فلسطین کا شہر غزہ، ایک عرصے سے آگ و خون اور بارود کی لپیٹ میں ہے۔تقریباً سوا سال سے جاری اسرائیلی بم باری سے 50ہزار سے زاید افراد شہید ہو چُکے ہیں، جن میں بچّوں کی بھی ایک کثیر تعداد شامل ہے۔ اسرائیل کے اِن ہول ناک مظالم پر پوری دنیا میں احتجاج کیا گیا اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
البتہ مسلم حکومتوں کی جانب سے اسرائیلی مظالم کے خلاف وہ احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا، جس کی توقّع کی جارہی تھی، لیکن اس کے باوجود عوامی سطح پر یورپ، امریکا اور مشرقِ وسطیٰ میں اِن مظالم کے خلاف بہرحال آواز بلند کی گئی، جسے مغربی میڈیا کے عالمی تسلّط کی وجہ سے زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی۔ پوری دنیا کے عوام غزہ کے المیے کو انسانی تاریخ کا سب سے الم ناک سانحہ قرار دیتے ہیں۔
غزہ پر وحشیانہ بم باری پر پاکستانی عوام نے بھی حتیٰ المقدور غم و غصّے کا اظہار کیا اور احتجاجی جلوس نکالے۔ تاہم، اِس سلسلے میں گوجرانوالہ میں مقیم بہن، بھائی نےاحتجاج کا ایک ایسا انوکھا طریقہ اختیار کیا، جس نے دنیا بَھر کی توجّہ حاصل کر لی، یہاں تک کہ خود فلسطینی حکّام نے بھی اِسے کم سِن بچّوں کی ایک ایسی پُرخلوص کاوش قرار دیا، جس نے اسرائیلی مظالم اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ کارنامہ13 سالہ غلام بشر حافی اور 11سالہ عبیدۃ الفضہ نے انجام دیا، جنہوں نے اپنے خون سے اسرائیلی مظالم کے خلاف لکھے احتجاجی مراسلے دنیا کے مختلف رفاہی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اقوامِ متحدہ کے مختلف شعبوں، انسانی بھلائی کے لیے سرگرمِ عمل این جی اوز اور انسانیت پر ہونے والے مظالم کے خلاف برسرِ پیکار اداروں کو ارسال کیے۔ اُنہوں نے اپنے خون سے لکھے یہ احتجاجی خطوط مختلف عالمی ایّام پر تنظیموں کے سربراہان اور سفارت خانوں کو ذاتی طور پر بھی پیش کیے۔
انسانی خون سے لکھے یہ خطوط یا احتجاجی مراسلے جب عالمی اداروں تک پہنچے، تو اُنہوں نے اسے کم سِن بہن، بھائی کی ایثار و قربانی اور مؤثر احتجاج کی ایک منفرد مثال قرار دیا، کیوں کہ اِس سے پہلے کبھی بچّوں نے اِس انوکھے انداز میں ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کی تھی۔ فلسطینی حکّام نے بھی اِسے باضابطہ طور پر تسلیم شدہ چند احتجاجی مہمّات میں سے ایک قرار دیا۔
غلام بشر حافی اور عبیدۃ الفضہ نے اپنی آواز دنیا تک پہنچانے کے لیے کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیا۔ اُنھوں نے اب تک مختلف عالمی ایّام پر منعقدہ جن تقاریب میں اپنے خون سے لکھے احتجاجی مراسلے پیش کیے، اُن میں’’عالمی یومِ انسانی یک جہتی‘‘،’’فلسطینی عوام کے ساتھ یک جہتی کا عالمی دن‘‘،’’عالمی یومِ امن‘‘،’’اقوامِ متحدہ کا عالمی یومِ انسانی ہم دردی‘‘ اور دیگر متعدّد عالمی ایّام شامل ہیں۔
عالمی رہنما، بچّوں کے خون سے لکھے احتجاجی مراسلے دیکھ کر بے حد متاثر ہوئے اور اُنہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ان کے جذبات عالمی سطح پر متعلقہ اداروں اور حکّام تک ضرور پہنچائیں گے۔ اِن بچّوں نے اپنی تحریک کا آغاز 4جون 2024ء کو کیا تھا، جب اُن کے خون سے لکھی تحریریں بچّوں کے عالمی دن کے موقعے پر پیش کی گئیں۔ اِن بچّوں کی خدمات عالمی سطح پر بھی سراہی گئیں اور اقوامِ متحدہ کے ایک ادارے نے اُنہیں خصوصی اعزازات سے بھی نوازا، جن میں’’ grace de monaco international medal‘‘ شامل ہے۔
اسلام آباد میں فلسطینی سفارت خانے نے اِن بچّوں کے اعزاز میں خصوصی استقبالیہ تقریب کا انعقاد کر کے اِن کی خدمات کا اعتراف کیا اور اُنہیں غزہ کے بچّوں کے حق میں ثابت قدمی سے آواز اُٹھانے پر خراجِ تحسین پیش کیا۔فلسطینی سفیر، ڈاکٹر زہیر زید نے ایک تعریفی خط میں اِن بہن، بھائی کے جرأت مندانہ اور پُرخلوص اقدام کی تعریف کرتے ہوئے انہیں انصاف اور انسانیت کے لیے غیر متزلزل حمایت کی علامت قرار دیا۔ اِس استقبالیے میں ڈاکٹر زید کی بیٹی اور بچّوں کے والدین بھی موجود تھے۔
مذکورہ تقریب میں ایک خصوصی دستاویزی فلم بھی دِکھائی گئی، جس میں اِن دونوں بچّوں کی خون سے لکھی احتجاجی تحریروں کا ذکر کیا گیا۔ نیز، پاکستانی بچّوں کو دیئے گئے تعریفی سرٹیفکیٹ میں فلسطینی سفیر، ڈاکٹر زید نے تحریر کیا کہ’’مَیں الفاظ سے قاصر ہوں۔ آپ کی جرأت کی گہرائی، محبّت کی پاکیزگی اور لا محدود ہم دردی نے مجھے بے حد متاثر کیا۔
آپ کے جذبات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانیت اپنی خالص ترین شکل میں اب بھی زندہ ہے۔ آپ کی قربانی عمل میں چاہے چھوٹی ہو، لیکن اس کے معنی بے پناہ ہیں۔ اِن بچّوں کے اِس اقدام نے پاکستان اور فلسطین کے عوام کے درمیان ایک ایسا اٹوٹ رشتہ قائم کر دیا، جو فاصلے اور وقت کی حدود سے بالا تر ہے۔آپ کا خون مجبوروں، بے بسوں اور لاچاروں کی فریادوں، خون کے ساتھ گُھل مِل گیا ہے۔‘‘
بچّوں کے والد، پروفیسر ڈاکٹر اورنگ زیب حافی نے اِس موقعے پر فلسطینی سفیر کا شُکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ’’فلسطینی حکّام نے بچّوں کی جس طرح پذیرائی کی، اِس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلسطین کی ریاست، اِن بچّوں کی خون سے لکھی اِن درخواستوں، قرار دادوں اور احتجاجی نوٹسز کو اپنا قرار دیتی ہے۔‘‘
اُنھوں نے بتایا کہ فلسطینی سفیر، بچّوں سے اِس قدر متاثر ہوئے کہ اُنھیں اپنی حقیقی اولاد کی طرح قرار دیا۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’دنیا کو غزہ کے یتیم بچّوں کے تحفّظ اور بحالی پر فوری توجّہ دینی چاہیے۔‘‘جب کہ تقریب کے دیگر شرکاء نے بھی بہن، بھائی کی خون سے لکھی اِن تحریروں کو ایک منفرد و مؤثر احتجاج قرار دیا۔