منطقۂ اقتدار لاہور اور اسلام آباد دونوں جگہوں پر کھانے کی میزیں لگ چکیں، خوانِ نعمت سج چکا۔ چم چم کرتی کراکری اور جگ مگ کرتی کٹلری چنی جا چکی، خوشبودار کھانوں سے بھوک کو بڑھانے کا سامان ہو رہا ہے، کھانوں سے اٹھنے والا دھواں ان کی تازگی کی گواہی دے رہا ہے۔ شہرانِ اقتدار کے کھانے کی میزوں پر چھری اور چمچ دونوں موجود ہیں، چمچے زیادہ ہیں اور چھریاں بہت کم۔ مارگلہ ہو یا باغوں کا شہر لاہور دونوں مقدس مقامات پر کھانے کیلئے چمچ بہت پسند کئے جاتے ہیں چھری کو تو کوئی کوئی ہاتھ لگاتا ہے۔ آج کا منطقۂ اقتدار کیا ہے بس چمچوں کی عزت اور شہرت کا جشن ہے۔
ایک زمانے میں جب کپتان خان جنرل حمید گل کی مشاورت اور جنرل مجیب الرحمان کی پراپیگنڈا سٹرٹیجی کے مطابق سیاست میں انٹری کی منصوبہ بندی کر رہے تھے تو انہوں نے اخبارات میں کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کالموں میں لکھنے والے نے کئی نئی اصطلاحات متعارف کروائیں اور کئی پرانے لفظوں کو نئے معانی پہنائے، ان مضامین میں مغربی کلچر سے متاثر افراد کیلئے براؤن صاحب کی پھبتی اور سیاست میں خوشامدی کلچر کے بارے میں چمچہ کلچر کے عنوانات ابھی تک یاد ہیں۔ خان نے جو لکھا تھا اسے سمجھا نہیں ان کی اپنی حکومت میں بھی خوشامدی کلچر چھایا رہا اور آج بھی اقتدار کے ایوانوں میں چمچے چھائے ہوئے ہیں۔ ذاتی ملازموں کو وزیر اور مشیر کے عہدوں پر بٹھا کر گھر اور حکومت کا فرق مٹا دیا گیا ہے۔ پرسنل اسٹاف آفیسرز (پی ایس اوز) پرسنل سیکرٹریز اور اے ڈی سی ماضی میں کبھی اتنے طاقتور اور بااختیار نہیں ہوئے جتنے آج کل ہیں۔ سیاست اور جینوئن اہل سیاست پچھلی صفوں میں بٹھا دیئے گئے ہیں جبکہ یس سر، یس سر کہنے والے سب سے نمایاں نظر آ رہے ہیں۔ کہنے کو تو یہ ایک سیاسی حکومت ہے مگر اصل میں یہ ذاتی ملازموں کی حکومت ہے۔
اقتدار کی میز پر بیٹھے سربراہوں نے جب اپنی ٹیم چننے کا فیصلہ کیا تو انہیں اپنے ساتھیوں سے زیادہ ملازموں پر پیار آیا، ساتھی برابری چاہتے ہیں حرف تنقید سے بھی باز نہیں آتے مگر ملازم غلامی کرتے ہیں کبھی برابر نہیں بیٹھتے، تنقید تو کجا اختلاف بھی نہیں کرتے بلکہ میاں مٹھو کی طرز پر خوشامد کا راگ اتنا الاپتے ہیں کہ یقین آ جاتا ہے کہ یہ واقعی سچ ہو گا۔ ملازموں کی ٹیم آج وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزیروں کی کچن کابینہ ہے اور یہ کچن کابینہ اس خوبی کے مشورے دے رہی ہے کہ وفاق اور صوبوں کے اہل اقتدار محفوظ ترین ماحول میں ہیں نہ ساتھیوں کی کوئی اہمیت نہ عوام سے میل ملاقات۔ خوش ہیں کہ ہر طرف خوشامد ہے، کہیں سے تنقید اور اختلاف کی آواز نہیں آ رہی۔ کاش کوئی انہیں بتائے کہ آپ میں سے اکثر تو ذاتی ملازموں میں گھرے ہیں آپ کے وزیر، مشیر آپ کے ذاتی ملازم رہے ہیں وہ اختلاف کیوں کریںگے؟ ان کا ہنر تو خوشامد ہے خوشامد کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی تعریف کئے جانے والے کے قدم زمین پر لگنے نہیں دیتی خوشامد انسان کو ہوا میں اڑاتی ہے اور اقتدار کے جھولے ختم ہوتے ہیں تو بندہ سیدھا زمین پر آ گرتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ہر انسان خوش ہوتا ہے کہ وہ اپنے کمفرٹ زون یعنی اپنی سہولت اور سکون کی محفل میں رہے۔ ذاتی ملازموں اور خوشامدیوں سے زیادہ سکون اہل اقتدار کو کوئی نہیں پہنچا سکتا مگر سیاستدانوں کو اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل کر اپنے مخالفوں، اپنے ہم پلہ ساتھیوں حتیٰ کہ گالیاں دینے والوں کی بات بھی سننا پڑتی ہے، وفاقی اور صوبائی کابینہ کا ایک ایک نام لے لیں کیا ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے کمفرٹ زون سے نکلنے کو تیار ہے؟ کیا ان میں کوئی بھی خوشامدیوں کا گھیرا توڑ کر نقادوں کی بھی سنتا ہے؟ یہ سب چمچوں کی سنتے ہیں کبھی چھری کے زخم بھی کھا کر دیکھیں۔ صرف میٹھا میٹھا ہپ ہپ نہ کریں کڑوا بھی چکھیں۔ اہل اقتدار زمینی حقائق سے دور ایک جعلی خواب آور ماحول میں زندہ ہیں، نہ یہ عوام کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اور نہ یہ ’’اتھرے خیالات‘‘ کو سننے کو تیار ہیں۔
وفاق کی طرف دیکھیں تو مہا منتری کی کابینہ میں ذاتی عملے کی فراوانی ہے مزید برآں جو چند سیاسی چہرے باامر مجبوری کابینہ میں شامل کئے گئے ہیں انکے پاس نہ اختیار ہے نہ ان کا کوئی اعتبار۔ اختیارات مہامنتری کے ذاتی سٹاف کے پاس ہیں اکثر وفاقی وزیروں کے کام یا تو رک جاتے ہیں یا ان کی فائلوں میں اس قدر تاخیر کی جاتی ہے کہ وہ ہر وقت پریشان رہتے ہیں، صوبے میں بھی ایسا ہی ہے سیکرٹریوں کا بول بالا ہے اور وزیروں کا حال پتلا ہے۔ صوبائی مہامنتری کے پرنسپل سیکرٹری کی مہر ہر جگہ طاقت چلاتی نظر آتی ہے۔ صحت کے شعبے میں ایک وزیر اور سیکرٹری کی بیک وقت سرد اور گرم جنگ جاری ہے، خاتون سیکرٹری اس قدر طاقتور ہیں کہ اہم ترین سیاسی وزیر حیران پریشان پھرتے ہیں۔ وفاق اور صوبے کی اس صورتحال میں سیاست دب گئی ہے اور نوکر شاہی نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو خوشامد سے اس قدر شیشے میں اتار لیا ہے کہ وہ اپنے ساتھی سیاست دانوں کی کم اور اپنے ذاتی عملے اور نوکر شاہی کی زیادہ سنتے ہیں۔
اگر وفاق اور پنجاب اسی طرح ذاتی ملازموں اور خوشامدی نوکرشاہی میں گھرے رہے تو ٹھنڈے کمروں کی PRESENTATION اور ان کے گھروں کے ڈرائنگ روموں کے کھوکھلے قہقہوں میں ترقی کے راگ تو بہت الاپے جائیں گے مگر وہ کھوکھلی کہانی کے مترادف ہوں گے۔ سیاست تلخ حقائق اور اتھرے خیالات میں سے فتح یاب ہو کر گزرنے کا نام ہے، خوشامدیوں کی محفل میں ڈینگیں مارنے والے سیاسی شکست کھا کر کونوں کھدروں میں پناہ لے لیتے ہیں۔
کابینائیں ہوں یا حکومتی کارکردگی اس میں بالادستی سیاست اور گڈ گورننس کی ہونی چاہیے، سیاسی شکست کی ذمہ داری میں نہ ذاتی ملازم اور نہ نوکر شاہی آپ کا بوجھ اٹھاتی ہے۔ سیاسی شکست یا فتح کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ سیاسی کارکنوں اور سیاسی ساتھیوں نے اٹھانا ہوتا ہے اس لئے انہیں ساتھ چلانا، ان کی عزت کرنا اور ان کا وقار بڑھانا ہی اصل سیاست ہے۔
ماضی میں کامیاب اور ناکام سیاستدانوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ عقدہ وا ہوتا ہے کہ جو سیاستدان اقتدار میں آ کر اپنے ذاتی عملے کی خوشامد اور نوکر شاہی کی جعلی تعریفوں کے جھانسے میں آ کر واقعی سمجھنے لگتا ہے کہ وہ بہت قابل، ذہین اور باکمال ہے وہ دراصل پرلے درجے کا بے وقوف ہوتا ہے اور ناکامی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ وہ لوگ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں جو خوشامدیوں اور چمچوں کی باتوں کو ہنسی میں اڑا دیتے ہیں اور چھریوں، کانٹوں اور تلواروں کے جھرمٹ سے اپنا راستہ بناتے ہیں۔