تحریر، تالیف و تدوین: اشرف شاد
صفحات: 176، قیمت: 1000 روپے
ناشر: پاکستانی ادب پبلی کیشنز، کراچی۔
فون نمبر: 2276331 - 0333
کراچی پریس کلب اپنی شان دار روایات کے سبب مُلکی و عالمی صحافتی اداروں میں ایک خاص مقام کا حامل ہے۔اس کے قیام(1958ء) سے لے کر آج تک ہر سال باقاعدگی سے اس کے عُہدے داروں کا انتخاب ہوتا چلا آ رہا ہے۔ یہاں سے کئی قومی تحریکوں کا آغاز ہوا اور جب قومی رہنماؤں کی آواز دَبائی جا رہی تھی، تو اُس وقت یہیں سے اُن کی صدائیں بلند ہوئیں۔زیرِ نظر کتاب میں کراچی پریس کلب کی ایسی ہی بہت سی روایات اور اِس سے وابستہ شخصیات کو یاد کیا گیا ہے۔
سعید سربازی، امتیاز خان فاران، طاہر حسن خان، سراج احمد، اے ایچ خانزادہ کے پیغامات کے بعد کلب کے ابتدائی50 ارکان میں شامل، حَسین احمد کا تفصیلی انٹرویو دیا گیا ہے، جو کلب کے رُکن بنتے وقت24برس کے نوجوان تھے۔ یہ انٹرویو امین راجپوت(مرحوم) نے کیا تھا۔ حَسین احمد نے کلب کے قیام کا سہرا اقبال حسین برنی( آئی ایچ برنی) کے سَر باندھتے ہوئے ابتدائی دنوں کی یادیں تازہ کی ہیں۔ پھر کتاب کے مرتّب، اشرف شاد نے اگلے52 صفحات پر اپنی پٹاری سے قارئین کے لیے خُوب صُورت یادیں نکالی ہیں۔ شہناز احد نے عبدالحبیب غوری کی یادداشت کو کچھ اِس طرح کھنگالا ہے کہ کلب سے متعلق کئی تاریخی حقائق سامنے آگئے۔
پھر ڈاکٹر توصیف احمد خان نے’’ ٹیرس کے کرسی نشین، انتخابی عمل‘‘ کے عنوان سے جہاں کلب کی یومیہ سرگرمیوں کا دل چسپ نقشہ کھینچا ہے، وہیں انتخابات سے متعلق امور بھی بہت وضاحت سے بیان کیے ہیں۔ اُن کی نگرانی میں برسوں سے انتخابی عمل جاری ہے، اِس سلسلے میں ہونے والے مختلف تجربات، مشاہدات اور انتخابی اصلاحات کا ذکر خاصّے کی چیز ہے۔ مجاہد بریلوی کی مختصر یاد داشتوں کے بعد شہناز احد نے’’کلب کی خواتین ارکان‘‘ کا تعارف پیش کیا ہے، تو مظہر عباس نے پریس کلب کو’’قومی جمہوری اثاثہ‘‘ قرار دیتے ہوئے جمہوریت کے فروغ اور آمریت کے خلاف اِس کا کردار نمایاں کیا ہے۔
اگلے صفحات میں فاضل جمیلی اور فیصل سایانی نے بھی کلب کے ساتھیوں کو یاد کیا ہے۔مضمون نگاروں نے بعض’’نظریاتی منحرفین‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے، یہ اِس لیے اہم ہے کہ اِس تبدیلی نے پریس کلب کے کلچر، سیاست اور مزاج میں بعض تبدیلیاں پیدا کیں۔ کتاب کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اِس کے ذریعے بہت سی اہم شخصیات کی صحافت اور کلب کے لیے خدمات محفوظ کر لی گئی ہیں اور یوں یہ صحافت کے طلبہ کے لیے ایک حوالہ جاتی کتاب قرار پاتی ہے۔ آخر میں کراچی پریس کلب کے سابق صدور اور سیکرٹریز کی فہرست اور متعدّد تصاویر بھی دی گئی ہیں۔ یہ کتاب ڈاکٹر توصیف احمد خان، مجاہد بریلوی، شہناز احد اور حیاء الدین حیات کی معاونت سے مرتّب کی گئی، جب کہ اِس کی فروخت سے ہونے والی تمام آمدنی صحافیوں کی بہبود کے لیے مختص ہے۔