• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)‎

‎بعد ازاں امریکی صدر جمی کارٹر نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں سوویت جارحیت پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کی آزادی و سلامتی کو امریکا کیلئے بہت اہم قرار دیا یوں مشترکہ مجبوریوں نے پاکستان اور امریکا کو ایک مرتبہ پھر اتنا قریب کر دیا کہ امریکی دعوت پر صدر ضیاء امریکہ پہنچے تین اکتوبر 1980کو وائٹ ہاؤس میں ان کی صدر کارٹر سے ملاقات ہوئی، جمی کارٹر نے صدر ضیاء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور اس دوستی کی قدر کرتے ہیں جو ہمارے دونوں ممالک کے عوام میں موجود ہے جبکہ صدر ضیاء نے پریزیڈنٹ کارٹر کو گہری سمجھ بوجھ رکھنے والی انسان دوست آزادی پسند شخصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کی حیثیت سے آپ آزاد دنیا کیلئے روشنی کی کرن ہیں۔ درویش کو اس دور کی اخباری رپورٹس کے مطابق آج تک یہ یاد ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے کے مذہبی ہونے کی بھی تعریف کی کیونکہ ‎جنرل ضیاء جس طرح اپنے اسلامی تشخص پر تفاخر رکھتے تھے صدر جمی کارٹر کچھ اسی اسلوب میں سیدنا مسیح علیہ السلام کی تعلیمات کو اپنی انسانی خدمات کا منبع خیال کرتے تھے۔ اگرچہ دونوں کی مذہبیت کا یہ فرق واضح تھا کہ ایک کی مذہبیت نے اپنے سماج میں نہ ختم ہونے والی منافرت کو ابھارا جبکہ دوسرے کی مذہبیت نے دکھی انسانوں کی خدمت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا جمی کارٹر نے اپنی تمام تر لبرل سیکولر اپروچ کے باوجود اپنی مسیحیت کو دل سے اپنائے رکھا۔ صدر جمی کارٹر اکثر یہ کہتے سنائی دیے کہ مجھے سب سے زیادہ خوشی اس وقت ملتی ہے جب میں دوسروں کی زندگیوں میں خوشیاں اور مسکراہٹیں لانے کیلئے کچھ کرتا ہوں اس کے بالمقابل ہم دیکھتے ہیں کہ جنرل ضیا کی مذہبیت نے مسلم سوسائٹی میں نفرت و انتشار کو مزید بڑھاوا دیا البتہ اس مذہبیت سے جو جہادی اپروچ ابھری سوویت جارحیت کے خلاف اس کا خوب استعمال کیا گیا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے بلکہ اسی سال 1979کا سانحہ ہوا جب خانہ کعبہ پر قابض سینکڑوں بنیاد پرست پوری منصوبہ بندی سے حرم شریف کے اندر گھس گئے اور یہ قبضہ چھڑانے کیلئے سعودیوں کو امریکیوں اور فرانسیسیوں کے ساتھ مل کر کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے یہ ایک الگ قصہ اور طویل مضمون ہے لیکن اس اندوہناک سانحہ کو امریکا اور کارٹر انتظامیہ کے خلاف بالخصوص ایرانی لیڈر آیت اللہ خمینی نے کچھ اس طرح استعمال کیا کہ جگہ بہ جگہ امریکی سفارت خانوں پر حملے ہونے لگے اسلام آباد میں بھی امریکی سفارت خانے پر خوفناک حملہ ہوا جہاں دو ہلاکتیں ہو گئیں اور اچھی خاصی تباہی ہوئی، اس حملے میں پاکستان کی مذہبی تنظیمیں پیش پیش تھیں ‎آج اس امر پر بحث ہو سکتی ہے کہ افغانستان پر سوویت جارحیت کے بعد کارٹر انتظامیہ نے جس طرح یہاں مذہبی جہادی نظریے کی آبیاری کی یا اسے استعمال کیا، تو یہ درست فیصلہ تھا یا غلط؟ البتہ اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ سوویت یونین کے پھیلاؤ کو روکنا امریکی ذمہ داری تھی جو ادا نہ کی جاتی تو نہ صرف پر جمی کارٹر بلکہ خود امریکا اپنے چہرے پر لگنے والے اس داغ کو کبھی دھو نہ پاتا۔1917 کے سوویت انقلاب نے جس طرح ویسٹرن ڈیموکریسیز کی نیندیں حرام کر ڈالی تھیں سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کی تخلیق ہی شاید اسے روکنے یا اس کے سامنے ایک بفر اسٹیٹ بنانے کی مغربی اپروچ کا نتیجہ تھی اس لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ جب یہ آفت آندھی کی طرح آگے بڑھتی تو اسے روکنے کیلئے حفظ ماتقدم کے طور پر بنائی گئی ریاست کا استعمال نہ کیا جاتا؟ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ محض امریکن ڈیموکریٹس کا ایشو نہیں تھا، ریپبلکن نے بھی اسے مزید کئی قدم آگے بڑھ کر اپنایا۔ سوویت جبر کو روکنے کیلئے کارٹر کے فوری بعد منتخب ہونے والے ریپبلکن صدر رونالڈ ریگن نے بھی اُس حوالے سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔یہاں تک کہ مختلف افغان مزاحمتی گروہوں کو صدر ریگن نے وائٹ ہاؤس میں مدعو کرتے ہوئے ان کیلئے ’’مجاہدین‘‘ کی اصطلاح استعمال کی اور سٹنگر میزائل سے لے کر اسلحہ اور رقوم پہنچانے میں کہیں کوئی کمی یا کوتاہی نہ برتی البتہ پاکستان کے اصرار پر یہ امداد پاکستانی حکومت کے ذریعے پہنچانے کا پورا یا منظم اہتمام ہوا جس کی اپنی ترجیحات بھی تھیں۔ جیسے کہ حزب اسلامی کے ایک جنگجو گلبدین حکمت یار کو ترجیحاً آگے رکھنا جو امریکی امداد وصولنے میںبھی پیش پیش تھے اور امریکا کے خلاف منافرت پھیلانے میں بھی ہر اول دستے کا رول ادا کر رہے تھے، جماعت اسلامی بھی اس حوالے سے دہرایا دو طرفہ رول ادا کر رہی تھی، کیا یہ سب لوگ ڈبل گیم پاکستانی ایجنسیوں کے ایما پر کر رہے تھے؟ اس درویش کو ایک ایک دن کا ایک ایک واقعہ یاد ہے، جب وہ یہ محسوس کرتا تھا کہ یہ جہادی یلغار امریکی مدد و تعاون سے بلا شبہ سوویت یونین کا بھٹہ بٹھا دے گی لیکن اس کے بعد اس جہادی فلڈ کی خونخوار سوچوں کے دھارے آگے کدھر کو دھاوا بولیں گے؟ اس کی پیش بندی کیوں نہیں کی جا رہی؟ خود امریکی انتظامیہ میں اس کا احساس و ادراک کیوں نہیں؟

تازہ ترین