• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

واقعات، حکایات، حادثےاور جو باتیں ہمیں بے انتہا دکھ دیتی ہیں ہم کبھی بھول نہیں سکتے۔ اگر کبھی تکلیف دہ بات نکلتی ہے تو پھر بہت دور تلک چلی جاتی ہے۔ پچھلی کتھا میں بات کھل پڑی تھی تاریخ سے کھلواڑ کرنے کی، تاریخ کو مٹانے اور مسخ کرنے کی۔ اس کالم میں مجھے مزید کچھ غور طلب باتیں آپ سے کرنی تھیں۔ تاریخ کا ملیہ میٹ کرنے کی خاطر آپ ثبوت، شہادتیں اور گواہیاں غائب کردیتے ہیں۔ آپ خوش ہوجاتے ہیں کہ آپ نے غلامانہ دور کو تاریخ سے خارج کردیا ہے۔ آپ خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے آبائو اجداد کسی کے تسلط میں نہیں رہے تھے، وہ آزاد آئے تھے اور آزاد اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ اپنے آپ کو خوش اور مطمئن رکھنے کا کس قدر آسان نسخہ بنالیا ہے ہم نے۔ ہم نے آسانی سے بھلا دیا ہے ہم پر چھ سو برس غیرملکیوں نے حکومت کی تھی۔ ان کی تہذیب و تمدن، زبان ہم سے مختلف تھیں۔ ان کا رہن سہن ہم سے الگ تھا۔ ہم پر چار سو برس پٹھانوں اور مغلوں نے حکومت کی تھی، اور دو سو برس انگریز ہمارے حکمراں رہے تھے۔ انیس سو سینتالیس میں ملک سے جاتے ہوئے انگریز نے ہندوستان کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا، دو حصے پاکستان کو ملے تھے اور ایک حصے پر ہندوستان بنا تھا۔ پاکستان کا بڑا حصہ، مشرقی پاکستان چوبیس برس ساتھ رہنے کے بعد انیس سو ستر میں مغربی پاکستان سے الگ ہوگیا تھا اور اس طرح بنگلہ دیش وجود میں آیا تھا۔ تب مغربی پاکستان صرف پاکستان کہلوانے میں آیا۔ کچھ تاریخ داں کہتے ہیں کہ موجودہ پاکستان قائداعظم کا بنایا ہوا پاکستان نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کا بنایا ہوا ہے۔ یہ تکراری اور متنازع موضوع ہے۔ اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔ ہم بات کریں گے ماضی کی گم گشتہ نشانیوں کی، ثبوتوں کی۔

غلامی کے دور کی سب باتیں بری نہیں ہوتیں۔ آزادی کے دور کی سب باتیں اچھی نہیں ہوتیں۔ غلامی کے دور میں آپ سری لنکن منیجر کے سڑکوں پر چیتھڑے اڑا نہیں سکتے تھے۔ آپ اسکی مسخ شدہ لاش کو آگ لگاکر ناچ نہیں سکتے تھے۔ جنونی اور جوشیلے نعرے لگاکر آپ اپنے بہیمانہ فعل کا جشن منا نہیں سکتے تھے۔ امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں چار سو نہتے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا غلامی کے دور کا بدترین واقعہ تھا۔ ایسے واقعات کو کبھی نہیں بھلانا چاہئے بلکہ ایسے واقعات ناقابل فراموش ہوتے ہیں۔ امرتسر میں آج تک جلیانوالہ باغ موجود ہے۔ وہ دیواریں بھی موجود ہیں جن پر انگریز کی گولیوں کے نشان ہیں۔ دیواروں پر گولیوں کے نشان ایک بھیانک یاد کو تازہ کرتے رہتے ہیں۔ انگریز کے دور میں مختلف مذاہب اور عقائد کے لوگ ہم آہنگی سے رہتے تھے۔ کوئی کسی کی عبادتگاہوں کو آگ نہیں لگاتا تھا۔ غلامی کے دور کی یہ اچھی باتیں ہیں۔

انیس سو بیس کے لگ بھگ انگریز نے ہندوستان میں ریل کی پٹریاں بچھادی تھیں اور ریل گاڑی چلا دی تھی۔ صاف ستھرے پلیٹ فارم شہروں کے ریلوے اسٹیشنوں پر بنادیئے تھے۔ عوام میں مقبول ہوجانے کے بعد انگریز نے اپنا مخصوص کھیل کھیلا۔ اسٹیشنز پر عام استعمال کی پانی پینے کی پائپ لائنوں میں ایک ٹونٹی کے ساتھ کچھ فاصلہ پر دوسری ٹونٹی کا اضافہ کردیا۔ ایک ٹونٹی پر تختی لگادی جس پر لکھا تھا ہندو پانی اور دوسری ٹونٹی پر لگی ہوئی تختی پر لکھا مسلمان پانی۔ عرف عام میں اس کو کہتے ہیں Divide and Rule۔ ریل گاڑی کے اندر ملنے والے کھانے کو بھی دو حصوں میں بانٹ دیا۔ ایک تھا ہندو کھانا اور دوسرا تھا مسلمان کھانا۔ حالانکہ انگریز کی اپنی ڈکشنریوں میں ہندو کھانے اور مسلمان کھانے کا ذکر نہیں ہے۔ دو کھانوں کے معنی اور مفہوم میں ایک کھانے کو ویجیٹیرین Vegetarian اور دوسری نوعیت کے کھانے کو Non-Vegetarian نان ویجیٹیرین بتایا گیا ہے۔ ویجیٹیرین کھانے میں آپ کو کھانے کیلئے پکی ہوئی سبزیاں ملتی ہیں اور نان ویجیٹیرین کھانوں میں آپ کو کھانے کیلئے گوشت اور مچھلی ملتی ہے۔ لیکن ہندو اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے دور کرنے کیلئے ویجیٹیرین کھانے کی بجائے ہندو کھانا اور مسلمانوں کیلئےنان ویجیٹیرین کی بجائے مسلمان کھانے کا لفظ استعمال کیا۔ غلامی کے دور کی ایسی باتیں عذاب کے طور پر ہم یاد رکھتے ہیں۔ انگریز جانتا تھا اور جانتا ہے کہ بے شمار ہندو مرغی کا گوشت، مچھلی اور بکرے کا گوشت شوق سے کھاتے ہیں۔ انگریز کا مقصد کھانا کھلانا نہیں تھا۔ انگریز کا مقصد تھا ہندو اور مسلمان کو ایک دوسرے سے دور کرنا۔ انگریز نے اپنا مقصد حاصل کرلیا۔وہ ہندوستان کے تین ٹکڑے کرکے یہاں سے چلے گئے۔

انگریز، ہندو اور پارسیوں نے جتنے اچھے کام کراچی میں کیے تھے وہ شاید ہمیں غلامی کی یاد تازہ رکھنے کے لئے کرگئے تھے۔ ٹرام کا ہماری غلامی سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔ ایک آنے میں آپ کراچی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک آسکتے تھے۔ دنیا کے ہر مہذب اور اچھے شہروں میں ٹرام چل رہی ہیں۔ یورپ کے کسی ملک نے ٹرام پر پابندی نہیں لگائی۔ مجھے آج تک اس افسر کی تلاش ہے جس کے حکم پر کراچی سے ٹرام کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا گیا۔ اگر افسر بہادر نے ٹرام کو غلامی کی یاد سمجھ کر صفحہ ہستی سے مٹادیا تھا، تو پھر ان کے ہی حکم پر بولٹن مارکیٹ سے ٹکری تک بندر روڈ پر لگے ہوئے گھنے درخت کٹوادیئے ہونگے۔ ان کے ہی حکم پر غلامی کے دور کے درختوں کے نیچے لگے ہوئے بینچ اکھاڑ دیئے گئے ہونگے۔ کراچی کی سڑکوں پر لگے ہوئے لوہے کے ڈھکن برمنگھم سے بن کر آتے تھے۔ کراچی کی سڑکوں کے لوہے کے ڈھکن غائب ہوگئے۔ یہ سب چیزیں تمہیں غلامی کے دور کی یاد دلواتی تھیں۔ ایسی تمام نشانیاں مٹا دینے کے بعد ہم مکمل طور پر آزاد ہیں۔

تازہ ترین