکت کرتیں۔ سب سسرال والے اُن کی بہت عزّت کرتے اور وہ بھی اکثر کہتیں کہ مجھے میکے سے زیادہ سسرال والوں سے محبت و عزت ملی ہے۔
ہم تو اُن کی اولاد ہیں، اس لیے اُن کی جدائی ہمیں خون کے آنسو رُلا رہی ہے، مگر تمام رشتے دار، ملنے جلنے والے بھی اُن کی اچھی عادات کے باعث انھیں بہت اچھے الفاظ ہی سے یاد کرتے ہیں۔ آہ امّی! نظروں سے اوجھل ہوگئیں، مگر دل و دماغ میں زندئہ جاوید ہیں۔ اُن کی نصیحتیں، اُن کی آواز آج بھی کانوں میں گونجتی ہے۔ اے اللہ! تُو میری امّی کی مغفرت فرما، اُن کی حسنات قبول کر، درجات بلند فرما اور ہمیں اُن کے لیے بہترین صدقہ جاریہ بنادے۔ (آمین) (ثمینہ نعمان)