پاکستان کی معیشت کی بنیاد زراعت ہے اور زراعت کا انحصار پانی پر ہے، مگر جب پانی جیسا بنیادی حق بھی ناانصافی، سیاسی امتیاز اور غیر متوازن پالیسیز کی نذر ہو جائے، تو پھر یہ صرف ایک زرعی مسئلہ نہیں رہتا بلکہ ریاستی وحدت کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
بدقسمتی سے حالیہ دنوں میں وفاقی حکومت کی جانب سے چھے نئی نہروں کی تعمیر کا اعلان اِسی ناانصافی کا مظہر ہے، جس میں سندھ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ سندھ پہلے ہی پانی کی شدید قلّت سے نبرد آزما ہے، ایسے میں اِس طرح کے منصوبے صرف ناانصافی ہی نہیں، ایک کُھلی محرومی کا اظہار ہیں۔ واضح رہے، یہ کوئی نیا یا پہلا واقعہ نہیں ہے۔
پاکستان میں پانی کی سیاست کا پس منظر قیامِ پاکستان سے بھی پرانا ہے۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت کو بالائی دریاؤں پر کنڑول ملا، تو پاکستان کو پانی کی دست یابی کے حوالے سے سنگین مشکلات پیش آئیں۔ اِنہی خدشات کے تحت1960 ء میں’’سندھ طاس معاہدہ‘‘ ہوا، جس کے تحت راوی، بیاس اور ستلج دریا بھارت کے حوالے کر دیئے گئے، جب کہ سندھ ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصّے میں آئے۔ اِس معاہدے پر اُس وقت کے صدر، جنرل ایّوب خان نے عالمی دباؤ کے تحت دست خط کیے، جس پر سندھ سمیت کئی حلقوں نے شدید تحفّظات کا اظہار کیا۔
یہ معاہدہ عملی طور پر پاکستان، خصوصاً سندھ کے لیے طویل المدّتی ماحولیاتی اور زرعی خسارے کا آغاز ثابت ہوا۔بعدازاں، بھارت نے بگلیہار، کشن گنگا، رتلے اور دیگر آبی منصوبے شروع کیے، جن کی وجہ سے پاکستان کو ملنے والا پانی مزید کم ہو گیا۔ اِس صُورتِ حال کے سب سے زیادہ منفی اثرات سندھ ہی پر مرتّب ہوئے، کیوں کہ وہ آبی تقسیم میں سب سے آخری صوبہ ہے۔ اِس معاملے کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ جنرل یحییٰ خان کے دَور میں جب بھارت اپنی آبی حکمتِ عملی تیزی سے آگے بڑھا رہا تھا، پاکستان داخلی بحرانوں اور مشرقی پاکستان کی کشمکش میں اُلجھا ہوا تھا۔
اُس وقت نہ تو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزیوں پر کوئی سخت مؤقف اختیار کیا گیا اور نہ ہی بین الاقوامی سطح پر اس کے خلاف کوئی مؤثر آواز بلند کی گئی۔ یہی وہ کوتاہیاں تھیں، جن کا خمیازہ آج سندھ بُھگت رہا ہے کہ اِسے آج بھی پانی کا طے شدہ حصّہ نہیں دیا جا رہا۔ 1991ء میں چاروں صوبوں کے درمیان ہونے والا ’’واٹر اپورشنمنٹ ایکارڈ‘‘ جو ایک متفّقہ فارمولا تھا، اب صرف کاغذ کے ایک ٹکڑے کی حیثیت رکھتا ہے۔
سندھ کو اپنی زمین، آبادی اور ضروریات کے مطابق جو حصّہ دیا گیا تھا، وہ نہ صرف مکمل نہیں دیا جا رہا، بلکہ اس کے برعکس نئے نہری منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں، جو سندھ کے حصّے کو مزید متاثر کریں گے۔ اِس تناظر میں بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ بھارت نے جب بیاس، راوی اور ستلج کا پانی موڑ کر راجستھان کی طرف نہریں تعمیر کیں، تو یہ منصوبے ابتدا میں خوش آئند لگے، مگر جلد ہی پانی کی کمی کی وجہ سے وہ ایک ناکام تجربہ ثابت ہوئے۔ اگر ایک ایسا مُلک، جس کے پاس ہم سے کہیں زیادہ پانی ہے، وہ بھی ایسی نہروں کو پائے دار طریقے سے نہیں چلا سکا، تو پاکستان، جو پانی کی شدید قلّت کا شکار ہے، کیسے کام یاب ہوگا؟ یہ سوال ہر باشعور فرد کے ذہن میں ہونا چاہیے۔
افسوس ناک حقیقت یہ بھی ہے کہ پانی جیسے اہم اور بنیادی مسئلے پر فیصلہ سازی میں وفاقی سطح کے ادارے، جو غیر جانب دار ہونے چاہئیں، اکثر بالائی صوبوں کی ترجیحات سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اِن اداروں کا کردار، جن میں انڈس ریور سسٹم اتھارٹی(IRSA) سرِفہرست ہے، وقت کے ساتھ غیر جانب داری کی بجائے مرکزی حکومت کی پالیسیز کے تابع نظر آتا ہے۔ جب پالیسی ساز ادارے خود طاقت وَر حلقوں کے زیرِ اثر ہوں، تو پِسے ہوئے صوبوں کے حقوق کُچلے جانا ایک معمول بن جاتا ہے۔
یہ صرف سندھ کا مسئلہ نہیں، بلکہ وفاقی توازن کا بنیادی سوال ہے۔ اور یہی وہ لمحہ ہے، جہاں ریاست کو اپنی پالیسیز پر نظرِ ثانی کی اشد ضرورت ہے۔حکومتِ سندھ نے اِن منصوبوں پر برملا احتجاج کیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے ایک حالیہ بیان میں واضح طور پر کہا کہ’’جب تک سندھ کو اس کا جائز پانی نہیں ملے گا، کوئی نئی نہر تعمیر نہیں ہونے دی جائے گی۔‘‘
یہ صرف سیاسی بیان نہیں، بلکہ سندھ کی قیادت نے صوبے کے ہر کسان، ہر باسی اور ہر آواز کی نمائندگی بین الصوبائی کانفرنسز، میڈیا فورمز اور دیگر ادارہ جاتی پلیٹ فارمز پر کی ہے۔ہماری اِس صدا کا مقصد صرف احتجاج کرنا نہیں، بلکہ اپنے آئینی، معاہداتی اور فطری حق کا حصول ہے، کیوں کہ اگر ہم آج خاموش رہے، تو آنے والی نسلیں پانی کے لیے ترسیں گی۔
پاکستان کو ایک شفّاف، متوازن اور سائنسی بنیاد پر قائم آبی پالیسی کی ضرورت ہے، جس میں فیصلے صرف جغرافیے یا سیاسی اثر ورسوخ کی بنیاد پر نہ ہوں، بلکہ مساوات، ضرورت اور بقا کو مدّ ِنظر رکھا جائے۔ سندھ کی زمین پہلے ہی بنجر ہوتی جا رہی ہے، سمندری پانی زرخیز علاقوں کو نگل رہا ہے اور زراعت تباہی کے دہانے پر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر اب بھی چشم پوشی کی گئی، تو یہ صرف سندھ کا نقصان نہیں ہوگا، بلکہ پورے مُلک کی معیشت، خوراک کی خود کفالت اور ماحولیاتی بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے ریاستی اداروں کو آئینی حدود میں رکھ کر، صوبوں کے درمیان برابری اور انصاف کی بنیاد پر پالیسیز تشکیل دیں، کیوں کہ ایک مضبوط پاکستان صرف اُسی وقت ممکن ہے، جب ہر صوبے کو اس کا جائز حق دیا جائے۔ اور یاد رہے، اتحاد صرف انصاف سے قائم رہتا ہے، ناانصافی سے نہیں۔ (مضمون نگار، حکومتِ سندھ کی ترجمان ہیں)