بِھٹ آئی لینڈ، کراچی کا ایک قدیم جزیرہ ہے، جہاں تقریباً تین سو برس سے لوگ رہتے چلے آ رہے ہیں۔ آج بھی یہاں1300 کے لگ بھگ مکانات ہیں، جن میں ایک اندازے کے مطابق دس ہزار افراد رہتے ہیں۔ بِھٹ اور بابا آئی لینڈز کا شمار آبادی کے لحاظ سے دنیا کے گنجان آباد جزائر میں کیا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر یہاں کچھی کمیونٹی مقیم ہے، جب کہ کچھ گھر دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والوں کے بھی ہیں، جو وہاں دہائیوں سے رہ رہے ہیں۔
اِس جزیرے کا رقبہ0.16 مربع کلو میٹر ہے اور وہاں تک رسائی صرف کشتی ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ سو، ہم مِنی بس ڈبلیو-11کے ذریعے پہلے کیماڑی پہنچے اور پھر وہاں کی جیٹی سے ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ یاد رہے، کیماڑی جیٹی سے منوڑا، شمس پیر، بابا اور بِھٹ جزائر کے لیے مسافر کشتیاں چلتی ہیں، جن میں سوار ہونے سے پہلے اچھی طرح تصدیق کرلینی چاہیے کہ وہ آپ کے مطلوبہ جزیرے ہی پر جارہی ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کسی اور جزیرے پر جا پہنچیں۔یہاں اِس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ عموماً’’بابا بِھٹ‘‘ جزیرے کا نام استعمال کیا جاتا ہے، حالاں کہ یہ دونوں الگ الگ جزائر ہیں۔
یعنی بابا الگ اور بِھٹ ایک الگ جزیرہ ہے۔اگر جیب اجازت دے،تو کیماڑی سے کرائے پر کشتی حاصل کر کے بھی کسی جزیرے پر جایا جاسکتا ہے، لیکن ہم نے عام مسافر کشتی ہی کو ترجیح دی تاکہ لوگوں سے بات چیت کا موقع مل سکے۔ جب کشتی مسافروں سے پوری طرح بَھر گئی، تو زوردار شور کے ساتھ اُس کا انجن اسٹارٹ ہوا اور ہم سمندر کی لہروں پر آگے بڑھنا شروع ہوگئے۔ کیا دل فریب منظر تھا۔ آس پاس سے تیز رفتار کشتیاں ایک شان سے گزر رہی تھیں، تو کہیں ماہی گیر شکار کے لیے جال تیار کرتے نظر آئے۔
ہم اِس شوق میں کشتی کے ناخدا(ڈرائیور) کے ساتھ بیٹھ گئے تھے کہ اُن سے کچھ معلومات بھی حاصل کرتے رہیں گے، مگر انجن کے کان پھاڑتے شور نے سارا مزہ کِرکِرا کردیا۔کشتی کچھ ہی آگے بڑھی تھی کہ ایک صاحب کرایہ وصول کرنے کھڑے ہوگئے۔ فی کس پچاس روپے کے لیے وہ جس طرح چلتی، جُھولتی کشتی میں ایک سے دوسری طرف جا رہے تھے، وہ اُنہی کا جگرا تھا۔
چند منٹ بعد جزیرہ بِھٹ نظروں کے سامنے تھا کہ یہ کیماڑی جیٹی سے زیادہ مسافت پر نہیں ہے، محض پندرہ منٹ ہی میں آپ وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ جزیرے سے متعلق پہلا تاثر تو بہت اچھا تھاکہ سمندر کے وسط مسجد کا بلند مینار دیکھ کر رُوح تک سرشار ہوگئی۔جزیرے پر پختہ مکانات کے ساتھ کئی جھونپڑی نُما مکانات بھی اپنی خستہ حالی کی رُوداد سُناتے دِکھائی دیئے۔
ڈرائیور نے انجن بند کیا اور بڑی مہارت سے اپنی کشتی، دیگر کشتیوں کے برابر لگا دی۔یہ اِس بات کا اعلان تھا کہ منزل آچُکی ہے۔ مسافر اُٹھ کھڑے ہوئے، جن میں خواتین اور بچّوں کی بھی کافی تعداد تھی اور اُن کشتیوں پر پاؤں رکھتے پختہ سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگے تاکہ جزیرے میں داخل ہوسکیں۔ ہمارے لیے یہ خاصا مشکل مرحلہ تھا کہ چلتے ہوئے کشتی جُھولتی، تو ہم ڈگمگا کر گرنے لگتے اور کوئی سہارا بھی نہیں تھا، مگر جیسے تیسے یہ مرحلہ طے کر ہی لیا۔
ایک گلی کے ذریعے جزیرے میں داخل ہوئے، تو راستے کے دونوں اطراف مختلف اشیاء کی دُکانیں تھیں، مگر اُن پر گاہک کم ہی نظر آئے۔ خیر، اگلا منظر بھی بڑا خوش کُن تھا کہ اِس گلی کا اختتام ایک بڑے چوک پر ہوا، جہاں چاروں طرف پختہ چبوترے بنے ہوئے تھے،جن پر بڑی عُمر کے درجنوں افراد بیٹھے آپس میں گپ شپ کر رہے تھے، جب کہ کچھ ٹولیوں کی صُورت مختلف کھیل، کھیلتے دِکھائی دیئے۔یہاں نصب ایک تختی کے مطابق اِس دِھکے کا افتتاح، ممتاز علی بھٹّو نے بطور وفاقی وزیرِ مواصلات25 جولائی 1976ء کو کیا تھا۔
ہم نے وہاں رُک کر ایک ادھیڑ عُمر شخص سے جزیرے کے مختلف مقامات سے متعلق کچھ معلومات حاصل کیں۔چوک کے ایک طرف وہاں کا قدیم ہوٹل تھا، جس کے سامنے ایک نہایت خُوب صورت مسجد بھی موجود تھی، جب کہ مسجد کی برابر کی گلی میں ایک بزرگ کے مزار کا بتایا گیا، سو ہم اُس طرف چل دیئے۔ کتبے کے مطابق، یہ مزار حضرت سیّد قاسم شاہ بخاریؒ کا ہے، جن کی وفات 1290 ہجری، 1870ء میں ہوئی۔ فاتحہ خوانی کے بعد ایک بار پھر قدیم ہوٹل کی طرف آئے اور اُس کے سامنے والی گلی میں چہل قدمی شروع کی، جو ایک طویل گلی ثابت ہوئی۔
یہاں بھی دونوں طرف دُکانیں ہی دُکانیں تھیں، جن میں زیادہ تر عام استعمال کی اشیاء کی تھیں۔ اِس بازار میں بھی گاہک کم ہی نظر آئے، جب کہ مرکزی گلی سے دائیں، بائیں مزید گلیاں نکل رہی تھیں، جن میں قطار در قطار مکانات تھے۔ لوگوں کا رہن سہن دیکھتے ہوئے معروف لکھاری، اعجاز منگی کا ایک اقتباس یاد آگیا’’ وہ لوگ جو مچھلیاں پکڑتے ہیں اور حالات کے جال میں پھنسی ہوئی مچھلیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جیتے ہیں، اُن کی زندگیوں کا المیہ یہی ہے کہ وہ نہ تو اس جال سے نکل سکتے ہیں اور نہ اس کراچی میں بس سکتے ہیں، جسے’’انسانوں کا سمندر‘‘ کہا جاتا ہے۔‘‘
ہم حاجی قاسم بھٹّی، عرف قاسو ادھارا کے ڈیرے سے( جن کا تفصیلی تعارف الگ باکس میں موجود ہے)آگے بڑھے، تو سڑک کنارے ایک نوجوان سبزی فروخت کر رہا تھا۔ قیمت معلوم کی، تو اندازہ ہوا کہ سبزیوں کی قیمتیں کراچی کی نسبت کہیں زیادہ ہیں۔ وہیں ایک بزرگوار بھی کھڑے تھے، اُن سے بات ہوئی، تو بولے’’ بیٹا! چار ماہ سے کوئی کام نہیں ہے۔ دو ڈھائی لاکھ روپے خرچ کرکے لانچ شکار پر جاتی ہے، تو اکثر اوقات خالی ہی لَوٹتے ہیں، خرچ بھی پورا نہیں نکلتا۔‘‘
وہیں ایک طرف تختی آویزاں تھی، جس پر درج تھا۔’’تعمیرِ کراچی پروگرام، 14.5کلومیٹر طویل پی ای پائپ لائن کی تنصیب، زیرِ سمندر فراہمیٔ آب کا منصوبہ برائے بِھٹ آئی لینڈ، افتتاح بدستِ مبارکہ، ڈاکٹر عشرت العباد خان(گورنر سندھ)، کام کی منصوبہ بندی، نگرانی اور تکمیل، سیّد مصطفیٰ کمال، سٹی ناظم، فروری2008ء‘‘اور مزے کی بات یہ ہے کہ اِسی مقام پر دو نوجوانوں کو دیکھا، جو ہاتھ گاڑی(ٹرالی) پر پانی کے بڑے بڑے کین رکھے جا رہے تھے۔’’ کیا یہاں پانی نہیں ملتا؟‘‘
اِس سوال پر اُنھوں نے بتایا’’یہاں میٹھے پانی کا بہت مسئلہ ہے، بَھر بَھر کے تھک گئے اور یہ پانی بہت منہگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔‘‘وہیں ایک بڑی سی حویلی دِکھائی دی، جس کے متعلق پتا چلا کہ وہ وزیرِ اعلیٰ سندھ کے معاونِ خصوصی، سردار حسین اسلم بھٹّی کی رہائش گاہ ہے۔ اِس حویلی کے باہر بھی دیوار کے ساتھ پختہ چبوترے تھے، جن پر کافی افراد بیٹھے ہوئے تھے۔
راہ چلتے کسی نے بتایا کہ’’ وہ سامنے علاقے کے کاؤنسلر بیٹھے ہوئے ہیں‘‘تو ہم نے موقع غنیمت جانا اور اُن کے پاس پہنچ گئے۔ عبدالکریم لودھیا ضلع کیماڑی کی یونین کاؤنسل11سے(جو بِھٹ، بابا، صالح آباد، شمس پیر جزائر اور ککا ویلیج پر مشتمل ہے) پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر بلدیاتی کاؤنسلر ہیں، جب کہ 2024ء کے عام انتخابات میں یہاں سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر عبدالقادر پٹیل قومی اسمبلی اور محمّد آصف خان سندھ اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے تھے۔ویسے دیواروں پر چاکنگ اور جگہ جگہ لگے جھنڈوں سے اندازہ ہوا کہ تقریباً تمام ہی مذہبی و سیاسی جماعتیں اِس جزیرے پر سرگرم ہیں۔
عبدالکریم لودھیا نے عوام کو درپیش مسائل سے متعلق بتایا کہ’’یہاں بھی وہی مسائل ہیں، جو باقی کراچی کے ہیں، لیکن آپ گھوم پِھر کر لوگوں سے پوچھ لیں کہ ہماری جماعت، پاکستان پیپلز پارٹی عوامی مسائل کے حل کے لیے کیسے کوشاں ہے۔ اب پارٹی نے ہمارے سردار، حسین اسلم بھٹّی کو وزیرِ اعلیٰ سندھ کا معاونِ خصوصی مقرّر کیا ہے، جو بہت تیزی سے عوامی مسائل حل کر رہے ہیں۔‘‘
میٹھے پانی کی کم یابی کے ضمن میں اُن کا کہنا تھا کہ’’محترمہ بے نظیر بھٹّو 1988ء میں یہاں تشریف لائیں،جس کے دَوران اُنھوں نے نیٹی جیٹی کے پاس سے یہاں پانی پہنچانے کے منصوبے کا بھی اعلان کیا۔ تو وہاں سے بھی پانی آتا ہے، جب کہ کچھ اور ذرایع سے بھی پانی ملتا ہے، مگر اب بھی اِس شعبے میں کام کی بہت ضرورت ہے اور ہم کر بھی رہے ہیں۔‘‘ ایک مذہبی جماعت کے کارکن نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر اِسی حوالے سے بتایا کہ’’اکتوبر 2023ء میں میئر کراچی، بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے بابا اور بِھٹ جزائر کے لیے آر او پلانٹ فعال کرنے کا اعلان کیا تھا، جس سے یومیہ35 ہزار گیلن پانی فراہم کیا جانا تھا، مگر ایسا ہوا نہیں، لوگ آج بھی پانی کو ترس رہے ہیں۔‘‘
یہاں کے باسیوں کے ذریعۂ معاش سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال پر عبدالکریم لودھیا نے بتایا۔’’یہاں کی ننانوے فی صد آبادی ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہے اور سال کے تین، چار ماہ اُن کے لیے کڑی آزمائش کے ہوتے ہیں کہ جس دَوران خراب موسم کے سبب اُن کا کام تقریباً بند ہوجاتا ہے۔‘‘ جزیرہ بِھٹ کے دس ہزار سے زاید باسی گیس کی سہولت سے تقریباً محروم ہی ہیں کہ پائپ لائنز بُری طرح ٹوٹ پُھوٹ کا شکار ہیں۔ عموماً لوگ کھانا پکانے کے لیے لکڑیاں جلاتے ہیں یا پھر گیس سلینڈرز استعمال کرتے ہیں۔اِسی طرح یہاں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ بھی مستقل دردِ سر ہے۔ دن میں 18، 18گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے۔
اگر واجبات کا کوئی مسئلہ ہے، تب بھی اُسے علاقے کے منتخب نمایندوں اور دیگر معزّزین کی مدد سے حل کیا جانا چاہیے تاکہ عوام کی اِس اذیّت سے تو جان چُھوٹے۔ جزیرہ بِھٹ کی کئی عمارتوں پر سولر پینلز بھی لگے دیکھے۔ اِس ضمن میں احمد کچھی نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ’’اِن میں سے بیش تر سولر پینلز مختلف اداروں کی جانب سے مفت فراہم کیے گئے ہیں، جب کہ یہاں کئی سماجی تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں، جن کے تحت راشن فراہمی کے ساتھ طبّی کیمپس وغیرہ بھی لگتے رہتے ہیں۔‘‘
مرکزی بازار میں گھومتے ہوئے ہماری نظر ایک اسکول پر پڑی، جس پر ’’گورنمنٹ اردو گرلز/بوائز سیکنڈری اسکول‘‘ کا بورڈ آویزاں تھا اور اس پر کندہ تحریر کے مطابق، یہ اسکول 1923ء میں قائم کیا گیا تھا۔ چُھٹی ہونے کی وجہ سے عمارت کے اندر نہیں جاسکے۔ اِسی طرح یہاں ایک ڈسپینسری بھی قائم ہے، مگر زیادہ تر افراد اُس کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آئے۔ایک اچھی بات یہ دِکھائی دی کہ صفائی کا نظام توقّعات کے برعکس کافی اچھا تھا۔ ہم نے مختلف گلیوں میں سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کی وردیوں میں ملبوس عملے کو صفائی ستھرائی کے کاموں میں مصروف پایا، جب کہ گلیوں کو پختہ کرنے کا کام بھی جاری تھا۔
ایک گلی کے باہر کھڑے چند افراد سے ہماری بات چیت ہوئی، تو وہ ترقیاتی کاموں پر خاصے خوش تھے۔ضلع کیماڑی کی یونین کاؤنسل11 میں شامل بِھٹ اور دیگر جزائر سے متعلق ایک خُوش کُن خبر یہ بھی سُننے کو ملی کہ یہاں کرائم ریٹ تقریباً صفر ہے۔
متعلقہ تھانے میں کبھی کبھار ہی یہاں سے متعلق کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے کہ زیادہ تر معاملات جزائر کے بوڑھے بڑے آپس ہی میں مِل جُل کر حل کرلیتے ہیں۔ بلاشبہ، جزیرہ بِھٹ ہمارا ایک قومی، تاریخی وَرثہ ہے، مگر بدقسمتی سے اِسے مسلسل نظرانداز کیا جارہا ہے۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ اِس جزیرے کے لیے کوئی خصوصی پیکیج تیار کیا جائے، جس کے تحت ایک طرف صدیوں پرانی تاریخ و ثقافت محفوظ رہ سکے، تو دوسری طرف، یہاں کے باسیوں کو بھی بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں۔
بِھٹ آئی لینڈ کے مرکزی چوک سے تھوڑا آگے جائیں، تو دائیں ہاتھ پر لکڑی کے تختوں سے بنی ایک قدیم عمارت ہے، جو’’ملنگ ہوٹل‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ یہ ہوٹل 1865ء میں بنایا گیا تھا اور آج بھی اس کا وہ قدیم اسٹرکچر موجود ہے۔ ہم ہوٹل میں داخل ہوئے، تو وہاں لکڑی کے تختوں اور بینچز پر بہت سے لوگ براجمان تھے۔ کاؤنٹر پر موجود شخص نے ایک پرانے ملازم کو بلوایا تاکہ وہ ہمیں معلومات فراہم کرسکے۔
اُنھوں نے بتایا کہ’’ کسی زمانے میں ہوٹل کے دروازے تک سمندر تھا، مگر پھر وہ پیچھے ہٹتا گیا اور اب تو خاصا پیچھے ہٹ چُکا ہے۔‘‘اُن کے مطابق،’’ بارش میں چھت ٹپکنے لگتی ہے، جب کہ باقی ڈھانچا اب بھی ٹھیک ہی ہے اور 160برسوں کے دوران اِس میں معمولی ترامیم ہی کی گئی ہیں۔‘‘
بِھٹ آئی لینڈ کا ایک اہم کردار، حاجی قاسم بھٹّی ہے، جس نے’’قاسو اُدھارا‘‘ کی عرفیت سے شہرت پائی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں نہ صرف پاکستان بلکہ ایشیا میں سونے کا سب سے بڑا اسمگلر تھا۔ اُس سے متعلق بہت سی دیومالائی طرز کی کہانیاں مشہور ہیں۔
اِس ضمن میں کراچی کے حوالے سے ایک کتاب کے مصنّف، اقبال اے رحمٰن کا کہنا ہے کہ’’بھٹّی، کچھی برادری کے ایک خاندان یا قبیلے کی شناخت ہے، لوگ اِسے ذات بھی کہتے ہیں، مگر دراصل یہ شناخت ہے، قاسم بھٹّی اِس خاندان کے سرخیل تھے، جو60 ء کی دہائی میں جزیرہ بِھٹ میں رہتے تھے۔
لیاری کے علاقے موسیٰ لین میں اُن کا سسرال تھا۔وہ گلی، محلّے کے محنت کش تھے، کام کبھی ملتا، کبھی نہ ملتا، لہٰذا جیب اکثر خالی رہتی۔پھر یہ کہ بیڑی کا شوق رکھتے تھے، سو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بیڑی اُدھار لے کر پیتے۔ میمن اور کچھی برادری میں مختصر یا بگاڑے ہوئے ناموں سے پکارنا معمول کی بات ہے، تو وہ قاسم کی بجائے’’قاسو‘‘ کہلاتے تھے، جب کہ اُدھار بیڑی لینے کی نسبت سے اُنھیں’’اُدھارا‘‘ کی عرفیت مل گئی، اِس طرح وہ’’ قاسو اُدھارا‘‘ کے نام سے معروف ہوئے۔ جزیرہ بِھٹ میں لانچوں پر مزدوری کرتے کرتے ایک پیسنجر لانچ بنالی تھی۔
یہ وہ وقت تھا، جب خلیج کی ریاستیں ترقّی کے مراحل سے گزر رہی تھیں۔دوسری طرف، بھارت اور پاکستان میں سونے کی بڑھتی مانگ اور کھپت کے باوجود دونوں ممالک میں سونے کی درآمد ممنوع تھی، لہٰذا خلیج کی ریاستوں سے سونے کی تجارت ہوتی تھی۔ قاسو ادھارا کا خلیجی ریاستوں کی طرف آنا جانا تھا، تو اُنھیں تجارت کا یہ طریقہ سمجھ آگیا۔طبیعت میں دلیری تھی، سو اِس دریا میں کود پڑے۔
بھارت میں سونے کی زبردست کھپت تھی، تقسیم کے بعد کے فسادات کی گرد بیٹھ چُکی تھی، جنہوں نے ہجرت نہیں کی تھی، وہ وہیں تھے اور برسوں کے جانے پہچانے تھے، جن پر پہلے سے قائم اعتماد نے سونے کی ترسیل آسان بنادی اور یوں قاسو ادھارا، قاسم بھٹّی بن گئے۔ برادری اور جزیرہ بِھٹ کی غریب بچیوں کی شادی کروانے میں اُن کا کردار مثالی تھا۔
ایک موقعے پر15 بچیوں کی اجتماعی شادی کروائی، جس پر15 دن تک جزیرے میں جشن کا سماں رہا۔ اُس زمانے کے نام وَر فن کار، جن میں مہدی حسن اور میڈم نورجہاں بھی شامل تھے، بطورِ خاص اِس تقریب میں شامل ہوئے۔‘‘سلیمان عبداللہ کیماڑی اور اطراف کے علاقوں کی تاریخ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حاجی قاسم بھٹی سے متعلق اُنھوں نے بات یوں آگے بڑھائی۔’’حاجی قاسم بھٹّی کے صدرِ پاکستان، اسکندر مرزا سے بہت قریبی تعلقات تھے۔
اُن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جب بھی دورانِ سفر کوسٹ گارڈز وغیرہ کا خطرہ محسوس کرتے، تو سونا سمندر بُرد کردیتے۔ ہم نے اپنے بڑوں سے سُنا تھا کہ ایک موقعے پر جب متعلقہ سیکیوریٹی اداروں نے قاسو اُدھارا کے گرد سمندر میں گھیرا تنگ کردیا، تو اُنہوں نے سونے سے بَھری ایک لانچ سمندر میں ڈبو دی۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ پر ٹگ اور ڈریجر پر کام کرنے والے ایک سابق ملازم نے مجھے بتایا کہ اکثر ڈریجنگ کے دَوران کیچڑ سے قاسو اُدھارا کی طرف سے سمندر میں پھینکی گئی اشرفیاں نکل آتی تھیں۔یہ بھی مشہور ہے کہ ایک بار اُن کی ایک بڑی لانچ پکڑی گئی، مگر گھنٹوں کی جانچ پڑتال کے باوجود لانچ سے سونا برآمد نہ ہوسکا۔
بعدازاں، قاسو نے اُس لانچ کو اسکریپ کرکے اُس میں ٹھونکی گئی سونے کے بڑی بڑی کیلیں نکال لیں۔میرے حافظے میں 22نومبر1958 ء کی ایک خبر ہے، جس میں گو قاسو اُدھارا کا ذکر تو موجود نہیں، مگر وہ اُن ہی سے متعلق معلوم ہوتی ہے۔ خبر کے مطابق سمندر سے”مزید سات من سونا“ برآمد ہوا، اِس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ وہی سونا ہوگا، جس کا ذکر اپنے بڑوں سے سُنا تھا۔ مجھے کچھ افراد نے بتایا کہ ساٹھ کی دھائی کے ابتدائی دنوں میں چوبیس انچ قطر کی پانی کی لائن میونسپل کارپوریشن سے اجازت لینے کے بعد بھٹہ ویلیج کے لیے قاسو ادھار کے مالی تعاون سے لگائی گئی۔‘‘
ہم نے جزیرہ بِھٹ پر حاجی قاسم بھٹّی کی مجلس کا مقام دیکھا اور وہاں موجود افراد سے بات چیت کی، تو سب کو اُن کے حق میں رطب اللسان پایا۔ ہر کوئی اُن کی تعریف ہی کرتا ملا، جب کہ علاقے کے منتخب کاؤنسلر، عبدالکریم لودھیا نے اِس بات سے اختلاف کیا کہ حاجی قاسم بھٹّی کا نام’’ قاسو اُدھارا‘‘ چیزیں اُدھار لینے کی وجہ سے پڑا۔ اِس ضمن میں اُن کا کہنا تھا کہ’’دراصل کوئی بھی شخص اپنے کام کے لیے اُن کے پاس آتا، تو وہ اُس کام کو اپنے ذمّے لے لیتے۔
ہماری زبان میں جو شخص لوگوں کے اِس طرح بڑھ چڑھ کر کام کرے، اُسے ’’اُدھارا‘‘ کا لقب دے دیا جاتا ہے۔‘‘ وہاں موجود افراد نے بھی اس مؤقف کی تائید کی۔ قاسو اُدھارا کی گرفتاری سے متعلق یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ’’ایک بار اُنھوں نے اسکندر مرزا کی بیوی، ناہید مرزا کو ایک محفل میں ہیروں سے جڑا سونے کا ہار تحفے میں دیا، جس پر وہاں موجود ایّوب خان ہکّا بکّا رہ گئے، تو جب ایّوب خان نے اقتدار سنبھالا، قاسو اُدھارا کو گرفتار کرلیا۔
کہا جاتا ہے کہ پھر موت ہی نے اُنھیں اس قید سے نجات دِلائی۔ جب کہ ایک روایت کے مطابق وہ سِول اسپتال، کراچی میں زیرِ علاج تھے، جس کے دَوران اُن کا انتقال ہوا۔ بہرحال، اب حاجی قاسم بھٹی، میوہ شاہ قبرستان میں مدفون ہیں۔
ہم ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک بچّے نے پکارا’’ بھائی! میری بات سُنیں…!!‘‘ ہم نے مُڑ کر اُس کی جانب دیکھا، تو آٹھ، دس سال کے تین بچّے کھڑے تھے۔ اُن میں سے ایک نے کہا’’آپ اخبار والے ہیں؟‘‘
ہم نے اثبات میں گردن ہلائی، تو اُس نے بڑی معصومیت سے کہا ’’اُن کو بولو ناں، ہمارے لیے میدان بنا دیں، ہم کو کھیلنے کے لیے بابا جزیرہ جانا پڑتا ہے۔‘‘ اور ہم یہ سطور لکھتے ہوئے بھی سوچ رہے ہیں، اِس معصومانہ خواہش کو(جو بچّوں کا بنیادی حق بھی ہے)کس تک پہنچائیں اور اسے کون سُنے گا؟
کراچی کے اطراف درجنوں چھوٹے بڑے جزیرے ہیں، جن میں سے زیادہ تر جزائر غیر آباد ہیں۔ تاہم، بِھٹ، بابا، شمس پیر، صالح آباد اور منوڑا اِس لحاظ سے زیادہ معروف ہیں کہ اِن پر ایک تو صدیوں سے لوگ رہتے چلے آرہے ہیں، تو دوسری طرف اِن جزائر پر کاروبار یا تفریح کی غرض سے بھی عام افراد کا آنا، جانا رہتا ہے۔ جزیرہ بِھٹ کا احوال تو آپ پڑھ ہی چُکے۔’’بِھٹ‘‘ کچھی اور سندھی زبانوں میں ’’چٹان‘‘ کو کہا جاتا ہے، چوں کہ یہ کبھی چٹان کی مانند ایک چھوٹا سا جزیرہ تھا، سو، ’’بِھٹ‘‘کہلایا۔
وقت گزرنے کے ساتھ سمندر کا پانی پیچھے ہٹتا گیا، جس سے اِس کی وسعت میں اضافہ ہوتا رہا۔ اِس کے پڑوس میں بابا آئی لینڈ ہے۔ روزنامہ جنگ کی 29 مارچ کی ایک خبر کے مطابق، بِھٹ اور بابا جزیرے کو 50 کروڑ روپے کی لاگت سے پیڈیسٹرین برج کے ذریعے ملایا جائے گا۔ بابا آئی لینڈ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا جزیرہ ہے، تاہم یہاں بھی ہر طرف غربت کے سائے نظر آتے ہیں۔11 نومبر 1949ء کو یہ جزیرہ اُس وقت اخباری سُرخیوں میں آیا،جب یہاں سے ایک وہیل مچھلی پکڑی گئی، جو ساڑھے اکتالیس فِٹ لمبی اور23 فِٹ موٹی تھی۔اور یہ اُس وقت تک دنیا میں پکڑی گئی سب سے بڑی وہیل مچھلی تھی۔
پیر شمس آئی لینڈ ایک بزرگ سے منسوب ہے، جو وہاں مدفون ہیں۔ایک رائے کے مطابق یہاں ایک زمانے میں بدھ مت کے پیروکار آباد تھے۔ مؤرخین اِس جزیرے کی جانب اِس لیے بھی متوجّہ ہیں کہ یہاں پتھروں کے مینار اُبھر رہے ہیں،جن کے متعلق کہا جارہا ہے کہ شاید وہ کسی قدیم عمارت، بالخصوص مندر کے آثار ہیں۔ تاہم اِس ضمن میں ابھی تک کوئی حتمی بات سامنے نہیں آئی ہے۔کراچی کے زیادہ تر شہری صرف ایک ہی جزیرے سے واقف ہیں، جو اُنھیں تفریح کے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے اور وہ ہے، منوڑا۔
رقبے کے لحاظ سے یہ خاصا وسیع جزیرہ ہے۔ اِس پر قائم قلعہ تالپور عہد میں تعمیر کیا گیا تھا، جب کہ ایک عرصے تک اِسے دیبل بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہاں ہندوؤں، سِکھوں اور عیسائیوں کے قدیم عبادت خانے بھی موجود ہیں، جب کہ یہاں کا لائٹ ہاؤس بھی تاریخی طور پر نہایت اہمیت کا حامل ہے۔نیز، یہاں کی ایک پہچان یوسف شاہ غازی کا مزار بھی ہے، جہاں دُور دُور سے زائرین آتے ہیں۔
ویسے منوڑا اب جزیرے کی تعریف پر پورا نہیں اترتا، کیوں کہ اِسے سڑک کے ذریعے کراچی سے ملا دیا گیا ہے۔ اِسی طرح صالح آباد بھی کبھی جزیرہ تھا، مگر وہ بھی شہر سے مل کر اپنی یہ حیثیت گنوا چکا ہے۔ اِس علاقے میں قیامِ پاکستان سے پہلے سے ماہی گیر آباد چلے آرہے ہیں، جنہیں اِن دنوں تجاوزات کے خلاف ہونے والے آپریشن میں اپنے آبائی گھر کھوئے جانے کے خدشات لاحق ہیں۔